مری کے مظلوموں کے بعد کسان
حکومت کو پکار رہے ہیں: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر‘ نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مری کے مظلوموں کے بعد کسان حکومت کو پکار رہے ہیں‘‘ جبکہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں نے پکارنا بند کر دیا ہے کیونکہ پکار پکار کر ان کے گلے بیٹھ گئے ہیں اور آواز ہی نہیں نکلتی؛ چنانچہ اب وہ اشاروں میں پکارنے لگے ہیں لیکن حکومت اشاروں کی زبان سمجھتی ہی نہیں‘ اسی طرح 'پولیس مقابلوں‘ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی بھی پکار پکار کر نہ صرف زبان بند ہو چکی ہے بلکہ وہ تو اب اشارے بھی کرنے کے قابل نہیں رہے جبکہ کسانوں کے گلے بھی بیٹھنے ہی والے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان نے ایسی خوشیاں دیں کہ خوشی
کے آنسو سنبھالے نہیں جاتے: شہباز گل
وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے ایسی خوشیاں دیں کہ خوشی کے آنسو سنبھالے نہیں جاتے‘‘ اور عوام خوشی کے آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ بہت جلد خوشی کے بین بھی کرنا شروع کر دیں گے بلکہ خوشی کے آنسو رونے کے علاوہ زار و قطار ہنسنا بھی شروع کر دیں گے اور جب اس سے بھی جی نہ بھرا تو دھاڑیں مار کر کھلکھلانا شروع کر دیں گے جبکہ خوشی سے چیخیں تو پہلے ہی مار رہے تھے اور مہنگائی وغیرہ کے ہاتھوں خوشی کی جو کیفیت ہے‘ اس سے بھی کافی لطف اندوز ہو رہے ہیں اور خوشی کی اتنی زیادتی اور ریل پیل ہے کہ انہیں شادیٔ مرگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، اللہ معاف کرے! آپ اگلے روز اسلام آباد میں بارڈر پار بچھڑے بھائیوں کی ملاقات پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
حکمران گرتی دیواریں‘ ان سے ہمیں
کوئی خطرہ نہیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکمران گرتی دیواریں ہیں‘ ان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں‘‘ اور ان گرتی دیواروں کو صرف ایک دھکا دینے کی ضرورت ہے لیکن اتنا خیال رہے کہ دھکا دیتے وقت یہ دیواریں ہمارے اوپر ہی نہ گر پڑیں جبکہ ہم تو پہلے ہی اس قدر ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں کہ اب ہماری صورت بھی پہچانی نہیں جاتی؛ اگرچہ پہلے بھی ہماری شکل پہچاننے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ شروع سے لے کر اب تک ہم اپنی صورت حال کو مستقل طور پر برقرار رکھے ہوئے ہیں اور حکومت کو پریشان کر رکھا ہے، ہم کم از کم یہی سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لسبیلہ میں کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک بلاول بھٹو اور مریم نواز کے
حوالے نہیں کیا جا سکتا: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد احمد چودھری نے کہا ہے کہ ''ملک بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے حوالے نہیں کیا جا سکتا‘‘ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ ملک کسی کے حوالے کرنے والے کون ہوتے ہیں کیونکہ یہ کام وہی کریں گے جو روزِ اوّل سے کرتے چلے آئے ہیں، اور فی الحال ملک کسی اور کے حوالے کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن اندر کی باتیں وہی جانتے ہیں نیز اگر وہ ہمیں اب تک برداشت کر سکتے ہیں تو مزید مہلت بھی دے سکتے ہیں کیونکہ مہلت بھی اُنہی کے پاس ہے اور یہ انہیں کسی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے ہمارے سمیت سب لوگ خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز جہلم کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
لانگ مارچ حکومت کے خاتمے
کے لئے نہیں ہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ حکومت کے خاتمے کے لیے نہیں ہے‘‘ بلکہ اسے مضبوط کرنے کے لیے ہے تاکہ نواز لیگ کو ناکوں چنے چبوائے جا سکیں جبکہ سینیٹ میں بھی اگر گیلانی صاحب غیر حاضر نہ ہوتے تو حکومت بل منظور کرانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی جبکہ انہیں پارٹی کی ہدایت بھی یہی تھی کہ سینیٹ اجلاس کے بجائے ان کا نور ربانی کھر کی رسمِ قل میں شریک ہونا زیادہ ضروری ہے اور اسی لیے پارٹی نے ان سے غیر حاضر ہونے پر جواب طلبی بھی نہیں کی ہے، بلکہ ایک طرح سے شاباش دی ہے کہ ؎
ایں کاراز تو آید و مرداںچنیں کنند
آپ اگلے روز عمر کوٹ کے قریب کھاڑا سید میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
یک رنگیٔ رسوم سے دل موڑنا بھی ہے
اندر کا قفلِ زنگ زدہ توڑنا بھی ہے
اکثر تو ناز اٹھانا ہے اپنے وجود کا
لیکن کبھی کبھی اسے جھنجھوڑنا بھی ہے
دُنیا سے چھپ کے جانا ہے ممنوع کی طرف
دیوار بھی بچانی ہے سر پھوڑنا بھی ہے
تعمیر کر کے دیکھنا ہے اپنے آپ کو
اور اس نگاہ سے کہ اسے چھوڑنا بھی ہے
چلنا ہے راہِ راست پہ سیدھی نگاہ سے
یکسر کسی اجاڑ کو منہ موڑنا بھی ہے
آئنے پر بلا کی لگانی ہے ضرب بھی
ٹوٹے ہوئے دلوں کو مجھے جوڑنا بھی ہے
اور آہِ گرم اپنی چھپانی ہے شہر سے
اور آہِ سرد جیسا دھواں چھوڑنا بھی ہے
سینے میں پالنا ہے مجھے انقلاب کو
سڑکوں پہ ننگے پاؤں مجھے دوڑنا بھی ہے
آنا ہے ایک موڑ‘ بلا کا نویدؔ موڑ
جس کو ہمیشگی کی طرف موڑنا بھی ہے
آج کا مقطع
خالی فریب ہی دیے رکھا ہمیں‘ ظفرؔ
اندر بُلا لیا کبھی باہر بٹھا دیا