اگر آج کی اس تحریر میں آپ کو قورمے اور بریانی کی خوشبو کی لپٹ بے حال کردے (یوسفی کے الفاظ میں رال بنانے والے غدود مشتعل ہوجائیں) تو اس میں میرا قصور نہیں، ان دوستوں کا ہے جنہوں نے مجھے یہ کہہ کہہ کر ادھ موا کردیا کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے‘ نہاری کا ایسا عشق کہ نہاری نامہ لکھ ڈالا‘ اور باقی مغلئی کھانوں کا کوئی ذکر ہی نہیں بادشاہ اور نواب ہی نہیں جن کا اب تک ایک زمانہ دیوانہ ہوا پھرتا ہے۔ ایک صاحب نے تو یہ طعنہ بھی دیاکہ تم کھانا صرف اسے سمجھتے ہو جو تمہیں مرغوب ہے تبھی اپنے کھانے پینے کا ذکراتنا پسندیدہ ہے۔ اس لیے آج یہ جرم بھی اپنے کھاتے سے نکالنا ضروری ہے۔
مغل ہندوستان میں آئے تو اپنے کھانے اور ان کے ذائقے ساتھ لائے۔ فرغانہ، ازبکستان، افغانستان کے یہ کھانے ترک ذائقوں سے جڑے ہوئے اور اس میں اپنا رنگ شامل کرچکے تھے۔ ہندوستان میں ایرانی امیروں نے اس دسترخوان پر ایرانی کھانوں کا اضافہ کردیا۔ ہندوستان میں مسلمان جہاں کہیں پہنچے، یہ کھانے بھی ساتھ سفر کرتے گئے۔ ہندی کھانوں اور مسالوں نے آہستہ آہستہ اس خوان نعمت پر اپنی جگہ بنائی۔ صدیوں کے ربط ضبط، موسمی اثرات اور تہذیبوں کے ملاپ نے نئے رنگ کے کھانوں کو جنم دیا۔ کھانوں کی ارتقائی شکلیں بھی عجیب ہوتی ہیں حتیٰ کہ یہ ایک نئی نوع میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اب یہ تو محققین کا کام ہے کہ بتائیں‘ موجودہ شکل تک آتے آتے ان کھانوں کو کتنا وقت لگا، ظاہر ہے کہ بابر اور اکبر کے زمانوں میں نہ یہ تنوع تھا اور نہ یہ شکلیں؛ البتہ بہادر شاہ ظفر کے دسترخوان کے متعلق بہت سی حکایات بیان کی جاتی ہیں۔ اس زمانے تک آتے آتے مغلئی کھانے بہت متنوع اور بہت مختلف ہوچکے تھے۔ اسی طرح نوابانِ اودھ اور دیگر راجوں مہاراجوں کے متعلق بھی ہوشربا داستانیں موجود ہیں لیکن باقی نوابوں، راجوں کو چھوڑیے، آخری مغل بادشاہوں کے دسترخوان کا ہی بیان کرلیں تو بہت ہیں۔ دہلی اور مغل تہذیب کے بارے میں کتابوں میں بہت سی تفصیلات موجود ہیں۔ اب ان میں کتنا مبالغہ، کتنا مرچ مسالا لگایا گیا، کہنا مشکل ہے۔ سنا ہے برٹش میوزیم میں ایک مخطوطہ نسخۂ شاہ جہانی کے نام سے موجود ہے۔ مصنف نامعلوم۔ اس میں شاہی دسترخوان کی لذیذ تفصیلات چٹخارے لے کر بیان کی گئی ہیں لیکن پتہ نہیں یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ۔ اسے چھوڑئیے، جناب انتظار حسین نے اپنی کتاب ''دلی جو ایک نام تھا‘‘ میں کیا چٹپٹی تفصیلات بیان کی ہیں۔ صحیح یا غلط کی ذمے داری ان پر ڈال کر میں سبک دوش ہورہا ہوں کیونکہ ایسے کھانوں کا خلوئے معدہ ذکر کریں تو دل کی مرضی سے ایک آدھ ڈش کا اضافہ ہوجانا ناممکن تو نہیں۔
چاولوں میں یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نکتی پلاؤ، نورمحلی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، سالم بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، کھچڑی، شوالہ (گوشت میں پکی ہوئی کھچڑی) اور قبولی ظاہری۔
اور یہ سالنوں کے نام ہیں، جن میں بہت سے آپ نے بھی میری طرح نہیں سنے ہوں گے۔ ان میں قلیہ، دوپیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، بینگن کا دلمہ، کریلوں کا دلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، سیخ کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، خطائی کباب اور حسینی کباب شامل ہوتے تھے۔
اور یہ سالن کن روٹیوں سے کھائے جاتے تھے، ذرا سنیے۔ چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، خمیری روٹی، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان، نان پنبہ، نان گلزار، نان تنکی اور شیرمال۔
میٹھے کے بغیر تو کھانا مکمل ہوتا ہی نہیں۔ یہ میٹھے بھی شامل کرلیں۔ متنجن، زردہ مزعفر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نمش، روے کا حلوہ، گاجر کا حلوہ، کدو کا حلوہ، ملائی کا حلوہ، بادام کا حلوہ، پستے کا حلوہ، رنگترے کا حلوہ۔
مربوں کا ذکر بھی سن لیں۔ آم کا مربّا، سیب کا مربّا، بہی کا مربّا، ترنج کا مربّا، کریلے کا مربّا، رنگترے کا مربّا، لیموں کا مربّا، انناس کا مربّا، گڑھل کا مربّا، ککروندے کا مربّا، بانس کا مربّا۔ یہ تو آپ کو علم ہوگا ہی کہ مٹھائی اور میٹھے میں فرق ہوتا ہے۔ مٹھائیوں کی تفصیل یہ ہے: جلیبی، امرتی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، بالوشاہی، دربہشت، اندرسے کی گولیاں، حلوہ سوہن، حلوہ حبشی، حلوہ گوندے کا، حلوہ پیڑی کا، لڈو موتی چور کے، مونگے کے، بادام کے، پستے کے، ملاتی کے، لوزیں مونگ کی، دودھ کی، پستے کی‘ بادام کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی اور پستہ مغزی۔
یہ سب کھانے کن ترکیبوں اور کن اجزا سے بنائے جاتے تھے، یہ ایک اور تحقیق طلب موضوع ہے اور جو ادب آداب سنے گئے ہیں وہ بھی ایک کتاب چاہتے ہیں۔ بادشاہ جب خاصہ کا پہلا لقمہ اٹھاتے تھے یعنی کھانا تناول کرتے تھے تو ایک چوبدار بہ آواز بلند مبارک پیش کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھانے پیش کرنے میں کیا نزاکتیں تھیں۔ یہ مزیدار رنگا رنگ کھانے مشک، زعفران اور کیوڑے کی خوشبو سے مہکا کرتے تھے۔ چاندی کے ورق الگ سے جھلملاتے تھے۔ سونے، چاندی کی قابیں، طشتریاں، رکابیاں کون کون سی طرح کی ہوتی تھیں اور کون سی چیز کس رکابی، قاب، پیالے یا پیالی میں پیش کی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ پورا شاہی خاندان کھانے کے وقت موجود ہوتا تھا۔ خاندان کی وسعت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی اچنبھے کی بات لگتی ہے۔
ویسے خاص دلی والوں کی کھانے کے معاملے میں نزاکتیں بھی لکھنؤ والوں سے کچھ کم نہیں۔ بس لکھنؤ والوں کی شہرت ذرا زیادہ ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ایسے ہی دہلوی گھرانے کی دعوت پر میں مدعو تھا۔ گائے کے پائے بنائے گئے تھے جسے میرے چچا جان، دونوں معنوں میں، بڑے پائے کی دعوت کہتے ہیں۔ دسترخوان پر مختلف طرح کی پلیٹیں رکھی تھیں۔ میں نے اپنے سامنے رکھی ایک پلیٹ میں پائے نکالنے چاہے تو میزبان نے کہا، جی نہیں‘ یہ پائے کی پلیٹ نہیں‘ میں پیش کرتا ہوں۔ اس نے یہ کہہ کر ایک دھاتی نقشیں پلیٹ میرے سامنے رکھی جس کے کناروں پر دندانے دار کٹاؤ موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ کٹاؤ بونگ کی بوٹی توڑنے کے لیے ہیں اور اسی طرح کی پلیٹیں ان کے خاندان میں چند کھانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ میں نے پہلی بار یہ سنا اور پہلی بار یہ پلیٹیں دیکھیں تو میں دلی والوں کی نزاکتوں کا بھی قائل ہوگیا۔ اسی طرح اور بھی کئی کھانے ہیں جن کے موسم، وقت، اور قابیں تک متعین ہیں۔ خیر یہ بھی ایک الگ موضوع ہے لیکن نسخۂ شاہ جہانی پڑھنے کے ساتھ ساتھ میری ایک تمنا اور بھی ہے‘ یہ کہ قلعے کی محلاتی سازشوں، شہزادوں شہزادیوں کے معاشقوں کی طرح ہم یہ بھی جانیں کہ مغل بادشاہوں کے ہاں ہر موسم میں کیا کھانے کس طرح کھائے جاتے تھے۔ اس معمول میں سفر اور قیام کا کیا فرق ہوتا تھا؟ اور ان کھانوں کے جملہ اعضائے رئیسہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے تھے؟ بے ضرر سی خواہش ہے۔ ہے کوئی محقق جو اس کی تکمیل کرے؟