تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-02-2022

اندر کا آئینہ

جھنگ سے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک گائوں میں تین سے گیارہ برس کی چھ بیٹیوں اور ڈیڑھ سال کے ایک بچے کا فرنیچر کی دکان پر کا م کرنے والا باپ لگ بھگ چار ماہ قبل اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تو اس خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ کرائے کا گھراور سات معصوم بچے‘ نہ کوئی آگے نہ پیچھے سوائے بیوہ کے ایک مزدور بھائی کے‘ جو خود آٹھ بچوں کا باپ ہے۔ اس بیوہ کی شوگر کی مریضہ ساس‘ جس کی ایک نیک دل انسان کفالت کر رہا ہے‘ کی زبانی جب یہ داستان آگے پہنچی تو لندن سے ایک ڈاکٹر صاحب نے ان کی دو ماہ کی ضرور یات کیلئے راشن اور کچھ امداد بھیج دی، لیکن پھر نجانے کیوں ان صاحب سے رابطہ ہی نہ ہو سکا۔ دسمبرمیں اپنے طورپر کچھ مدد کر دی گئی لیکن مستقبل کیلئے پریشان تھا کہ امریکا سے ایک اوور سیز پاکستانی کا اچانک پیغام آیا کہ وہ کسی بیوہ اور یتیم کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح چھ بچوں اور بیوہ کے رزق کا وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ نے سات سمندر پار سے ایک شخص کو بھیج دیا‘ واضح رہے کہ اس دوران ایک بچی پیٹ میں پانی بھرجانے کے مرض کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہو چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ''اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے، وہ جہاں رہتا ہے، اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے‘ اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (لکھا ہوا) ہے۔ (سورہ ہود: 6)
1985ء کے صدارتی انتخابات کے دوران برازیل کی سب سے بڑی پارٹی کے صدارتی امیدوار Tancredo Neves اپنی انتخابی مہم کے اختتامی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کے پُرجوش حامیوں نے خیر مقدمی نعروں سے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ اپنے آخری جلسے کی تقریر کے اختتامی مراحل پر صدارتی امیدوار نیوس کو نجانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنے دونوں بازو ہوا میں لہرائے اور سامنے کھڑے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کے جم غفیر سے کہا کہ اگر انتخابات میں پانچ لاکھ ووٹ دلوا دیے تو پھر مخالفین تو کجا‘ خدا بھی مجھے شکست نہیں دے سکے گا۔ انتخابی نتائج سامنے آئے تو سب حیران رہ گئے۔ نیوس نے لگ بھگ تین چوتھائی ووٹ حاصل کیے تھے۔ 660 الیکٹورل ووٹوں میں سے 480 نیوس کو ملے تھے۔ نیوس بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا تھا لیکن منصبِ صدارت کا حلف اٹھانے سے ایک روز پہلے اس کے پیٹ کے نچلے حصے میں ایسا درد اٹھا کہ کسی کو اس کی بیماری سمجھ ہی نہیں آ سکی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں‘ صدارت کا حلف اٹھائے بغیر ہی وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ اسی طرح ٹائی ٹینک جہاز کا یہ قصہ بھی سب نے سن رکھا ہو گا کہ جب دیو ہیکل جہاز تیار ہو کر سمندر میں اپنے پہلے سفر کیلئے روانہ ہو رہا تھا تو اس وقت اس کے مالک سے پوچھا گیا کہ یہ جہاز کس قدر مضبوط اور محفوظ ہے؟ مالک نے جواب دیا کہ یہ اس قدر مضبوط اور محفوظ ہے کہ خدا بھی چاہے تو اسے ڈبو نہیں سکتا۔ تین سال کی مدت میں تیار ہونے والا‘ اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز اپنے پہلے سفر کے پانچویں دن ہی 1500 سے زائد مسافروں کے ساتھ عبرت انگیز تاریخ کے دامن میں اتر گیا۔
اس رب العالمین جس نے سب جہانوں کو پیدا کیا‘ سات آسمان بنائے‘ زمین اس قدر خوبصورت بنائی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں‘ اس زمین پر ہر طرف پہاڑ اس طرح گاڑ دیے جیسے میخیں گاڑی گئی ہوں‘ میٹھے اور کڑوے سمندر بنائے جو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملے ہوئے ہیں لیکن اپنی اپنی حد کے اندر رہتے ہیں‘ اس رب العالمین نے دنیا کو تاریکیوں سے نجات دلانے کیلئے اور بھٹکے ہوئوں کو راہ دکھانے کیلئے اپنے رسول اور پیغمبر مبعوث فرمائے اور سب سے آخر میں اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیﷺ کواس دنیا کا ہادی و رہبر بنا کر بھیجا جن کی حیاتِ مبارکہ کا یہی پیغام تھا کہ مخلوقِ خدا کا خیال رکھو‘ غریبوں اور مساکین کی حاجت روائی کرو‘ کسی کا حق مت کھائو۔ یہ سبق ان کا ہے جنہیں رب کریم نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ نظر آنے اور نظر نہ آنے والی تمام کائنات‘ زمین کے اوپر کی کائنات اور زمین کے نیچے کا خلا‘ سمندروں کے نیچے اور آسمانوں کے اوپر‘ غرض لاتعداددنیائوں پر مشتمل جہانوں کے لیے ہمارے حبیبﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا۔ جب حضور کریمﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی گواہی کُل عالمین کا خالق دیتا ہے اور ہم سب دل و جان سے اس پر یقین رکھتے ہیں تو پھر اس محترم و مکرم اور دل و جان سے عزیز شخصیت کے فرمان اور ان کے دیے گئے اسباق اپنے اوپر لاگو کیوں نہیں کرتے؟
ہمارے ایمان کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ ہم نے کسی لیڈر‘ کسی افسر‘ کسی سیا ستدان یا اپنی ہی خواہشوں کو اپنے اوپر حاوی کر لیا ہے۔ قرآنِ مجید میں کیا خوب نشاندہی کی گئی ہے '' کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا رب بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمے لے سکتے ہو؟‘‘۔ (الفرقان:43)ہم اپنے دنیاوی خدائوں سے تمام تر امیدیں وابستہ کر چکے ہیں۔ اپنے کاروبار‘ تجارت اورملازمت میں بد دیانتی‘ کرپشن‘ جھوٹ اور ہر ناجائز طریقے کو اپناتے ہوئے ہم نے زمینی خدائوں کواپنا رازق بنا لیا ہے۔ ہمارا ایمان کمزور ہوتا جا رہا ہے‘ ہم محض مادی وسائل پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو جھنگ کی بیوہ اور اس کے چھ معصوم بچوں کی مثال سامنے رکھنی چاہئے کہ رازق نے ان بچوں کا رزق جھنگ سے ہزاروں کلو میٹر دور امریکا کی کسی ریا ست میں مقیم ایک شخص کے پاس لکھ رکھا تھا۔ وہ کام امریکا میں کرتا ہے لیکن اس کی کمائی میں ان سات بندوں کا رزق علیحدہ سے شامل تھا۔ ہم سب رب کے دیے میں سے دیتے ہیں‘ اگر وہ نہ دے اور اپنا رزق واپس کھینچ لے تو پھر؟ کبھی سرکاری ہسپتالوں کے ایمر جنسی وارڈز میں جا کر دیکھیں‘غربت اور بے چارگی کی سسکیاں ہر محسوس کرنے والے شخص کی روح اورجسم کو تڑپا کر رکھ دیتی ہیں۔ سوات‘ ناران مری اور سکردو ضرور جائیں‘ لیکن کسی دن چھوٹی چھوٹی گلیوں، کیچڑ اور گندے پانی سے اٹی بستیوں کی بھی سیر کریں‘ وہاں ننگ دھڑنگ بچے اور مفلوک الحال بوڑھی عورتوں کو دیکھیں‘ ان کے ٹوٹے پھوٹے مکان‘ دیواریں اور چھتیں دیکھیں‘ شاید آپ کو خدا کی لاتعداد بخشی گئی نعمتوں کی قدر ہو۔
شانِ کریمی تو سمجھاتی ہے کہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھو لیکن اب کئی کئی سال تک پتا ہی نہیں چلتا کہ ساتھ والے گھر میں کون رہتا ہے۔ ہمسایوں کی گاڑیوں کے ماڈل کے علاوہ ان کے بارے کچھ جان ہی نہیں پاتے۔ نفسا نفسی کا عالم یہ ہے کہ اب رشتہ دار بھی وہی ہے جو آپ کے ہم پلہ و ہم مرتبہ ہے۔ سگے بہن بھائیوں اور خونی رشتے داریاں بھی شان و شوکت کی محتاج ہو چکی ہیں۔ کبھی ہم میں سے کسی نے سوچا ہے کہ ہمارے دلوں میں کتنا کوڑا جمع ہے؟ کیسی کیسی غلاظتوں کے ڈھیر ہمارے اندر بھرے پڑے ہیں؟ مردوں کی ہڈیوں اور سڑے ہوئے گوشت کی بساند بھری ہوئی ہے۔ مکڑیوں نے کتنے جالے ہمارے اندر بُن رکھے ہیں۔ خونخوار چمگادڑوں کی پھڑپھراہٹ سے ہمارا من گونجتا رہتا ہے۔ زہر سے بھرے ناگ چہار سو پھنکار رہے ہیں۔ الوئوں کی کتنی مہیب آوازیں بلند ہو رہی ہیں مگر ہم سب اپنے اپنے باطن کی نا پاکی کو دلفریب تقریروں اور لچھے دار تحریروں سے چھپاتے ہیں۔ ہم اپنی ہی نگاہوں کو اپنے دلوں تک پہنچنے سے روکتے ہیں اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اسلام اور رسولِ خداﷺ کی محبت میں تقریریں تو بہت کی جاتی ہیں مگر ان تقریروں کے مقرر اور سامنے بیٹھے سامعین میں سے شاید ہی کسی کو اپنے باطن پر نگاہ ڈالنے کی فرصت ملتی ہو۔ اپنے اپنے دل کا مقفل دروازہ کھول کر اس کے اندر گرد سے اٹے ہوئے آئینے کو صاف کر کے اپنا حقیقی چہرہ دیکھنے کی کوشش کریں۔ اس 'آئینے‘ میں نظر آنے والی شکل بتا ئے گی کہ تم پکے سچے مسلمان نہیں بلکہ اسلام کے فقط نام لیوا ہو۔ تم رشوت خور، ذخیرہ اندوز، منافع خور، بے ایمان، قبضہ مافیا اور کمزوروں‘ بیوائوں اور یتیموں کا حق کھانے والے اور ایسے افراد کا ساتھ دینے والوں میں سے ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved