تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-02-2022

کشمیر کی آزادی

اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور اگر انسان ان کو شمارکرنا چاہے تو شمار نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمت کو (تو) شمار نہ کر پاؤ گے اسے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رحمن میں متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا: ''تو تم اپنے رب کی کون (کون) سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔
انسان اپنے گردوپیش میں خارج اور داخل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کو پہنچاننے سے بالعموم قاصر رہتا ہے۔ اگر انسان اپنے داخل پر غور کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ بینائی، سماعت، ہاتھ، چلنے کی صلاحیت، دھڑکتا ہوا دل، سینے میں آنے والا سانس اور رگوں میں دوڑنے والا لہو، سوچ وفکر کی مثبت لہریں، جذبات، احساسات، محبت اور شفقت، اولاد،بیوی بچے، گھر بار‘ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایسی نعمتیں ہیں جن میں سے کسی ایک بھی نعمت کی قدروقیمت وہی شخص جان سکتا ہے جو ان نعمتوں سے محروم ہے۔ اگر خارج پر غور کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا عطا کردہ دن، اس کی بنائی ہوئی رات اور اس کی عطا کردہ سرگرمیاں،راحت، سکون اور اطمینان‘یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ خارج میں ملنے والی ان نعمتوں کی قدروقیمت اس شخص کو اچھی طرح معلوم ہو سکتی ہے جو ان میں سے کسی ایک نعمت سے محروم ہو۔ جب انسان حالت عافیت میں ہوتا ہے تو بالعموم ان نعمتوں کی قدروقیمت کو پہچاننے سے قاصر رہتا ہے لیکن جب ان نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت چھن جاتی ہے تو اس وقت انسان اس نعمت کے بارے میں انتہائی تشویش کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ جلد یا بدیر اس نعمت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر انسان اپنی کمزوری اور بے بضاعتی پر غورکرے تو فقط وجود سے نکلنے والے فاضل مادے ہی انسان کی سوچ وفکر کو جلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان خارج مادوں کا جسم سے اضافی اخراج انسان کے لیے کوفت، اذیت اور تکلیف کا سبب ہے۔ جبکہ ان فاضل مادوں کا رک جانا اس سے کہیں بڑی اذیت ناک کیفیت ہے۔ ان فاضل مادوں کا جسم سے بر وقت اور معتدل مقدار میں نکلنا انسان کے لیے باعث طمانیت اورسکون ہے۔ انسان اگر فقط آکسیجن اور پانی ہی کی نعمتوں پر غور کرے تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے پیاس کو برداشت کرنا کسی بڑے سے بڑے اور مضبوط اعصاب والے انسان کے لیے بھی ناممکن ہے۔ اسی طرح آکسیجن کی کمی کو انسان چند لمحات سے زیادہ گوارا نہیں کر سکتا اور آکسیجن کی مقدار کو اگر بروقت انسانی جسم میں داخل ہونے کا موقع نہ ملے تو انسان نعمتِ حیات سے ہی محروم ہو جاتا ہے؛ چنانچہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی قدروقیمت کو پہچاننا چاہیے اور ان نعمتوں کو کبھی بھی حقیر نہیں جاننا چاہیے۔ جو انسان ان نعمتوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں اور جو ان نعمتوں پر ناشکری کا رویہ اپناتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت انتہائی شدید ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔
جس طرح انفرادی حیثیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت اپنے اعتبار سے ایک وزن رکھتی ہے اسی طرح اقوام کی زندگی میں اجتماعیت کی حیثیت سے بعض نعمتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ان نعمتوں میں جہاں معاشی استحکام، امن، اطمینان اور دیگر نعمتیں شامل ہیں‘ وہیں ان تمام نعمتوں سے پہلے آزادی کی نعمت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر کوئی قوم محکوم یا غلام ہو اور وہ معاشی اعتبار سے مستحکم اور دیگر وسائل سے مالا مال ہو تو اس کو قرار حاصل نہیں ہو سکتا۔ آزادی کی نعمت کے حصول کے لیے کئی مرتبہ اقوام نے بڑی بڑی لمبی جنگیں لڑیں اور طویل عرصے تک میدانِ کارزار میں مصروف رہیں۔ انہوں نے آزادی کی نعمت کے بدلے معاشی استحکام اور بد امنی کو بھی قبول کر لیا۔ ہمارے سامنے افغانستان کی مثال موجود ہے جس نے طویل عرصے تک سامراج کے سامنے ایک طویل جنگ کوفقط آزادی کے حصول کے لیے لڑا اور اس کے بدلے دنیا کی دیگر بہت سی نعمتوں کاچھن جانا گوارا کر لیا۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد آزادی کی اس نعمت کی قدروقیمت کو جاننے سے قاصر ہے۔ آزادی کی قدروقیمت ان اقوام سے پوچھنا چاہیے جو اس دو رِپُرآشو ب میں آزادی کی جدوجہد کے لیے مسلسل مصروف ہیں۔ فلسطین، برما (میانمار) اور کشمیر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ تینوں اقوام ایک عرصے سے آزادی کی جدوجہد کے لیے برسرپیکار ہیں۔ کشمیرکے عوام آزادی کے حصول کے لیے بہت سی قربانیاں دے چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو ریزی ہو چکی ہے۔ معصوم بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ کشمیر کے عوام کو ان کے جائز حق سے محروم کرنے کے لیے مختلف طرح کے منفی ہتھکنڈوں کا استعمال عرصۂ دراز سے جاری ہے۔
کشمیر کی آزادی کا مسئلہ بنیادی طور پر انسانی مسئلہ ہے اور اس مسئلے پر اقوام عالم کو زبردست طریقے سے آواز اُٹھانی چاہیے لیکن دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ اقوام عالم اس مسئلے میں جانبداری سے کام لے رہی ہیں اور مذہبی بنیادوں پر اہلِ کشمیر کے قضیے اور مسئلے کو نظر انداز کیا جا رہاہے۔ جب ہم انسانی مسئلے پر اقوام عالم کے مردہ اور سوئے ہوئے ضمیر کو دیکھتے ہیں تو یقینا ہر حساس دل پر چوٹ لگتی ہے۔ ایسے عالم میں مسئلہ کشمیر کا دوسرا پہلو سامنے آتا ہے اور وہ مذہبی پہلو ہے کہ دنیائے اسلام سے وابستہ درجنوں ممالک ایسے ہیں جو آزادی ٔ کشمیر کے لیے مؤثر طریقے سے آواز اُٹھا سکتے ہیں لیکن یہ بھی دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ آزادیٔ کشمیر کے لیے مسلمانوں کے اجتماعی فورم سے وہ آواز بلند نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ کچھ سال قبل رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے اس موقع پرجہاں دیگر اہم معاملات کی نشاندہی کی وہیں مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کیا گیا لیکن سچی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر جس توجہ کی ضرورت ہے‘ تاحال بین الاقوامی سطح پر اس کو وہ توجہ حاصل نہیں ہو سکی۔ مسلمانوں کے فورمز کو اس مسئلے میں متحرک کرنے کے لیے عالمِ اسلام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کے مسئلے کا تیسرا پہلو قومی ہے۔ کشمیریوں کو جس وجہ سے ظلم اور بربریت کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے وہ پاکستان سے ان کی وابستگی اور غیر معمولی محبت اور پیار ہے۔ اس محبت اور پیار کی ایک جھلک اس وقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے جب بھارت اور پاکستان کے مابین کھیلوں کے کسی میچ کے دوران پاکستان فتح سے ہمکنار ہوتا ہے، اہل کشمیر اس پر موقع پر یوں محسوس کرتے ہیں گویا وہ بذاتِ خود فتح سے ہمکنار ہوئے ہوں۔
مجھے بھی کشمیری عوام کے جذبات کو مختلف مقامات پر جاننے کا موقع ملا۔ ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی شریف کی طرف آمدورفت کے دوران کشمیری نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جن کی ہم سے وابستگی کی واحد وجہ پاکستان سے تعلق تھا۔ کشمیری نوجوانوں نے اپنی جس روداد کو سنایا یقینا وہ ہر اعتبار سے دکھ اور اذیت بھری داستان تھی اور اس پر جتنا بھی دکھ اور افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔ کشمیری نوجوانوں کا اس موقع پر دبے الفاظ میں پاکستانی قوم سے ایک گلہ تھا کہ وہ عرصۂ دراز سے جس قوم سے محبت کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہیں اور جس وجہ سے اذیتوں کو سہہ رہے ہیں‘ وہ قوم نجانے کیوں ان کے زخموں پر پھاہے رکھنے کے لیے آمادہ وتیار نظر نہیں آتی۔
مختلف سیاسی حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی بساط کے مطابق کام کیا لیکن سچی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو وہ ترجیح حاصل نہ ہو سکی جو اس کا اصل حق ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اس کے اصل حق اور میرٹ کے مطابق حل کرانے کی کوشش کرنا جہاں اقوام عالم اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے‘ اس سے کہیں بڑھ کر یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔مقبوضہ کشمیر کے لیے بیان بازی اور خاموشی جیسے احتجاج کافی نہیں بلکہ اس مسئلے کو سفارتی، سیاسی، خارجی اور عسکری سطح پر غیر معمولی توجہ دینے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرکے اہلِ کشمیر کے دکھوں کا مداوا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جغرافیے کی تکمیل کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ ہم اگر آزادیٔ کشمیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے تو یقینا ہم کشمیریوں پر احسان نہیں کریں گے بلکہ اپنے ہی تشنہ اور ادھورے خوابوں کو مکمل کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ وہ دن جلد لائے جب کشمیر آزاد ہو اور 5 فروری کا دن آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کے بجائے کشمیر کی فتح کے دن کے طور پر ہمیں دیکھنا نصیب ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کشمیر کو جلد از جلد آزاد فرمائے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved