تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     04-02-2022

2018ء کے الیکشن کی جعل سازی

عابدحسین قریشی کچھ عرصہ پہلے تک لاہور کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہے ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا اورآخرکار اوکاڑہ میں سول ججی کے آغاز سے لے کر لاہور میں ضلعی عدلیہ کی سربراہی تک بہت کچھ کتاب کی صورت میں لکھ دیا۔ ان کی کتاب ''عدل بیتی‘‘ میں عدلیہ کے بارے میں جہاں بہت سی اندر کی باتیں پتا چلتی ہیں وہاں 2018 ء کے الیکشن کے بارے میں انہوں نے جو لکھا ہے وہ چونکا دینے والا ہے۔ اس الیکشن میں قریشی صاحب خود لاہورکے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تھے یعنی لاہور کا الیکشن عملی طور پر ان کی سربراہی میں ہورہا تھا۔ وہی نتائج کی تیاری کے ذمہ دار تھے اور مشہور زمانہ آرٹی ایس بیٹھ جانے کا حادثہ بھی نہ صرف ان کے سامنے پیش آیا بلکہ انہیں اس کے بعد جو کچھ کرنا پڑا‘ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھ ڈالا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے جب مختلف ریٹرننگ افسروں نے انتخابی عملے کی تربیت شروع کی تو اس میںآر ٹی ایس کے استعمال پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر انہیں بھی انتخابی عملے کو ٹریننگ دینے کے لیے مدعو کیا گیا کیونکہ وہ 1988ء سے مختلف سرکاری حیثیتوں میں انتخابی عمل کا حصہ رہے تھے۔ جب وہ پریزائیڈنگ افسروں کو تربیت دے رہے تھے توانہیں پتا چلا کہ ان کے سامنے تین طرح کے لوگ بیٹھے ہیں۔ ان سے تربیت پانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جوآرٹی ایس کو سمجھ ہی نہیں پارہے تھے۔ بار بار ایک ہی طرح کے سوال کرتے‘ ہر بار جواب پانے کے بعد بھی انہیں کچھ پتا نہ چلتا۔ دوسرے وہ لوگ تھے جنہیں موبائل فون صرف اتنا استعمال کرناآتا تھا کہ وہ اس سے کال کرسکتے تھے‘ یہ آلہ انٹرنیٹ سے کیسے منسلک ہوتا ہے اور اس کے ذریعے معلومات کیسے ایک سے دوسری جگہ پہنچائی جاتی ہیں‘ اس بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ تیسرے لوگ وہ تھے جن کے پاس سمارٹ فون تو دور کی بات سرے سے موبائل فون ہی نہیں تھا۔ تربیت کے یہ پروگرام ملک کے کسی دوردراز حصے میں نہیں ہورہے تھے بلکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں کرائے جارہے تھے اور ان میں شرکت کرنے والے بھی لاہور یا اس کے گردونواح سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے چند تربیتی پروگرام اور ان کے شرکا کی تکنیکی معلومات دیکھتے ہوئے پولنگ سے تین ہفتے پہلے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کرآگاہ کردیا کہ آپ کاآرٹی ایس نہیں چلنے والا اس لیے ابھی سے متبادل بندوبست کرلیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان میں نیچے سے اوپر تک پھیلی نالائقی سے الیکشن کمیشن کہاں محفوظ رہ سکتا ہے‘ اس لیے ان کا خط نظر انداز کردیا گیا۔ 25 جولائی 2018 ء کو جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو وہی ہوا جس کے بارے میں لاہور کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر نے بتادیا تھا۔ اس کے بعد وہ کرنا پڑا جس کے لیے ساری الیکشن مشینری تیار تھی۔آرٹی ایس بند ہوجانے کے بعد امیدواروں کے مجاز نمائندوں کو دعوت دی گئی کہ وہ ریٹرننگ افسر کے دفترآئیں اورنتائج کی تیاری اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ عابد حسین قریشی کے مطابق وہ خود الیکشن کی رات مختلف ریٹرننگ افسروں کے دفتروں میں گئے جہاں سبھی امیدواروں کے نمائندے موجود تھے اور ان انتظامات سے نہ صرف پوری طرح مطمئن تھے بلکہ ان کی ستائش بھی کررہے تھے۔
عابد حسین قریشی نے 2018 ء کے انتخابی عمل کا وہ حصہ بیان کیا ہے جو ووٹ ڈالنے سے پہلے اور ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ہے۔ ظاہر ہے لاہور کی حد تک ان کے مشاہدے کو تو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ وہ خود اس عمل کے نگران تھے۔ ان کے بیان کردہ واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے توکم ازکم لاہور میں تو کسی دھاندلی کا سراغ ووٹنگ مکمل ہونے سے نتائج کی تیاری تک‘ کہیں نہیں ملتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لاہور میں دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر کہاں ہوئی؟ اس سوال کا کوئی مربوط جواب پاکستان مسلم لیگ (ن) الیکشن کے ساڑھے تین برس بعد بھی نہیں دے سکی۔ میں نے ذاتی طور پر2018 ء کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے لے کر نتائج کی تیاری تک دھاندلی تلاش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ میری اس جدوجہد کا مبلغ نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف علاوہ دیگر پارٹیوں کا جو امیدوار جہاں سے ہارا ہے‘ اس کے اپنے خیال میں اسے مقتدرہ نے ہرادیا ہے۔ اس سے اگر ثبوت مانگو تواکثرآئیں بائیں شائیں سننے کو ملتی ہے۔ گویاآج کی تاریخ تک ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جو الیکشن میں ووٹنگ سے لے کر نتائج کی تیاری تک کہیں‘ کسی منظم دھاندلی کا پتا دیتا ہو۔ جہاں تک امیدواروں کا ایک پارٹی سے اچھل کر دوسری پارٹی میں جانے کا تعلق ہے تو ایک الگ بحث ہے اور اس میں کس کا کیا کردار ہے‘ اس بارے میں بات ہوتی رہے گی۔ بہرحال مسلم لیگ( ن) کو یہ داد تو دینا پڑتی ہے کہ اس نے بڑی سہولت کے ساتھ اپنی انتخابی شکست کو الزام لگا لگا کر اپنی اخلاقی فتح میں بدل ڈالا ہے۔
2013 ء کے الیکشن میںآرٹی ایس کی طرح کا ایک فضول تجربہ مقناطیسی روشنائی کا تھا۔ اس وقت نادرا کی سربراہی آج کی طرح طارق ملک صاحب ہی کے پاس تھی اورمقناطیسی روشنائی کے استعمال کا آئیڈیا انہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس روشنائی سے انتخابات نے شفاف تو کیا ہونا تھا الٹا اسی وجہ سے پورا انتخابی عمل مشکوک ہوکررہ گیا۔ میں اس وقت بھی دنیا ٹی وی کی طرف سے الیکشن کور کرنے والی ٹیم کا حصہ تھا‘ اس وقت بھی کوشش کے باوجود مجھے دھاندلی کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔ جب عدالتوں میں چند انتخابی حلقوں کے لیے ووٹ کی پرچی پر لگے انگوٹھے چیک ہوئے اور پتا چلا کہ یہ جعلی ہیں تو پھر تجسس پیدا ہوا کہ آخر یہ کیسے ہوا۔ میں نے کسی نہ کسی طرح یہ بندوبست کیا کہ مخصوص سیاہی سے لگے ہوئے انگوٹھے کے نشان کو مشین سے گزار کر اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے کہ یہ کیسے جعلی ووٹ کو پہچانتی ہے۔ میں نے جب یہ عمل خود دیکھ لیا تو پتا چلا کہ مقناطیسی روشنائی محض ایک مفروضہ ہے۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہے تو بس اتنی کہ کسی مخصوص دستاویز پر کوئی تربیت یافتہ شخص انگوٹھا لگائے تو اس نشان کے ذریعے اس کی شناخت ممکن ہے۔ قومی سطح کے الیکشن میں یہ طریقہ سوائے ایک مذاق کے کچھ نہیں۔ اس طریقے کا بس یہ فائدہ یا نقصان ہوا کہ خان صاحب نے اس کے زور پر اپنی بھرپور سیاسی مہم چلائے رکھی۔
مقناطیسی روشنائی اورآرٹی ایس کی شہرہ آفاق ناکامی کے بعد اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سلسلہ شروع ہے۔ گویا ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھنا۔ ہم اتنے نالائق ہیں کہ اب تک یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہمارے الیکشن کا مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے رویے اوراحساسِ کمتری کے ماری ہوئی قوموں کی طرح سازشی تھیوریوں کا بیوپار ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں دراصل افراد کی جاگیریں ہیں۔ اگریہ افراد الیکشن کے نتائج تسلیم کریں تو جمہوری اصول کے مطابق انہیں اپنی جماعت کی سربراہی چھوڑنا ہوگی جیسے مہذب جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔ ان سیاسی جاگیرداروں کی بقا ہی اس میں ہے کہ الیکشن لڑیں‘ جیت جائیں تو سبحان اللہ ورنہ جیتنے والے پر تواتر کے ساتھ سازش کا الزام لگاتے رہیں۔ عمران خان 2013 ء کا الیکشن ہارے مگر نہیں مانے‘ مسلم لیگ (ن) 2018 ء کا الیکشن ہاری مگر اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں۔ ہمارے سیاستدان اپنے رویے بدلنے کو تیار نہیں اس لیے ہمارا الیکشن جتنا بھی شفاف ہو‘ اس پر کوئی نہ کوئی انگلی اٹھاتا رہے گا۔ مقناطیسی روشنائی سے لے کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین تک ہم کچھ بھی نہیں مانیں گے؛ البتہ میرے جیسے صحافیوں کا سازشی تھیوریوں کا بیوپار ضرور چلتا رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved