چاہے کرکٹ ہو یا سیاست، جب بھی ’’روندی‘‘ مارنے کا ، بے ایمانی کا ذکر چلتا ہے یا کسی جانب سے ’’دھاندلی دھاندلی‘‘ کا شور اٹھتا ہے تو مجھے 22 دسمبر 1989ء کاسرد مگرخوشگوار دن ضرور یاد آتا ہے ۔ بھارت کی ٹیم سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی دو میچ بارش کی نذر ہو چکے تھے جب کہ ایک پاکستان نے جیتا تھا۔ 22دسمبر 1989ء کو لاہور میں کھیلا جانے والا یہ اس ون ڈے سیریز کا آخری میچ تھا۔ بارش کے باعث مختصرکر دیے جانے والے میچ میں پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان صرف ایک سو پچاس رنز بنا سکا تھا۔ جواب میں بھارت اپنی باری لے رہا تھا۔ مشہور بھارتی بلے باز سری کانت کریز پر تھا۔ سری کانت اس زمانے میں معروف بیٹسمین سنیل گواسکر کے ساتھ اوپننگ کیا کرتا تھا اور ون ڈے کرکٹ کو ایک نیا رنگ دینے کا سہرا جن لوگوں کے سر جاتا ہے‘ سری کانت ان میں سرفہرست تھا۔ سری کانت بہت ہارڈ ہٹر تھا۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ شاہد آفریدی تو نہیں تھا مگر اپنے زمانے کا شاہد آفریدی ضرور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ معروف ڈاکومینٹری ’’ہسٹری آف ون ڈے کرکٹ‘‘ میں کھیل کے شروع میں ہی تیز رنز بنانے کی بنیاد رکھنے والے سری کانت کے لیے ایک الگ گوشہ مختص کیا گیا ہے۔ سو سری کانت کی وکٹ یقینا اس میچ میں پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ سٹیڈیم زندہ دل لاہور یوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وقار یونس‘ جو بورے والا ایکسپریس کے نام سے مشہور تھے‘ نے دوڑنا شروع کیا۔ وقار یونس کی بال کی سپیڈ اور موومنٹ سری کانت نہ سمجھ سکا اور ایل بی ڈبلیو ہو گیا۔ ایمپائر شکور رانا نے سری کانت کو آئوٹ قرار دے دیا۔ سٹیڈیم میں تماشائیوں کا شور بلند ہوا مگر لوگوں نے دیکھا کہ سری کانت نے اپنی وکٹ چھوڑنے کے بجائے ایمپائر سے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ سری کانت کسی طرح کریز چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ تماشائیوں کا ہجوم اس دوران مستقل نعرے لگا رہا تھا‘ شور مچا رہا تھا‘ تھوڑی دیر سری کانت کی شکور رانا سے بحث اور احتجاج جاری رہا پھر سری کانت اس فیصلے کو دل سے قبول نہ کرتے ہوئے ’’دھاندلی‘‘ کا تاثر دیتا ہوا پویلین کی طرف بڑھنے لگا۔ تماشائی سیٹیاں بجا رہے تھے‘ ہلا گلا کر رہے تھے‘ سری کانت پر آوازے کَس رہے تھے اور اپنے مخصوص لاہوری مزاج کے مطابق ’’جگتیں‘‘ بھی کر رہے تھے کہ اچانک تماشائیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ لوگ حیرانی سے پاکستانی ٹیم کے کپتان کو دیکھ رہے تھے جس نے سری کانت کو واپس بلوا لیا تھا اور اسے دوبارہ بیٹنگ کرنے کی آفر دے دی تھی ۔ یہ کرکٹ کی تاریخ کا منفرد، عجیب وغریب اور اپنی نوعیت کا انوکھااور اکلوتا واقعہ تھا۔ ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ کسی کھلاڑی کے احتجاج پر مخالف ٹیم کے کپتان نے‘ باوجود اس کے کہ وہ آئوٹ بھی ہو‘ صرف اس کی تسلی کی خاطر دوبارہ باری دینے کیلئے اسے بلا لیا ہو۔ اور کھلاڑی بھی سری کانت جیسا ہارڈ ہٹر اور میچ ونر۔ مگر پاکستانی کپتان نے اسے واپس بلایا اور وقار یونس کو دوبارہ بال کرانے کا حکم دیا۔ پورا سٹیڈیم واقعی انگشت بدنداں تھا۔ ایسا واقعہ اس سے پہلے کرکٹ کی تاریخ میں نہ ہوا‘ نہ کسی نے دیکھا‘ نہ تصور کیا تھا۔ کچھ لوگوں کو پاکستانی کپتان کے اس ’’احمقانہ‘‘ رویے پر غصہ بھی آرہا تھا۔ لوگ اسی شش و پنج میں تھے کہ پاکستانی کپتان کے اس رویے کی حمایت کریں یا اسے حماقت قرار دیں کہ وقار یونس نے پاکستانی کپتان کے کہنے پر واپس آکر دوبارہ بیٹنگ کرنے والے سری کانت کو اگلی ہی بال پر آئوٹ کر دیا۔ سری کانت سر جھکائے پویلین کی طرف بڑھ رہا تھااور لاہور کے معروف قذافی سٹیڈیم میں اس سے پہلے اور اس واقعہ کے بعد بھی میچ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ تماشائیوں کا ایسا شور ایسی داد جو اس دن پاکستانی کپتان اور وقار یونس کو دی گئی تاریخ نے اور اس سٹیڈیم نے دوبارہ کبھی نہیں دیکھی… یہ کپتان کون تھا…؟ پاکستان ٹیم کا یہ کپتان عمران خان تھا… واقعی یہ عمران ہی کا کردار اور حوصلہ تھا کہ وہ جیت کو جیت کے احساس کے ساتھ گلے لگانا چاہتے تھے۔ پچھلے دنوں جب الیکشن کے بعد خان صاحب سے ایک صحافی دوست کے ہمراہ ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں یہ سری کانت والا واقعہ یاد کرایا تو عمران نے اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں کہا کہ ’’میں شدید مخالفت کے باوجودویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز میں پہلی مرتبہ نیوٹرل ایمپائرز لے کر آیا تھاکیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی میری جیت پر انگلیاں اٹھائے۔‘‘ عمران کی اس بات پر اس دن زمان پارک کے کمرے میں مجھے اپنا ایک پرانا شعر یاد آتا رہا ؎ جیت تو جاتا ہوں پھر بھی دُکھ سا رہتا ہے مجھے کب تلک اس سے میں کھیلوں گا شکستہ بازیاں اس دن میں باوجود خواہش کے خان صاحب سے یہ نہ کہہ سکا کہ یہ کرکٹ نہیں ہے بلکہ سیاست ہے سیاست۔ یہاں بازی کے شکستہ یا غیر شکستہ ہونے کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ پروا ہوتی توآمریت کے ہر دور میں سینکڑوں سیاست دان‘ چاہے لیفٹ کے ہوں یا رائیٹ کے‘ ڈکٹیٹر کی گود میں بیٹھے نظر نہ آتے۔ یہاں نظراصول پر نہیں صرف اقتدار کے حصول پر ہوا کرتی ہے ۔ یہ ’’بائی ہُک یا بائی کُرک ‘‘حاصل کرنے پہ یقین رکھنے والی فیلڈ ہے۔ سپورٹس مین سپرٹ نام کی کوئی شے کم ازکم پاکستانی سیاست اور پاکستانی اداروں میں نہیں پائی جاتی۔ توہین عدالت کی پیشی کے بعد عمران خان سپریم کورٹ سے باہر آکر لفظ ’’شرمناک‘‘ کی ادائیگی پر شرمندہ ہونے کے بجائے حیرت کا اظہار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ چار حلقوں کے انگوٹھے چیک کر لیے جائیں‘ دھاندلی کے حوالے سے سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آئندہ ایسی دھاندلی سے بچا جا سکے گا‘‘ عمران نے یہ جملے ختم کیے اورمزید گفتگو میں مصروف ہو گئے اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ ’’دھاندلی سے پاک میچ‘‘ کی ایسی ہی خواہش عمران نے 80ء کی دہائی میں کرکٹ میں کی تھی جس کے نتیجے میں آج دنیائے کرکٹ نیوٹرل ایمپائرز سے فیض یاب ہو رہی ہے‘ تو کیا یہ ’’توہینِ کرکٹ‘‘ تھی…؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved