پاکستانی قوم کو ایک عادت ہے کہ ہم اپنے حکیم اور ڈاکٹر خود ہی ہیں۔ سیلف میڈی کیشن شوق سے کرتے ہیں اور ایسے ایسے مفید مشورے دیے جاتے ہیں کہ شعبہ ٔطب اور شعبۂ حکمت دونوں شرما جائیں۔ ڈاکٹر سوچتے ہوں گے کہ ہم نے ایویں اتنے سال محنت کرکے ڈگری لی اور یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک خود ساختہ ڈاکٹر موجود ہے۔ ایک بار دورانِ فلائٹ ایک مسافر کی طبیعت بگڑ گئی‘ سب کو لگا کہ اس کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے جبکہ اس نے ریفریشمنٹ بہت کھالی تھی ‘اس کو بدہضمی ہوگئی تھی۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا اور باقی مسافر اپنی اپنی ڈاکٹری اور حکمت جھاڑ رہے تھے۔ ایک شخص کے پاس وہ گولی تھی جو ہارٹ اٹیک کی صورت میں زبان کے نیچے رکھی جاتی ہے۔ میرے پاس وہ دوائی تھی جو معدے کی جلن اور بدہضمی میں لی جاتی ہے۔ اس سے پوچھا کون سی دوائی لے گا تواس نے بدہضمی والی دوائی لی۔ تھوڑی دیر میں اس کی طبیعت بحال ہوگئی تاہم پوری فلائٹ کے مسافر اس کو ایسے ایسے مفید مشورے دے رہی تھی کہ اللہ کی پناہ اور سب اس شخص کے گرد ہجوم لگا کر کھڑے تھے۔ ائیرہوسٹس نے کہا کہ ان کو ہوا ملنا ضروری ہے‘ سب دور ہوجائیں‘ سب بیٹھ جائیں۔ خیر جلن سے آرام والی گولی لینے سے ان کا مسئلہ حل ہوگیا اور ہم سب نے بھی سکون کا سانس لیا کہ چلو معاملہ حل ہوا۔
اکثر لوگ ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور درد کی شکایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں سانس نہیں آرہا‘ ہمیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے جبکہ ہوئی بدہضمی ہوتی ہے۔ کسی بھی شخص کو بدہضمی یا جلن ہوجائے اس کو ایسے ایسے مشورے دیے جاتے ہیں کہ ہنس ہنس کے برا حال ہوجائے۔ پاکستانی سفید کولا پی کر کہتے ہیں کہ اب میں ٹھیک محسوس کررہا ہوں۔ یہ قومی مشروب ہے جو بدہضمی دور کرنے کے لیے پیا جاتا ہے حالانکہ یہ مسئلہ بار بار ہو تو ڈاکٹر کو دکھانا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں معدے اور جگر کے امراض عام ہیں اس لئے خود ساختہ علاج شروع کرنے سے بہتر ہے کہ ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے‘ تاہم پاکستانی اپنے ٹوٹکے مشورے لے آتے ہیں اور اپنا اور دوسروں کا علاج شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت خطرنا ک عمل ہے۔
سب زیادہ نسخے پتلا ہونے کے لیے آزمائے جاتے ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ دبلا پتلا ہونا چاہتی تھیں‘ ہومیووالی دوائی بھی لی ‘ حکیم سے بھی دوائی لے آئیں اور ورزش بھی کرنا شروع کردی۔ پھر ایک دن ٹریڈ مل پر چکر کھا کر گرگئیں۔ جب ڈاکٹر کے پاس ہسپتال پہنچیں تو پتہ چلا کہ ان سب چیزوں کے ساتھ وہ سنا مکی کا قہوہ بھی پی رہی تھیں تو کمزوری اور پانی کی کمی کی وجہ سے چکرا کر بے ہوش ہوگئیں۔سب نے ان کودن رات کے الگ الگ قہوے بتارکھے تھے ۔وہ یہ سب کررہی تھیں ساتھ دوائیاں بھی کھا رہی تھیں تو ان کا حشرنشر ہوگیا۔ ہمارے ہاں ہر چیز میں سیلف میڈی کیشن کا رواج ہے ۔ہر چیز میں لوگ خود سے ہی اپنی بیماریوں کا علاج شروع کردیتے ہیں پھر ان کا حال برا ہوجاتا ہے اور نوبت ایمرجنسی میں جانے تک آ جاتی ہے۔ اس کے بعد انسان طویل علاج کے بعد ٹھیک ہوپاتا ہے۔ وزن کم کرنا ہے تو واک کریں اس سے بہتر کچھ نہیں۔اگر طبیعت خراب محسوس ہورہی ہو تو ڈاکٹر کو دکھائیں‘ خود سے علاج مت شروع کریں۔ ہمارے ہاں اسپرین اورپیراسیٹا مول کو قومی دوائی کا درجہ حاصل ہے۔ ہر چیز کے علاج میں ان کو استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ چیز ٹھیک نہیں‘ اگر طبیعت مکدر ہے تو معالج سے مشورہ لیں ‘خود اپنے حکیم اور ڈاکٹر مت بنیں۔ میرے نزدیک ڈاکٹری علاج‘ حکمت اور ہومیوپتھک سب کی بہت افادیت ہے تاہم انسان مستند جگہ سے علاج کروائے کسی جعلی شخص کے ہتھے چڑھنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
آج کل یوٹیوب اورفیس بک پر مختلف ویڈیوز موجود ہیں جن میں رنگ گورا کرنے‘ پتلا ہونے‘ بال گھنے کرنے‘ تیزابیت کم کرنے یہاں تک کہ کینسر کو ختم کرنے کے نسخے بھی بتائے گئے ہیں۔ یہ سب ہر انسان پراثر نہیں کرتے۔ لوگ کاپی پنسل لے کر بیٹھ جاتے ہیں سب کچھ نوٹ کرکے خود پر آزماناشروع کردیتے ہیں۔ شاید کچھ لوگوں پر یہ اثر کر جاتے ہوں لیکن سب پر یہ اثر نہیں کرتے اور بہت سے لوگ ان سے نقصان بھی اٹھاتے ہیں اور پھر ایک طویل علاج کا خرچہ اٹھانے کے بعد انسان ٹھیک ہوپاتا ہے۔انسان کا جسم کوئی تجربہ گاہ نہیں کہ جو کسی سے سنا وہ آپ نے خود پر آزمانا شروع کردیا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اس کو ہر چیز سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو آرام کرلیں اگر تب بھی تکلیف دور نہ ہو ڈاکٹر کو ضرور دکھائیں۔ بعض اوقات کوئی معمولی سا درد بھی بہت سی تکالیف لئے آتا ہے جبکہ علاج اب سستا نہیں۔ بہت سے ڈاکٹر اب آن لائن بھی معائنہ کرلیتے ہیں اور بہت سی لیبز اب گھر آکر بھی ٹیسٹ لے جاتی ہیں ‘ تو بیماری کو چھپائیں نہیں اس کو برداشت مت کریں‘ فوری طور پر علاج پر توجہ دیں۔ ذاتی طور پر میں تینوں طریقہ ہائے علاج کو آزما چکی ہوں‘ ایلوپیتھک‘ ہومیو پیتھک اور حکمت سب بہت کارآمد ہیں بس شرط یہ ہے کہ انسان مستندجگہ پر جائے اور علاج پر فوری توجہ دے۔
ہر کسی کے مشورے پر کسی کے ٹوٹکے پر آنکھ بند کرکے عمل مت کریں آج کل لوگ نہار منہ سیب کا سرکہ پیتے ہیں اور اس سے وہ پتلا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ معدے کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اسی طرح چھ سات کریموں کا محلول بناکر منہ پر لگایا جاتا ہے یہ بھی اتنا ہی خطرناک ہے کہ رنگ کچھ دن کے لیے تو گورا ہوجائے گا لیکن بعد میں آپ کو جلدی امراض کی طرف لے جائے گا۔ اس کے ساتھ مردوں کے لیے ایسی بہت سی کریمیں یا سپرے بنائے جاتے ہیں کہ وہ لگائیں گے تو ان کے بال گھنے ہوجائیں گے اور گنج پن سے محفوظ رہیں گے‘ اس کا بھی الٹا اثر ہوتا ہے۔میں اکثر یہ بات سوچتی ہوں اگر بال لگوانا اتنا ضروری ہوتا تو شاہی خاندان کے شہزادہ ولیم بال لگوالیتے ‘اگر منہ پر فلر اور سرجری بوٹکس لگوانا ضروری ہوتا تو ملکہ برطانیہ یہ ضرور کرتیں‘ لیکن انہوں نے گریس فل ایجنگ کو ترجیح دی۔ اس لئے ہمیں بھی غیر ضروری کاسمیٹک چیزوں کی طرف نہیں بھاگنا چاہیے۔ آج کل ایک دوڑ چل رہی ہے کہ ہونٹ موٹے کروائے جائیں‘ آئی برو بلیک اور براؤن کروائے جائیں‘ اس میں انسان کا حلیہ ہی بگڑجاتا ہے۔ یہ اس وقت کرلیں اگر کوئی داغ پڑ جائے لیکن اللہ کی طرف سے دی گئی اتنی اچھی شکل کو بگاڑنا نہیں چاہیے۔
میک اپ سے خدوخال کو نمایاں کیا جاسکتا ہے لیکن غیر ضروری سرجری سے پرہیز کیا جائے۔ میں نے اکثر یہ بات محسوس کی ہے کہ جو لوگ اپنی عمر کے حساب سے تیار ہوتے ہیں وہ زیادہ اچھے لگتے ہیں کیونکہ ہم سب پر بڑھاپا آناہے تو اس حقیقت سے بھاگیں کیوں ۔ہمیں اس کو قبول کرنا چاہیے۔ ایک دوڑ جو چل پڑی ہے اس کے ساتھ اپنا نقصان کیوں کریں۔ جسم پر سرجری کراتے ہوئے بعض اوقات لوگ مر بھی جاتے ہیں اس لئے خود کو پتلا کرنا ہے تو واک سے کریں ‘جلد کو اچھا کرنا ہے تو سبزیوں پھلوں کا استعمال کریں۔ خواہ مخواہ کے ٹوٹکے آپ کو موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں‘ اس لئے احتیاط لازم ہے۔کوئی بھی دوائی کھانے سے پہلے یا ٹوٹکا کرنے سے پہلے یا ڈائٹ کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے پوچھیں۔ اس کے بعد اس پر عمل شروع کریں کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔