تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-02-2022

جرائم سے بڑا چیلنج کوئی نہیں

کراچی کے مسائل کا شمار کیجیے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس مسئلے کو سب سے اہم گردانیے۔ ہر مسئلہ اپنی جگہ ایک بڑے بحران کا درجہ رکھتا ہے۔ کسی کی نظر میں بنیادی سہولتوں کا فقدان سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی کوکھ سے دوسرے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تعلیم و صحتِ عامہ کی سہولتوں کا فقدان سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے کیونکہ شہر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اِن دونوں حوالوں سے شدید مشکلات کا سامنا کرتا آیا ہے۔ ایک زمانہ تھا (جو خاصا طویل تھا) کہ شہر بھر میں ہر طرف بے امنی اور لاقانونیت کا راج تھا۔ سیاسی تشدد نے انتہائی شکل اختیار کی تو من مانی کا بازار گرم ہوا۔ کم و بیش دو عشروں تک شہر کے نام نہاد سٹیک ہولڈرز تمام سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اس مدت کے دوران شہر کا جو حشر ہوا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اہلِ شہر یہی سمجھتے رہے کہ اُن کے لیے اگر کوئی حقیقی چیلنج ہے تو بے امنی اور لاقانونیت ہے۔ اور اُن کی سوچ کچھ غلط بھی نہ تھی۔ سیاست کے نام پر قتل و غارت کا بازار ایسا گرم ہوا کہ لوگوں کے لیے سکون سے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا۔ خدا خدا کرکے سیاسی تشدد ختم ہوا تو شہر بھر منظم جرائم پیشہ گروہ فعال ہوگئے۔ اُن کے فعال ہونے سے بھی شہریوں کی جان پر بن آئی۔ معاملہ معمولی نوعیت کے جرائم سے ہوتا ہوا اغوا برائے تاوان اور ''سپاری‘‘ (پیسے لے کر قتل کرنا) تک پہنچ چکا ہے۔ جرائم پیشہ گروہوں نے شہریوں کا سکون غارت کر دیا۔ معمولی نوعیت کی چوری چکاری اپنی جگہ مگر جب منظم گروہ میدان میں چند پیسوں کے لیے لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کریں تو فکر مند ہونا بنتا ہے۔
آج کراچی میں دیگر بہت سے مسائل اپنی جگہ‘ کرپشن بھی پریشان کن ہے مگر اِن تمام معاملات سے کہیں بڑھ کر پریشان کن ہیں منظم جرائم۔ شہر بھر میں ایسے گروہ فعال ہیں جنہوں نے بے روزگار اور بے کردار نوجوانوں کو اپنے ساتھ مل کر شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ پورے شہر میں کوئی ایک علاقہ بھی ایسا نہیں جو منظم جرائم پیشہ افراد کی چیرہ دستیوں سے مکمل محفوظ ہو۔ ایک دور تھا کہ منظم گروہ چند علاقوں تک محدود تھے۔ اُن علاقوں میں بھی یہ گروہ چند مخصوص سرگرمیوں میں ملوث ہوتے تھے۔ اِن کے ہاتھوں عام آدمی کے لیے زیادہ پریشان کن صورتِ حال پیدا نہیں ہوتی تھی۔ ملک کے قیام کے بعد کم و بیش پچاس سال تک جرائم پیشہ افراد عام آدمی کو پریشان کرنے والی سرگرمیوں سے دور رہے۔ کبھی لُوٹ مار کا بازار گرم ہوا نہ لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے کا چلن عام ہوا۔ چوریاں تو تھیں مگر چند پیسوں کے لیے کسی کو جان سے مار ڈالنے کا منحوس رواج عام نہیں ہوا تھا۔ موبائل فون اور موٹر سائیکل چھیننے جیسی وارداتیں شہرِ قائد کے مکینوں نے کم دیکھی تھیں۔ اُجرتی قاتلوں نے کرائم مارکیٹ میں انٹری نہیں دی تھی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر تھا مگر جرائم کے اعتبار سے یہ بہت بڑا شہر نہیں تھا۔ پولیس معاملات کو بہت حد تک کنٹرول میں رکھتی تھی۔
آج منظم جرائم پیشہ گروہوں نے شہر پر قبضہ کرلیا ہے، اِسے یرغمال بنا رکھا ہے۔ شہریوں کی ذہنی حالت قابلِ رحم ہے۔ خدا جانے یہ کس دنیا کے جرائم پیشہ افراد ہیں جو خواتین اور بزرگوں تک کا خیال نہیں کرتے، ذرا سی مزاحمت پر گولی مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ کراچی میں جو نوجوان سٹریٹ کرائمز میں ملوث ہیں وہ سب کے سب محض مالی مشکلات کے باعث ایسا نہیں کر رہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ آسانی سے بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جرائم کی دنیا میں آگئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ محنت نہ کرنا پڑے اور دنیا بھر کی سہولتیں میسر ہوں۔ محنت کیے بغیر‘ بہت آسانی سے بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش اِن نوجوانوں کو تیزی سے جرائم کی دنیا میں داخل کردیتی ہے کیونکہ اِن کی خواہش کی تکمیل میں مدد کرنے والے منظم گروہ موجود ہیں جو ایسے نوجوانوں کو جھپٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے نوجوان محض دیکھا دیکھی اور شغل کے طور پر بھی لُوٹ مار کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ بہت حد تک ماحول کی خرابی اور تربیت میں رہ جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کا بھی نتیجہ ہے۔
کراچی ایک وسیع و عریض شہر ہے۔ شہر کی وسعت اتنی ہے کہ کئی منظم جرائم پیشہ گروہ وارداتوں کے بعد بہت آسانی سے کہیں بھی چھپ جاتے ہیں۔ انتظامیہ اُن کا سراغ لگانے اور کوئی ٹھوس کارروائی کرنے سے بالعموم قاصر رہتی ہے اور کتراتی بھی ہے۔ یہ سب کچھ بھی فطری ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والوں کے پاس خاطر خواہ حد تک وسائل ہیں نہ مطلوب لگن۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اعلٰی سطح پر مطلوب سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ دوسری جانب حکومتی مشینری میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ منتخب نمائندے آپس کی لڑائی ہی سے فارغ نہیں ہو پارہے تو مزید کیا کریں گے؟ سیاسی جماعتوں اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پچھاڑنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر شہر کا بیڑا غرق کرتے رہنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کراچی جتنا بڑا شہر ہے اُس کی مناسبت سے قانون نافذ کرنے والوں کے پاس افرادی قوت ہے نہ کچھ کرنے کا جذبہ۔ انتظامی مشینری کے بیشتر پُرزے کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ دور افتادہ علاقوں کے افسر اپنی پوسٹنگ کراچی کراتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مال بنایا جاسکے۔ رشوت ستانی کا معاملہ خطرے کے تمام نشانوں سے اوپر جاچکا ہے۔
آج کل کراچی کو سیاسی اور انتظامی اعتبار سے بامعنی اور بااختیار بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔ کئی سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں۔ اس حوالے سے جماعتِ اسلامی نے ڈول ڈالا اور کامیاب ہوئی۔ اب ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی بھی میدان میں آچکی ہیں۔ کراچی میں غیر معمولی سٹیک رکھنے والی تمام جماعتوں کو سیاسی اور انتظامی سطح پر اختیارات کی بات کرتے وقت شہر کو جرائم سے پاک کرنے کا معاملہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت سے مذاکرات کے وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خاتمے کی بات بھی زور دے کر کی جانی چاہیے۔ جرائم پیشہ گروہوں کو شہر بھر میں دندناتے پھرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پولیس اپنا کام کرنا چاہتی ہے مگر اُس کی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں کچھ کرنے نہیں دیتیں۔ شہر کے انتظامی اور ترقیاتی اداروں کی طرح پولیس اور اُس سے جڑی ہوئی دوسری مشینری میں بھی کرپشن بہت زیادہ ہے۔ عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول محض خواب ہوکر رہ گیا ہے۔ شہر کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر مامور اداروں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ شہر کو پُرامن رکھنے کے ذمہ دار ادارے بھی کمزور ہیں۔ کہیں نفری کا مسئلہ ہے تو کہیں بھرپور قوتِ ارادی کا۔ ایسے میں صوبائی اور وفاقی سطح پر غیر معمولی قوتِ ارادی درکار ہے تاکہ نچلی سطح پر معاملات کے درست کرنے کی راہ نکلے۔
اس وقت کراچی کے شہری ایک طرف تو بنیادی سہولتوں کا فقدان جھیل رہے ہیں اور دوسری طرف اُن کے جان و مال کے لیے خطرات بھی کم نہیں۔ یہ دُہرا عذاب اُن کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دیگر بہت سے معاملات کی طرح شہر کو جرائم پیشہ ذہنیت کی لعنت سے چھٹکارا دلانے پر بھی توجہ دی جائے۔ اگر شہر میں جرائم پیشہ افراد دندناتے پھرتے رہیں گے تو حالات میں وہ بہتری کبھی پیدا نہ ہوسکے گی جس کا ہر شہری خواب دیکھتا آیا ہے۔ بنیادی ڈھانچا بہتر بنانے اور ترقیاتی اداروں کی مجموعی کارکردگی بہتر بنانے سے بھی شہرِ قائد من کی مرادیں نہیں پاسکے گا۔ شہرِ قائد کے ہر مکین کو اس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی وقت پوری آزادی اور احساسِ تحفظ کے ساتھ گھوم پھر سکتا ہے۔ یہ اُس کا انتہائی بنیادی حق ہے جو اُسے ملنا ہی چاہیے۔ شہر کے سٹیک ہولڈرز کا اس طرف جلد سے جلد متوجہ ہونا لازم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved