مشیر خاص برائے احتساب شہزاد اکبر نے استعفیٰ دے دیا یا ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ ان کی جگہ بریگیڈیئر (ر) مصدق علی عباسی صاحب مقرر ہوگئے۔ منہ در منہ بہت سی باتیں ہیں جو اَب ایسی راز بھی نہیں۔ کوئی اسے انجام کا آغاز بتا رہا ہے۔ کوئی اداروں کا دباؤ۔ کوئی ناقص کارکردگی وغیرہ۔ کہیں کہیں سے یہ آواز بھی آجاتی ہے کہ جس شعبے میں مشیر یا وزیر کی کارکردگی بہتر نہیں‘ اسے بدل دینا ہی بہتر ہے۔ اسی صورتحال میں خان صاحب کا یہ بیان کہ میں حکومت سے نکل کر زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا‘ مقتدر حلقوں تک ایک پیغام پہنچانے کی کوشش سمجھا جارہا ہے‘ اور یہ بھی کہ وزیراعظم کو یہ احساس ہے کہ انہیں نکالے جانے کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔
روز واٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹوئٹر کی پوسٹس سے موبائل لبالب بھرجاتا ہے۔ خان صاحب کے مخالفین کی طرف سے بھیجی جانے والی ویڈیوز اوربیانات کی تعداد زیادہ ہے۔ خان صاحب نے یہ کہا تھا‘ وہ کہا تھا۔ یہ کیا تھا‘ وہ کیا تھا۔ وہ تمام لوگ جن کے پاس دھیلا بھر اخلاقی اصول بھی کبھی نہیں رہے‘ جن کی ساری زندگی کوایک عنوان دیا جائے تو وہ ''کہہ مکرنی‘‘ ہوگا‘ جن کو کبھی کوئی عہدہ ملا تو انہوں نے بددیانتی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے‘ وہ بھی خان صاحب کی اصول شکنی کا روز ٹھٹھا اُڑاتے ہیں۔ جیسے ان کی اپنی شکل کیلئے آئینہ ٹوٹ چکا ہو۔ سو ان سے توکیا بات کرنی لیکن مجھ جیسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ نہ کٹر حامی‘ نہ شدید مخالف۔ میری طرح وہ لوگ جو ہر ایک کی اصول شکنی سے دلبرداشتہ‘ وعدوں اور دعووں کے ڈسے ہوئے ہیں اور کچھ سوچنا سمجھنا چاہتے ہیں‘ کیا حرج ہے کہ وہ کچھ دیر خود کو عمران خان کی جگہ رکھ کر دیکھیں۔ مخالفت یا حمایت بعد میں طے کرلیجیے گا۔
آج تک یہی ہوا ہے‘ ہر پارٹی کے انتخابات سے پہلے کے وعدے اور حکومت سنبھالنے کے بعد کی پالیسیوں اور کارکردگی میں ہمیشہ زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی تین تین بار برسر اقتدار آئیں لیکن وعدوں کو پورا کرنے کی بات ہوتو ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے شرمندگی بھی نہیں۔ خان صاحب کے معاملے میں یہ قبل ازحکومت وعدے اور دعوے اس لیے زیادہ ہوگئے کہ انہیں کرسی تک پہنچنے کیلئے 22 سال جدوجہد کرنا پڑی۔ جدوجہد بھی مختلف اور مشکل دور میں‘ ان ادوار میں جہاں ہرکچھ عرصے کے بعد حالات‘ برسر اقتدار جماعت اور سربراہ حکومت شکلیں بدلتے رہے۔ ان میں سول حکمرانی کے دور بھی تھے اور پرویز مشرف جیسے طالع آزما کا بدترین دور بھی۔ ان دنوں عمران خان کی یہ مجبوری تھی کہ کبھی کسی جماعت کے ساتھ کھڑا ہونا لازمی اور حالات کا تقاضا تھا اور کبھی کسی دوسری جماعت کے ساتھ۔ اس پرطرہ یہ کہ اقتدار کی دوڑ میں پی ٹی آئی کے سارے حریف تگڑے اور اس کے قد سے بڑے تھے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے مقابل کھڑے ہونا ہرگز آسان نہ تھا۔ یہ جماعتیں سیاسی جوڑتوڑ سے لے کر کردار کشی تک ہر قدم روا رکھتی تھیں۔ صرف خان صاحب کیلئے نہیں ہر ممکنہ مخالف کیلئے۔ ان دوبڑی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بعض جماعتیں سخت حریف بھی تھیں مثلاً سابقہ دور والی ایم کیو ایم۔ جہاں خان صاحب سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کو جان کا خطرہ بھی تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت واحد عمران خان کی ذات تھی جس نے اس جبر کو للکارا تھا۔ یہ بھی یادرہے کہ اس زمانے کی ایم کیو ایم ایک جابر بادشاہ کی طرح اپنے مخالفوں کے خون کی بو سونگھتی پھرتی تھی۔وہ جو بادشاہوں کا دور تھا جس میں ممکنہ حریف شہزادوں کوکسی بھی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا‘ یہ نہ سمجھیں کہ ختم ہوگیا۔ بس اس کی شکلیں بدلی ہیں۔ ملک بھر میں انتخابی تجربہ رکھنے اور جیتنے والے امیدوار سب مخالف پارٹیوں میں تھے اورخان صاحب کے ہاتھ میں زریں اصولوں اور پُرجوش نوجوانوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ انہی کے ساتھ سر ٹکراتے رہے‘ بیان داغتے رہے اور ایک دویا چند نشستوں کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھتے رہے۔
ذرا ایک منٹ یہاں رک کر اوپر کے منظرنامے پر ایک نظر ڈالیں اور انصاف سے خود کو عمران خان کی جگہ رکھ کر سوچیں۔ ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ عمر ڈھل رہی ہے اور مٹھی سے وقت کی ریت تیزی سے پھسل رہی ہے۔ اگر کچھ کرگزرنے کا وقت ہے توتوانائی کے انہی بچے کھچے چند سالوں میں ہے۔ یہ منظر بالکل سامنے ہے کہ آپ اصغر خان کی طرح تھک ہار کرسیاست سے ریٹائر ہوکر ایک طرف بیٹھ جائیں گے۔
یہ وہ وقت ہے جب پی ٹی آئی اور عمران خان کو اپنی پرانی پالیسیاں ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 2013ء سے پہلے بدلتی سوچ غالب آگئی تھی۔ ان تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا تھا اور 2013ء کے انتخاب میں ایک بھرپور لہر کے باوجود اور جیت سامنے کھڑی ہونے کے باوجود ناکامی نے یہ تبدیلیاں تیز تر کردیں۔ خان صاحب نے وہی راستے اختیار کرنے شروع کردیے جن پر چل کر پاکستان میں اقتدار تک پہنچا جاتا تھا۔ اب سوچ یہ ہوگئی کہ یہ سب طریقے اختیار کرکے اقتدار حاصل کیا جائے۔ ایک بار پہنچ جائیں توپھر سب ٹھیک ہوجائے گا اور غیرضروری بوجھ سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیا جائے گا۔ انہی کی وکٹ پرکھیل کر انہی کوشکست دینا نصب العین قرار پایا۔
خواب دکھانے اور بیچنے کا عمل توہر جماعت کی طرح پی ٹی آئی بھی کرتی تھی اب اس بارہ مسالے کی چاٹ پرمزید گرم مسالہ چھڑکا گیا۔ سخت مخالفوں کے کارآمد مخالفوں کے بارے میں طے کیا گیاکہ وہ ہمارے دوست ہیں خواہ ان کا عام تاثر کچھ بھی ہو اور خواہ ان کے بارے میں پہلے کچھ بھی کہا جاچکا ہو مثلاً شیخ رشیدصاحب۔ ناتجربہ کار نوجوانوں کے بجائے منجھے ہوئے اور آزمودہ الیکٹ ایبلز سے رابطہ شروع ہوا۔ مشرف دور‘ قاف لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ۔ ان سب کے ان لوگوں کیلئے دروازے کھول دیے گئے جو اس مرحلے پر کرسی نشین ہونے تک کام آسکتے تھے۔ اس اصول پر خاموش مفاہمت کرلی گئی کہ فلاں امیدوار کا عوام اور سنجیدہ طبقے میں تاثرکیا ہے۔ تین باتیں مدنظر رکھی گئیں۔ امیدوار نامور ہو‘ کارآمد ہو اور کرپشن کا کوئی بڑا کیس اس پر نہ ہو۔ نامور اور بدنام کا فرق بھی بھلا دیاگیا۔ اب پارٹی کو ہرصورت میں اسمبلیوں میں اکثریت چاہیے تھی۔ بہت سے ان لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا جن کے نام سن کر پی ٹی آئی کے حامیوں کو سخت جھٹکا لگا اوروہ دلبرداشتہ ہوئے۔ کراچی کے بازیگر اینکرصاحب کوٹکٹ کا کیا جواز تھا۔ یہی کہ ایک نشست مل جائے گی۔ جوشروع سے پی ٹی آئی کے پُرجوش کارکن تھے اوراس کیلئے قربانیاں دے چکے تھے‘ انہیں نظرانداز کیے جانے کی شکایتیں شروع ہوئیں‘ لیکن یہ سب اسی اصول کے تحت ہورہا تھا۔
یہیں سے وہ راستہ بھی کھلا جس کے ذریعے مقتدراداروں کی درپردہ حمایت سے اپنے نصب العین تک پہنچا جاسکتا تھا۔ عمران خان یہ کہتے بھی رہے اور یہ سوچ ان کے ذہن پر حاوی ہوچکی تھی کہ ملک وقوم کیلئے کچھ کرنے کا راستہ صرف کرسی ہے اورکرسی کا راستہ وہی ہے جو مروج ہے۔ ایک اچھے مقصد کیلئے کچھ اصولوں کی قربانی دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ سوچ کتنی بھی نقصان دہ رہی ہو‘ اتنا ضرورہے کہ اس نے پی ٹی آئی کوکرسی تک پہنچا دیا۔ یہ کہنے کے بعد یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ میں اس طریق کار‘ اس سوچ کا کبھی بھی حامی نہیں تھا لیکن اپنے آپ کواس جگہ پر رکھ کر دیکھوں تو بہت سی مجبورکن مفاہمتیں سمجھ آتی ہیں۔ ورنہ راستہ تھا کیا؟ میں اس کوبھی درست مانتا ہوں کہ اگریہ سب طریقے‘ ہتھکنڈے اور قلابازیاں‘ (ن) لیگ‘ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے ٹھیک ہیں تو عمران خان کو کس بنیاد پر مطعون کیا جائے؟ بات یہی ہے کہ کتابی اصولوں پر بات کرنا آسان ہے ‘ چلنا بے حد مشکل۔خاص توفیق والے تھے وہ جواعلیٰ ترین اصولوں پر چلے بھی اور سرخرو بھی گزر گئے لیکن شاید وہ زمانہ بھی ختم ہوگیا اور وہ لوگ بھی۔ ہر کوئی صاحبِ توفیق کہاں ہوتا ہے؟