تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     30-01-2022

تاشقند کی اصل کہانی کیا تھی؟

تاشقند پر آج تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ اس واضح اور دوٹوک دستاویز کو ایک پراسرار دستاویز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کوئی اسے کشمیر پر سودے بازی یا سرنڈر کہتا ہے‘ کوئی اسے پاکستان کی فتح قرار دے دیتا ہے اور کوئی اسے بھارت کی شکست‘ اور کچھ لوگ یہاں تک جاتے ہیں کہ بھارت کی اس شکست کو وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو معاہدے کے فوراً بعد دل کا دورہ پڑنے اور موت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ تاشقند میں سوویت کونسل آف منسٹرز کے چیئرمین الکسی کوسیجین کی مدد سے شاستری اورصدر ایوب خان کے مابین کیا گفتگو ہوئی؟ اس کے طویل تفصیل ہے، اور اس کے ریکارڈ کئی ملکوں کے پاس محفوظ ہیں مگر یہ بات اب اتنی اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طویل مشق کے بعد دونوں رہنماؤں نے جس دستاویز پر دستخط کیے تھے، وہ کوئی خفیہ دستاویز نہیں تھی اور نہ ہے۔ یہ پاکستان، بھارت، سوویت یونین اور امریکہ کے علاوہ کئی ممالک کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے، اور الیکٹرانک اور کاغذی اشکال میں موجود ہے۔ چونکہ یہاں میری توجہ کا نقطہ ماسکہ صرف ڈی کلاسیفائڈ ہونے والی وہ امریکی دستاویزات ہیں، جن کے ذریعے اس دور میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی عالمی سفارت کاری پر روشنی پڑتی ہے، اس لیے میں یہاں انہی سفارتی دستاویزات کا مختصر حوالہ دے رہا ہوں، اور ان کا سوویت، پاکستانی اور بھارتی دستاویزات کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی لے رہا ہوں، تاکہ کسی غلطی کا احتمال باقی نہ رہے۔ معاہدہ تاشقند کا خلاصہ امریکی نیشنل آرکائیوز کے فارن ریلیشنز کے جنوبی ایشیا پر محفوظ کردہ دستاویزات میں موجود ہے۔ اس آرکائیو میں محفوظ ایڈیٹوریل نوٹ میں لکھا گیا ہے:
''صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے چار جنوری سے دس جنوری انیس سو چھیاسٹھ تک سوویت یونین کے شہر تاشقند میں ملاقات کی۔ ان کی ملاقات اس تنازع پر بات چیت کرنے کے لیے تھی، جو حال ہی میں دیرینہ تنازع کشمیر سے پیدا ہوا تھا۔ سوویت رہنما کوسیجین نے اس معاہدے کو آگے بڑھانے میں بات چیت کے دوران ایک فعال کردار ادا کیا، جس پر دس جنوری کو دستخط کیے گئے۔ ''تاشقند اعلامیہ‘‘ کی شرائط کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان نے دونوں ممالک کے تمام مسلح اہلکاروں کی پانچ اگست انیس سو پینسٹھ سے پہلے والی پوزیشنوں پر مکمل واپسی پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ ''دونوں ممالک طاقت کا سہارا نہیں لیں گے اور اپنے تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کریں گے‘‘۔ اس بیان کے پس منظر میں، کشمیر پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں ہر فریق نے ''اپنا اپنا موقف پیش کیا‘‘۔ دونوں ممالک نے ''معمول اور پُرامن تعلقات کی بحالی کے پختہ عزم کا اظہار کیا‘‘ بشمول جنگی قیدیوں کی واپسی، معمول کے سفارتی تعلقات کی بحالی، اقتصادی، تجارتی، مواصلاتی اور ثقافتی تعلقات کی بحالی کے لیے اقدامات پر غور، اور ''حوصلہ افزائی‘‘ اور ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا عزم کیا‘‘۔
معاہدہ تاشقند پر صدر ایوب خان کے اصل رد عمل کو حسب سابق امریکی سفیر والٹر پیٹرک میکانی نے اپنے ٹیلی گرام میں قلم بند کیا، جو انہوں نے اٹھارہ جنوری کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا۔ میکانی لکھتے ہیں کہ میں نے اٹھارہ جنوری کو صدر ایوب خان سے ملاقات کے دوران انہیں بتایا کہ صدر جانسن اور سیکرٹری رسک نے مجھے ہدایت کی ہے کہ تاشقند معاہدہ کرنے پر صدر ایوب خان کی اعلیٰ مدبرانہ صلاحیتوں کی تعریف کروں۔ میں نے صدر ایوب خان کو مزید بتایا کہ مجھے یہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ امریکہ تاشقند میں ہونے والی پیشرفت کی دلچسپی اور ہمدردی کے ساتھ پیروی کرے گا، اور وہ مفاہمت کے راستے پر چلنے کے لیے مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
صدر ایوب خان نے کہا کہ وزیر اعظم شاستری کو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے امن کی ضرورت کا احساس تھا، اور صدر ایوب خان کے خیال میں شاستری کو کشمیر کے تنازع کے حل کی ضرورت کا بھی احساس تھا۔ صدر ایوب خان کے مطابق تاشقند میں شاستری نے ابتدائی طور پر تئیس ستمبر کی جنگ بندی لائن کو منجمد کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن صدر ایوب خان نے اصولی طور پر اس کی مخالفت کی تھی۔ یہاں صدر ایوب خان نے کہا کہ روسی حکام ہندوستان کو معقول سمت میں لے جانے میں مدد گار تھے۔ ایوب خان نے زور دیا کہ امریکہ بھی ہندوستان کو ساتھ لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن انہوں نے صدر جانسن کے ساتھ اتفاق کیا کہ ہندوستان کو کسی فیصلے پر مجبور کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود، انہوں نے کہا، امریکہ کو کردار ادا کرنا ہے، اور ہندوستان پر اس کا اثر و رسوخ تاشقند کے جذبے کو مضبوط کر سکتا ہے۔ صدر ایوب خان نے کہا کہ کوسیجین نے تاشقند میں دن رات کام کیا۔ ان کے مطابق تاشقند معاہدے میں روسیوں کا بڑا کردار تھا۔ مثال کے طور پر، انہوں نے کہا: بالکل آخر میں ہندوستان نے اعلان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے پر زور دیا تھا، لیکن اس میں دیگر معاملات کی طرح کوسیجین تعمیری اثر و رسوخ استعمال کر کے شاستری کو سمجھانے میں کامیاب رہے تھے۔ صدر ایوب خان کا تاثر تھا کہ کوسیجین بڑا معقول آدمی ہے، اور دلائل سننے کے لیے کھلا ذہن رکھتا ہے۔
میں نے ریمارکس دیئے کہ تاشقند اعلامیہ میں طاقت کے استعمال نہ کرنے کا بیان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تھا، اور پیش گوئی کی تھی کہ پاکستانی عوام یقیناً اس کی وجہ سمجھ جائیں گے۔ صدرایوب خان نے اتفاق کیا کہ پاکستانی عوام تاشقند اعلامیہ کو سمجھیں گے، اور یقین کریں گے کہ ایوب خان کسی بھی صورت میں پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا، ''اگر عوام کسی اور کو چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں‘‘۔
میں نے ایک افسوسناک ستم ظریفی کا مشاہدہ کیا کہ جب بھی پاکستان کسی ہندوستانی لیڈر کے ساتھ امن کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ہندوستانی لیڈر کی موت واقع ہو جاتی ہے، جیسا کہ موہن داس کرم چند گاندھی، نہرو اور اب شاستری کا معاملہ ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا تاشقند میں شاستری کے ساتھ کوئی نجی سمجھوتہ ہوا تھا۔ صدر ایوب خان نے کہا کہ تاشقند اعلامیہ پر دستخط کے بعد شاستری کو راحت محسوس ہوئی تھی۔ پرائیویٹ لنچ کے بعد شاستری نے مشورہ دیا تھا کہ دونوں فریقوں کو ایسے واضح اقدامات کرنے چاہئیں، جن کا اثر واضح ہو، جیسے انخلا پر پاک بھارت فوجی لیڈروں کی ملاقاتیں، ہائی کمشنرز کا فوری تبادلہ، ہوائی راہداری کی بحالی، اور دوسرے اقدامات۔ شاستری کی موت کے بعد صدر خان نے کہا کہ انہوں نے فوری طور پر شاستری کے مشیروں کو بلایا اور ان کو وہ بتایا، جو شاستری نے انہیں نجی طور پر بتایا تھا‘‘۔
قصہ مختصر یہ کہ معاہدہ تاشقند تو ہو گیا تھا، لیکن صدر ایوب خان کے اطمینان اور شاستری کی راحت کے باوجود ابھی معاہدہ تاشقند کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے مابین شکووں اور شکایات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان شکایات میں بھی کشمیر ایک بار پھر سرفہرست تھا، لیکن اب کوئی اس پر سنجیدگی سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ معاہدے کے فوراً بعد صدر ایوب خان نے جانسن کو خط لکھ کر مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی کوشش کی۔ جانسن نے جواب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیے بغیر معاہدے کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اگلی بار اگر مسئلہ کشمیر کا کہیں سنجیدگی سے ذکر ہوا تو وہ شملہ تھا، جس کا احوال آئندہ کبھی ان سطور میں بیان کیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved