ہزاروں سال قبل زندگی بہت مختلف تھی۔ غار کے زمانے کا اِنسان ہر معاملے میں شدید عدمِ تحفظ کا شکار تھا۔ اُس کی زندگی محدود تھی۔ چند معمولات تھے جن کی تکمیل سے زندگی بظاہر مکمل ہوجاتی تھی۔ خواہشات کی ایک حد تھی۔ وسائل بھی، ظاہر ہے، کم ہی تھے۔ ہم نے پڑھا ہے کہ معاشیات میں اِنسان کے اُس طرزِ عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو وہ کم سے کم وسائل صرف کرکے زیادہ سے زیادہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اِس حساب سے دیکھیے تو غار کے زمانے کا اِنسان خاصا مکمل تھا۔ ہزاروں سال کے عمل میں اِنسان پتا نہیں کیسے کیسے فکری اور عملی مراحل سے گزرا ہے۔ اِس دوران اُس نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ سب کچھ اجمالاً بھی بیان کرنے کو ہزاروں، بلکہ لاکھوں صفحات درکار ہیں۔ بہتوں نے کوشش کی ہے کہ اِنسان کے علم کا قاموس تیار کریں اور کئی ایسے ہیں جو قابلِ ستائش حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ اِس کالم میں ایسی کاوشیں کرنے والوں کے نام پیش کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ بیان یہ کرنا ہے کہ اِنسان نے ہزاروں سال کی محنت کے بعد بہت کچھ سیکھا ہے مگر کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ع سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں اختیار میں غار کے زمانے کا اِنسان کیا چاہتا تھا؟ دو وقت کی روٹی۔ اِس کے لیے وہ اپنے پورے وجود کو داؤ پر لگا دیتا تھا۔ شکار پر نکلتا تھا تو ایسے ہتھیاروں کے ساتھ جن پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کوئی درندہ گھیر لے تو جان بچانا دشوار ہو جاتا تھا۔ جب زمین سے اناج اُگانے کے عمل کا آغاز نہیں ہوا تھا تب اِنسان کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کا بنیادی وسیلہ شکار تھا۔ گوشت خوراک کا لازمی جُز تھا۔ اب ذرا آج کے اِنسان پر غور کیجیے۔ اُس کی فکر و عمل سے کِس امر کی غَمّازی ہو رہی ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے اور کیا کر رہا ہے؟ آج کے اِنسان نے ایک بڑی سہولت تو سبھی کو عطا کردی ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ غار کے اِنسان کی زندگی کا مطالعہ کرے تو اِس کے لیے ٹائم مشین ایجاد کرکے چار چھ ہزار سال یا اُس سے پہلے کے زمانے کی سیر لازم نہیں۔ آج کے اِنسان کی زندگی بھی غار کے زمانے کی ذہنیت کی بھرپور عَکّاس ہے! ہزاروں سال پُرانے رویّے پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ افروز ہیں۔ تابانی ایسی ہے کہ آنکھیں چُندھیا جائیں۔ جس میں حوصلہ ہے وہ آنکھیں کھولے۔ بصارت کو تقویت مِل کر رہے گی، بصیرت کا البتہ خدا حافظ ہے۔ اِنسان نے شاید طے کر رکھا ہے کہ زندگی کی غزل میں مطلع کے فوراً بعد مقطع لاکر رہے گا اور مقطع میں بھی سُخن گسترانہ بات لازمے کی حیثیت سے موجود رہے گی۔ گزرے ہوئے ہر کل کا اِنسان جن چند خواہشات کا اسیر تھا وہ برقرار ہیں۔ ہزاروں سال کی محنت بھی اِنسان کو تبدیل نہیں کرسکی۔ غار کے زمانے سے جدید ترین عمارتوں تک اِنسان کا سفر گاڑی کے اُس پہیّے کے ’’سفر‘‘ کے مانند ہے جو گڑھے میں پھنس گیا ہو اور ایکسیلریٹر پر دباؤ بڑھانے کے نتیجے میں صرف گھومتا رہا ہو! صدیاں، بلکہ سیکڑوں صدیاں گزر گئیں مگر سوچ کی سُوئی وہیں یعنی مال و منال پر اٹکی ہوئی ہے۔ اِنسان نے بہت کچھ سیکھ کر بھی اب تک کچھ خاص نہیں سیکھا۔ چار پانچ برس سے پاکستانی سرزمین پر رمضان کا ماہِ مبارک چند عجیب تماشوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا رہا ہے۔ اِن تماشوں کا خود رمضان سے کوئی تعلق ہے نہ ہوسکتا ہے۔ ایک دوڑ ہے جس میں بیشتر ٹی وی چینلز شریک ہیں۔ ریٹنگ کی ریس نے سب کچھ بُھلا دیا ہے۔ ویسے بھی اِنسان کو مال و منال کے سامنے کچھ اور یاد رہتا ہی کب ہے؟ ریٹنگ بڑھانے کے لیے ہر فارمولے اور آئیڈیا کو جائز قرار دیا جاچکا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈگڈگی بجائی جارہی ہے۔ اور ہر ڈگڈگی پر ناچنے کے لیے دیدہ و نادیدہ بندر حاضر ہیں۔ جو ہمیں اپنے ڈراموں میں کبھی بُھولے سے بھی دِکھائی نہیں دیتے وہ سیٹ رمضان نشریات میں دِکھائی دے رہے ہیں۔ اِن سیٹس میں اِتنی روشنی بھر دی گئی ہے کہ پُورے ملک کی تاریکی کہیں خلاؤں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ تاریکی میں بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا اور روشنی کی انتہا بھی دیکھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ فرازؔ نے خوب کہا ہے ؎ یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے کہ مُجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے تجارتی ادارے انعامات کا سیلاب، بلکہ انقلاب لے آئے ہیں۔ ایسے میں لوگ اللہ کے انعام و اکرام کو بھی بھول بھال گئے ہیں۔ کسی کسی کو یاد رہ گیا ہے کہ رمضان اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے فیوض و برکات بٹورنے کا مہینہ ہے۔ خُرافات کا دریا بہہ رہا ہے اور سب اُس میں ڈبکی لگانے کو بے تاب ہوئے جارہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ سارے تماشے ماہِ صیام کے نام پر اور اُسی کے کھاتے میں ہو رہے ہیں، جس مبارک مہینے میں ہمیں ہر بُرے کام اور بالخصوص لالچ اور ریا کاری سے روکا گیا ہے اُسی کو ہم نے پوری شِدّت سے گلے لگا رکھا ہے۔ مگر خیر، اِتنا اور ایسا سوچنے کی اب فُرصت ہی کِسے ہے؟ ہزاروں سال پہلے کا اِنسان بھی تو ذرا سے مال و منال پر مَر مِٹتا تھا۔ آج کا اِنسان بھی ایسا ہی ہے۔ تو پھر فرق کیا پڑا ہے؟ یہ واقعی سوچنے کی بات ہے۔ اگر ہزاروں برس کا فِکری سفر بھی ہماری جبلّت کا رُخ تبدیل نہیں کرسکا تو پھر حاصل کیا ہے؟ سوال باٹم لائن کا ہے۔ سفر خواہ کیسا رہا ہو، دیکھا یہ جاتا ہے کہ منزل ملی یا نہیں۔ اِنسان اب بھی اپنی منزل سے بہت دور دِکھائی دیتا ہے۔ اہلِ پاکستان کے لیے سوچنے کو بہت کچھ ہے۔ دُنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ عمومی معیارِ زندگی بلند کرنے کی کوشش ہر قوم کرتی ہے، چند ضابطے اپناتی ہے اور اُن ضابطوں پر عمل کرکے اپنے وجود کو رفعت بخشتی ہے۔ یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مُوسیٰ علیہ السلام جب اللہ سے احکامِ عشرہ لینے کوہِ طُور پر گئے تو نیچے اُن کی قوم کچھ ہی دیر میں ساری تعلیمات بھول کر دوبارہ لہو و لعب میں غرق ہوگئی۔ سونے کا بچھڑا بناکر اُس کی پُوجا شروع کردی گئی۔ ہمارے ہاں بھی انعامات کے ذریعے ایک شاندار بچھڑا بناکر اُس کی پُوجا شروع کرائی گئی ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ صرف ریٹنگ کے لیے؟ اگر ایسا تھا تو یہ سب کچھ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا؟ تجارتی اداروں کو اچانک یہ سب کچھ کیسے یاد آگیا ہے؟ ایسے آئیڈیاز بہت پہلے بھی ’’فلوٹ‘‘ کیے جاتے رہے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ اچانک ہی بہت کچھ ’’ایگزسٹ‘‘ کرنے لگا ہے؟ یہ سب تو کسی باضابطہ منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ پہلے تو معاشرہ اُس سطح پر پہنچایا گیا جو حیوانیت سے بہت دور نہیں۔ مسائل کی چَکّی میں پسنے والے انسانوں کو ایک ایک بنیادی ضرورت کے لیے حیوان بننے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ جنہیں پوری مزدوری بھی نہیں دی جاتی اُنہی کی جیب بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے نام پر پھر خالی کرالی جاتی ہے۔ پست ترین معاشروں ہی میں ایسا ہوتا ہے۔ یعنی ہم بھی پست ترین معاشرہ ہیں۔ یہ اعتراف بہت کچھ سمجھنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ جس طرح لیباریٹریز میں چوہوں پر تجربے کئے جاتے ہیں اور جس طرح کسی پنجرے میں بند جانوروں کو کھلانے پلانے کے نام پر نچایا اور کُدوایا جاتا ہے بس کچھ ایسا ہی منظر ٹی وی پر دِکھائی دے رہا ہے۔ ذہن کی یہ سطح دیکھ کر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ اللہ نے ہمیں ذہن عطا کیا ہے! جن ساعتوں میں عبادات اور وظائف کے ذریعے اللہ کی رحمت کا حصول یقینی بنانے کی سعی کی جاتی ہے اُنہی ساعتوں میں ہم سب کچھ بھول کر اپنی خواہشات اور مال و منال کی ہوس کے غار میں بند ہوکر رہ گئے ہیں! دُنیا ہمیں دیکھتی ہوگی تو کیا سوچتی ہوگی؟ یہی کہ کیا اِس بھیڑ کو قوم کہا جائے؟ مجبور اور لاچار اِنسانوں کو ذرا سے لالچ کے ذریعے کسی بھی حد سے گزرنے پر مجبور کرنے کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے وہ فطری طور پر زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ دُکھ کی بات صرف یہ ہے کہ یہ سب کچھ دین کے نام پر ہو رہا ہے۔ جس دین میں دُنیا اور اُس کے مال و منال سے زیادہ دِل لگانے کی شدید حوصلہ شِکنی کی گئی ہے اُسی دین کے نام پر غریبوں کو لالچ کے سمندر میں غوطے لگانے پر اُکسایا جارہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved