تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-01-2022

چلیے‘ ابتدا تو ہوئی

ایک زمانے سے اہلِ وطن اپنے حقوق کے لیے ترس رہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں بدعنوانی کا گراف اس حد تک بلند ہوچکا ہے کہ اب بہتری کی کوئی معقول صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں عام آدمی کا مایوس ہو جانا اور اُمید ہار کر لگی بندھی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جانا فطری امر ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں جو کچھ کرنا ہے اور کرنا چاہیے اُس سے بہت دور ہیں۔ صرف زیاں کا نہیں‘ دُکھ اس بات کا بھی ہے کہ اب احساسِ زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ بگاڑ ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے اور ہم ہیں کہ معاملات کو دیکھتے ہوئے بھی اَن دیکھا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے تحت کراچی کے انتہائی بنیادی مسائل حل کرنے کی تحریک اب فیصلہ کن حد تک زور پکڑ چکی ہے۔ یہ معاملہ کے الیکٹرک کی من مانیوں اور چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاج سے شروع ہوا تھا۔ جماعتِ اسلامی کراچی کی قیادت نے احتجاج سے متعلق جارحانہ رویہ اپنایا۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جماعتِ اسلامی ہمیشہ ہی اپنا کردار پوری دیانت سے ادا کرتی آئی ہے۔ اب کے یہ ہوا کہ دیانت میں جوش و خروش اور جارحانہ رویے کا تڑکا بھی لگ گیا۔ یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک باضابطہ تحریک شروع ہوئی جس کا مقصد اہلِ کراچی کو اُن کے تمام حقوق دلانا ہے۔ یہ تحریک اب زور پکڑتی جارہی ہے اور اس معاملے میں جماعتِ اسلامی کی مقبولیت اور کامیابی کو دیکھتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتیں بھی میدان میں آرہی ہیں۔
ایک زمانے سے اہلِ کراچی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ پانی کافی مقدار میں ملتا ہے نہ بجلی۔ اب گیس کی لوڈ شیڈنگ نے بھی لوگوں کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا معاملہ بھی دگرگوں ہے۔ لوگ ان دونوں معاملات میں نجی اداروں سے مستفید ہونے پر مجبور ہیں۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں بھی ہر سطح کی حکومت سنجیدہ ہے نہ دیانت دار۔ صوبائی حکومت اہلِ کراچی کو سرکاری ملازمتوں میں معقول حصہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ مقامی سرکاری اداروں میں بھی غیر مقامیوں کی بھرتیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ مقامی افراد کا احساسِ محرومی و احساسِ زیاں اب نمایاں ہے۔
جماعتِ اسلامی نے اہلِ کراچی کو اُن کے حقوق دلانے کے حوالے سے جو تحریک شروع کی ہے وہ اب بہت اہم موڑ پر ہے۔ ایک ماہ تک سندھ اسمبلی کے باہر دیا گیا دھرنا رنگ لایا ہے۔ اس دھرنے کی کامیابی کے پیشِ نظر ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کو بھی کچھ کرنے کی تحریک ملی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے جماعتِ اسلامی کے دھرنے کی غیر معمولی مقبولیت دیکھتے ہوئے ایک بڑے سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے کچھ کرنے کی ٹھانی اور ریڈ زون میں احتجاج پر کمر بستہ ہوئی۔ یہ احتجاج کس طور کیا گیا اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک ہی دن کا معاملہ اِتنا بگاڑ پیدا کرگیا کہ سندھ حکومت کو جماعتِ اسلامی سے جاری مذاکرات کو منطقی نتیجے تک پہنچانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے احتجاج کے دوران ریڈ زون میں حالت اتنی بگڑی کہ انتظامیہ کو طاقت استعمال کرنا پڑی۔ انتباہ کے باوجود احتجاج وہاں کیا گیا جہاں صوبائی حکومت کی اہم ترین شخصیات ہی نہیں بلکہ غیر ملکی کھلاڑیوں کا بھی قیام تھا۔ معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو مجبور ہونا پڑا۔ اس سے مزید واضح ہوگیا کہ جمہوری انداز سے احتجاج کیا ہوتا ہے۔
شہرِ قائد کے مستقل مکینوں کو حقوق تو درکار ہیں مگر اس طور نہیں کہ بگاڑ پیدا ہو۔ ہر معاملہ خوش اُسلوبی سے طے کیا جانا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی جدوجہد اس اعتبار سے مثالی رہی ہے کہ اس کے دوران نظم و ضبط‘ رواداری اور دیگر امور کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ پوری کوشش کی گئی ہے کہ اہلِ شہر کو حقوق اس طور ملیں کہ کسی بھی مرحلے پر کسی کے لیے کوئی ناخوش گوار احساس پیدا نہ ہو۔ کراچی کی سٹیک ہولڈر ہونے کی دعویدار دیگر جماعتوں نے بھی کراچی کے لیے کچھ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ ایم کیو ایم کی ذمہ داری زیادہ ہے کیونکہ اُسے کم و بیش ڈھائی عشروں تک شہرِ قائد پر جنگل میں اکیلے شیر کی طرح متصرف رہنے کا موقع ملا۔ صوبائی حکومت میں بھی اُس کا حصہ غیر معمولی رہا۔ ایم کیو ایم نے اپنے بھرپور عہدِ اقتدار میں کراچی کے مجموعی مفاد کو بہت حد تک نظر انداز ہی کیا۔ شہر کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کو سیاسی ساکھ اور
ووٹ بینک کی سطح پر جو نقصان اٹھانا پڑا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ شہر بھر میں پارٹی کی پوزیشن ایسی ہے کہ کارکنوں کو اپنے ہی حقوق کے لیے منظم کرنا اور گھروں سے نکالنا ممکن نہیں رہا۔ اس حوالے سے قیادت کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔روایتی سیاسی جماعتوں کے مقابل دینی سیاسی جماعتوں میں بھی صرف جماعتِ اسلامی نے کراچی کو پوری طرح own کرتے ہوئے جدوجہد اور احتجاج کا حق ادا کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ اہلِ شہر بھی اچھی جانتے ہیں کہ اُن کے لیے کون میدان میں نکلا ہے‘ کس نے حقوق دلانے کی بات ڈھنگ سے کی ہے اور کس نے مار بھی کھائی ہے۔
سندھ حکومت نے بلدیاتی قانون کے ذریعے تمام اختیارات اور اداروں کو اپنی مٹھی میں لینے کی جو کوشش کی ہے اُسے ناکام بناتے ہوئے اہلِ شہر کو اُن کے حقوق دلانے کی جماعتِ اسلامی کی جدوجہد سے شہرِ قائد کے مکینوں پر مزید واضح ہوگیا ہے کہ اُن کا حقیقی سٹیک ہولڈر کون ہے۔ وہ اب دیکھ چکے ہیں کہ بعض اداروں کی چیرہ دستیوں کے خلاف سینہ سِپر ہونے کی لگن کس میں ہے اور کون اپنے آپ کو محض نمائشی نوعیت کے احتجاج تک محدود کیے ہوئے ہے۔
کراچی کو محض شہر نہ سمجھا جائے۔ یہ ملک کی حدود میں بسی ہوئی ایک الگ دنیا ہے۔ اس دنیا میں دنیا بھر کے لوگ بسے ہوئے ہیں۔ یہاں کا نسلی‘ لسانی‘ ثقافتی اور ''مزاجی‘‘ تنوع غیر معمولی ہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک بھر کے اہلِ ثروت نے یہاں خطیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ معاشی امکانات کی تلاش میں ملک بھر سے لوگ اس ''شہری دنیا‘‘ کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے مگر افسوس کہ ریڑھ کی ہڈی ہی کو تکلیف سے دوچار رکھ کر اس شہر کو ڈھنگ سے کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں چھوڑا جارہا۔ دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ جس شہر پر قومی معیشت کا مدار ہے اُسی کو انتہائی احمقانہ انداز سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔
شہرِ قائد کو اب زیادہ دیر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی والے شہر کو آخر کب تک سرد خانے میں رکھا جاسکتا ہے؟ اس شہر کی کمائی سے سرکاری مشینری کے پُرزے صرف اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟ شہرِ قائد کے مکین اب تک بنیادی سہولتوں کے لیے پریشان ہیں۔ شہر کا بلدیاتی سیٹ اپ بھی کمزور کردیا گیا ہے۔ ایسے میں اگر الیکشن ہو بھی گئے اور بلدیاتی نمائندے میدان میں آبھی گئے تو کیا کرلیں گے؟ اس تناظر میں جماعتِ اسلامی کی جدوجہد بروقت ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات ملیں گے تو کچھ کر پائیں گے۔ کروڑوں افراد کے حقوق کو جس بے دردی اور بے حِسی سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ وفاقی حکومت نے تو پھر بھی کچھ کرنے پر توجہ دی ہے‘ صوبائی حکومت کا معاملہ انتہائی افسوس ناک رہا ہے۔ شہرِ قائد کو صرف کمائی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس روش کے ترک کیے جانے کی ابتدائی ہوئی ہے۔ اللہ کرے کہ معاملات یوں ہی‘ کسی بڑے بگاڑ کے بغیر‘ آگے بڑھتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved