نائن الیون کے بعدافغان جنگ میں امریکا کا اتحادی بن کر پاکستان کو جو نقصان پہنچا‘ وہ ناقابلِ تلافی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات اور خود کش حملوں سے ہماری سکیورٹی فورسز کے 10 ہزار جوانوں اور افسران سمیت 80 ہزار شہریوں کی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا‘ اربوں ڈالرز کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود واشنگٹن نے ہماری عظیم قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلامتی اور خودمختاری کے معاملے میں ہمارا ساتھ دینے کے بجائے بھارت اور دیگر ملک دشمن عناصر کولاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے ڈو مور کے تقاضوں میں کوئی کمی نہیں آسکی۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت نے افغان سر زمین میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے امریکی پشت پناہی سے خطے میں تخریب کاری کو جس طرح پروان چڑھایا گیا‘ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان اور افغان فورسز کے مابین جھڑپوں میں بھارت نے ہمیشہ کی طرح ڈبل گیم کھیلنے کا ڈرامہ رچایا۔ ایک طرف طالبان سے مذکرات اور دوسری جانب اشرف غنی انتظامیہ کو اسلحہ کی فراہمی اس کے مذموم مقاصد کا پردہ چاک کرتی ہے؛ چنانچہ امن عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں میں اب اگر کوئی ملک ملوث ہے تو وہ بھارت ہی ہے جو اپنے توسیع پسندانہ مذموم مقاصد کو ناکام ہوتے دیکھ کر حواس باختہ ہو چکا اور سخت اضطراب میں مبتلا ہے۔ امریکا اور اس کے صہیونی و مغربی اتحادیوں کا خیال تھا کہ افغانستان میں ان کی موجودگی ہی خطے میں چین اور روس کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے کافی ہوگی لیکن 2005ء کے بعد سے افغان طالبان نے اس کی ہر کوشش کو مٹی میں ملا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے یہ تاثر بھی مزید گہرا ہوتا گیا کہ امریکہ اور نیٹو کے تمام ممالک مل کر بھی ا فغان طالبان کو زیر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان نے خطے کے بہترین مفاد کے پیش نظر طالبان کی حکومت کو اقوام عالم میں تسلیم کرانے‘ افغان بحران اوراس سے قبل افغان امن عمل کی تکمیل کیلئے جو کردار اداکیا‘ دنیا اس کی معترف ہے۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہمارا دشمن ہمہ وقت ہمارے ملک کی سالمیت کے درپے ہے۔ جس طرح مختلف علاقوں میں تخریب کاری کی نئی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے‘ بادی النظر میں یہی محسوس ہو تا ہے کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں بھارت کے ساتھ ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی بھی ملوث ہے جسے 'را ‘ اور 'این ڈی ایس‘ کی اشیر باد حاصل ہے۔ مودی نے منظم حکمت عملی کے تحت افغانستان میں ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ طالبان بھی وہی پاکستان مخالف بیورو کریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز استعمال کر رہے ہیں۔ افغان سرحد پر نصب کی گئی باڑ کو نقصان پہنچا کر طالبان نے افغان امن عمل میں نمایاں کردار ادا کرنے والے پاکستان سے متعلق جو ریمارکس دیے‘ ان سے خیر خواہی کے پیغام کا تاثر نہیں ملتا۔ یہ الگ بات ہے کہ باڑ لگانے کا کام‘ کچھ تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہو چکا ہے لہٰذا دہشت گردی کی نئی لہر کے تناظر میں قوم سلامتی کے اداروں کو بھارت اور افغانستان سے متصل سرحدوں پر مکمل چوکس و مستعد رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ شرپسند قوتیں افغانستان کی ناموافق صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیںکہ مزید بدامنی کی صورت میں خطے کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ 80ء کی دہائی کے وسط میںبھی ' را‘ اور ' این ڈی ایس‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی واضح رہے کہ ٹی ٹی پی نے سخت شرائط پیش کرتے ہوئے سیز فائر معاہدہ خود توڑا ہے اور اب قوم، افواج پاکستان اور ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں پر دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کر چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ ہمارا ملک وسطی ایشیا کے لیے ''ایک وسیع دنیائے ارض‘‘ کے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے اور اس پر اللہ کی ایسی خصوصی عنایات ہیں کہ محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے تمام ملکوں کا ہمیشہ سے ہی مملکت خداداد کی طرف جھکائو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرپسند عناصر خصوصی طور پرمتعصب بنیے اور 'را ‘کی گھنائونی سازشوں کامرکز صرف اور صرف پاکستان ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیجنگ کے خطے میں بڑھتے معاشی و سیاسی اثرو رسوخ کو روکنے کیلئے ایک گریٹ گیم جاری ہے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ چین کے پاکستان اور دیگر ملکوں سے مضبوط و ترقی پسند مراسم امریکا اور بھارت کو ایک آ نکھ نہیں بھاتے۔ اسی لیے امریکا اور بھارت میں سی پیک اقتصادی راہداری کی تعمیر و ترقی اور گوادر بندرگاہ کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے مخاصمت پائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تھا تو ہمارے مشرقی دشمن نے ایرانی صوبے سیستان میں واقع 'چا بہار بندر گاہ ‘پر اپنی نظریں جما لیں تھیں۔ بھارت کا چا بہار میں اربوں ڈالرز مالیت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا مقصد پاکستان کی ترقی وخوشحالی کو روکنا اور علاقے میں چین کی بالادستی کو نقصان پہنچانا تھا۔ اب بھی ورکنگ بائونڈری، کنٹرول لائن پر فائرنگ، گولہ باری، بلو چستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں امن و امان کی کوششوں کو سبو تاژ کرکے دراصل پاکستان کے پُر امن امیج کو نقصان پہنچا یا جا رہا ہے تاکہ پی ایس ایل سمیت کسی بھی بین الاقوامی ایونٹ کاپاکستان میں انعقاد مشکل بنایا جا سکے۔ یہ دراصل پی ایس ایل اور آئندہ متوقع غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کے پاکستان کے دورے روکنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ کوئی بھی ایونٹ ہو تو خاص طور پر کراچی کو ٹارگٹ کیا جا تا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کا تشویشناک پہلو یہ تھا کہ اس نے کھیلوں کے میدان تک ویران کر دیے تھے اب جبکہ پی ایس ایل کا میلہ سج گیا ہے‘ یکے بعد دیگرے دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قبل ازیں مارچ 2009ء میں سر ی لنکاکی کرکٹ ٹیم پر لاہورمیں حملہ ہوا تھا جس میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد موصول ہوئے تھے۔ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ وہ ہمیشہ ہمارے تعاقب میں رہتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنا دفاعی بجٹ کم کر رہے ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کڑیاں بھی پاکستان کی سالمیت کے دشمن کی جاری سازشوں سے ملتی ہیں۔ اسے افغانستان میں امن کی بحالی کسی صورت بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ عالمی دہشت گرد تنظیم 'داعش ‘کی سر پرستی بھی بھارتی مذموم سازشوں کی ایک کڑی ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے کیچ میں 10 اہلکاروں کی شہادت، چینی ورکرز پر حملہ اور لاہور بم دھماکے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس سے پہلے اسی علاقے میں 24 دسمبر 2021ء کو بھی ایک حملہ ہوا تھا جس میں دو سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔ را اور این ڈی ایس بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ کر رہی ہیں جبکہ را کا ایک وِنگ بیرونِ ملک بلوچستان میں شورش پھیلانے والے گروپوں کو تحفظ فراہم کرنے پر معمور ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے سلیپرز سیل اور ان تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف جتنا جلد ممکن ہو‘ عملی آپریشن کیا جائے۔ اس سے قبل نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی گئی کارروائیوں سے امن و امان کی بحال میں خوش کن پیشرفت ہوئی تھی۔
ان حالات میں تسلی بخش امر یہ ہے کہ وطن عزیز کی سالمیت عساکرِ پاکستان کے ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہے‘ جسے کمزور کرنے کی دشمن کی سازش نہ تو پہلے کبھی کامیاب ہوپائی ہے اور نہ آئندہ دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو سکے گا‘ ان شاء اللہ۔ موجودہ حالات میں افغانستان میں بڑھتا انسانی بحران ہماری سلامتی و خود مختاری کیلئے نئے چیلنجز کا باعث بن رہا ہے لہٰذا ہمیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔