ہمارا لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ کئی ہفتوں تک یہ دہلی اور بیجنگ سے بھی آلودہ شہروں میں شمار ہوتا رہا ہے۔ دس آلودہ ترین شہروں میں دوتہائی تو برصغیر پاک و ہند میں ہی پائے جاتے ہیں مگر ہمارا نام کئی مہینوں تک سب سے اوپر رہا ہے۔ اس وقت بھی کراچی دنیا کا پانچواں اور لاہور دسواں آلودہ ترین شہر ہے۔ لاہور شہر میں کسی جانب سے بھی نکلیں‘ سفید گرد نظر آتی ہے‘ آسمان نظر نہیں آتا۔ چہار اطراف ایک دھول اور جھکڑ کا گولہ ہے۔ اسی جھکڑ کے گولے میں ڈوبا ہوا شہر موجود ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں نیلا گنبد سے چیئرنگ کراس تک پیدل جانا ایک نعمت شمار ہوتا تھا اور یہ فرحت کا احساس پیدا کرتا تھا۔ اب وہاں پیدل چلنے میں ہول اٹھتا ہے مگر ہمت ہے اور اس ہمت کی داد دینی چاہیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نرسنگھ داس گارڈن سے ''مالومال‘‘ پیدل عدالتِ عالیہ پہنچ گئے۔ کہنا ان کا بھی یہی ہے کہ اس شاہراہ پر پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ اِن دنوں ماسک کا رواج عام ہے مگر اس شاہراہ پر وبا کے دنوں کے بغیر بھی ماسک کے بغیر چلنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ چند سال پہلے سنا تھا کہ سابق حکمران اس شاہراہ پر بھی میٹرو چلانے کے خواہشمند تھے۔ اگر یہاں میٹرو چلتی تو سارے قدیم درخت بھی غائب ہو جانے تھے۔ اس شاہراہ سے ملنے والی ساری سڑک ٹنڈ منڈ نظر آنی تھی۔ کئی سڑکوں پر ایک معلق چھت ہے جو میلوں لمبی ہوتی گئی ہے اور ٹریفک کا بہائو ہے کہ سڑکیں پھر بھی کم پڑ رہی ہیں۔ ایک آدھ ہی سڑک اب شہر میں رہ گئی ہے جہاں کچھ سبزہ اور درخت نظر آتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاہے کہ جائیدادوں کے اکثر تنازعات ریونیو افسران کے غلط اندراج یا لاپروائی کی وجہ سے ہوتے ہیں‘ دیگر ممالک میں ایسے تنازعات شاذ و نادر ہوتے ہیں کیونکہ جائیداد کے ریکارڈ کا تقدس برقرار رکھا جاتا ہے‘ جائیداد کے اندراج کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ اور کہا کہ مال روڈ کی بہت بری حالت ہے‘ کار فری ڈے کا انتظام کرنا چاہیے۔ ان کی ساری باتیں سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق ہیں مگر ہم صرف کار فری ڈے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور دنیا کا پینتیسواں بڑا شہر ہے اور کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر۔ ویسے یہ بات ذرا تصدیق طلب ہے کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ کراچی ٹاپ تھری میں سے ایک ہے اور اپنا شہر لاہور ٹاپ ٹونٹی میں شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عروس البلاد کراچی کی آبادی دو کروڑ سے بھی زیادہ ہے‘ اس لحاظ سے وہ بیجنگ سے بھی بڑا شہر ہے۔ بیجنگ کی آبادی دو کروڑ تک سمجھی جائے تو یہ دونوں شہر ہی اس سے بڑے نکلیں گے۔ دونوں شہر اپنی ہیئت کذائی میں اپنی مثال آپ ہیں جہاں آئے دن ایک نئی رہائشی کالونی بن رہی ہے۔ رہاشی کالونیاں کہنے کو تو سرکاری اجازت نامے کے بعد ہی شروع کی جاتی ہیں مگر بے ہنگم پھیلائو اس اجازت نامے کی وقعت کم کرنے کے لیے کافی ہے۔ شہر کے چاروں جانب پھیلائو کے بعد یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ شہر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ شہر کا آغاز تو جی پی او سے ہی ہوتا ہے۔ یہ عین وہ جگہ ہے جہاں جسٹس صاحب پیدل چل کر اور چھتری ہاتھ میں لیے انصاف گاہ تک آئے۔
مال روڈ لاہور شہر کا دل ہے‘ شہر کی تمام سڑکیں جسم کی رگوں اور وریدوں کی طرح اس سے ملتی ہیں۔ مال روڈ کی پرانی مارکیٹوں کے ایک رہائشی نے بتایا کہ کسی زمانے میں گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر چھڑی ہاتھ میں لیے اور اچکن زیب تن کیے بلاناغہ شام کو گورنر ہائوس سے نکلتے اور خراماں خراماں اسی جگہ سے واپس مڑ جاتے جہاں جسٹس فائز عیسیٰ پیدل پہنچے۔ راستے میں لوگوں سے سلام دعا ہوتی‘ کسی سے حال چال پوچھتے۔ یوں ان کی شام کی سیر ہو جاتی اور شہر کے لوگ اپنے حاکم کو اپنے درمیان پا کر خود کو محفوظ سمجھتے۔ یہ سلسلہ سردار نشتر کی گورنری ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ مال روڈ چھ سات کلومیٹر کا ٹکڑا ہے اور اس پر درجنوں تاریخی مقامات اور عمارتیں ہیں۔ ان کی اور شہریوں کی حفاظت از حد ضروری ہے۔ جہاں آلودگی ہوتی ہے یا جو شہر آلودہ ہوتے ہیں اور وہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 50 سے زیادہ ہو تو کئی قسم کے امراض جنم لینے لگتے ہیں۔ آلودگی ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور شہریوں کے لیے کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ اس سے دمہ، دل کی تکالیف، کینسر اور پھیپھڑوں کے امراض عمومی طور پر زیادہ پھیلتے ہیں۔ Pollutant یعنی کیمیائی اجزا اور کوڑا کرکٹ سے بھرے شہروں میں لاکھوں لوگ ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ بچوں میں سانس کی تکالیف میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ آلودگی رگوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے جو بالآخر دل کی بیماریوں کا موجب بنتی ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ ایندھن سے اور کارخانوں کی وجہ سے بنتی ہے۔ کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے رنگ اور بے بو گیس ہے جو کاروں کے دھویں سے جنم لیتی ہے اور انتہائی مہلک ہے۔ پچھلے دنوں مری سانحے میں جو اکیس افراد لقمۂ اجل بنے تھے‘ اس کی وجہ اسی گیس کا اخراج تھا۔ ایئر پالوشن کی وجہ سے زندگی کا دورانیہ بھی کم ہو جاتا ہے اور مزاج میں مایوسی اور ناخوشی جنم لیتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ٹریفک اشاروں پر گاڑیوں کی دھکم پیل میں لوگ ایک دوسرے کو گھورتے‘ آگے نکلنے کی کوشش کرتے‘مسلسل بڑبڑاتے اور خود کو کوس رہے ہوتے ہیں۔
دنیا میں پچاس سال پہلے‘ یعنی 1970 ء سے اس خطرے سے آگاہ کیا جا رہا تھا مگر یہاں اب بھی چین کی بانسری بجائی جا رہی ہے‘ جیسے آلودگی حکومت کی ترجیح میں شامل ہی نہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے روزانہ کی بنیاد پر شہر آلودہ ترین انہی وجوہات کی بنا پر قرار دیا جاتا ہے کہ آلودگی کو کنٹرول کرنے اور اسے کم کرنے کی سبیل نہیں کی جا رہی۔ ہمارے ملک کی اکانومی دیکھیں اور لوگوں کے پاس گاڑیوں کی تعداد دیکھیں‘ ان کا آپس میں کوئی توازن ہی نہیں۔ اس وقت پاکستان میں ٹوٹل رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد سوئٹزر لینڈ اور ڈنمارک سے زیادہ اور یونان سے تھوڑی کم ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی فی کس آمدنی 82 ہزار ڈالر سالانہ سے بھی زیادہ ہے۔ اپنے ملک کی فی کس آمدنی کا ذکر ہی کیا کرنا؛ البتہ فی کس قرضہ ایک لاکھ اناسی ہزار ہو چکا ہے۔ لگ بھگ نصف اضافہ موجودہ حکومت کے دور میں ہوا ہے۔ نخرے ہمارے سکینڈے نیویا سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہاں حاکم گاڑیوں کے ایک کاروانِ صد ہزار کے ساتھ نکلتے ہیں‘ وہاں حاکم سائیکل کو بھی اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتا۔ اس وقت لاہور میں دس لاکھ سے زیادہ گاڑیاں پٹرول اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈیزل پر چل رہی ہیں‘ ایسے میں آلودگی کیسے کنٹرول ہو گی؟ کرۂ ارض پر کاروں‘ بسوں‘ جہازوں اور ٹرکوں کا دھواں ہی آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ مغربی ممالک میں دس سال پرانی گاڑیوں کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں۔
مال روڈ پر درجنوں ایسی عمارات ہیں جو قومی ورثے میں شامل ہیں‘ مختلف ادوار میں اس شاہراہ کو بچانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس روڈ پر عمارات جس حالت میں ہیں‘ ان کو ویسے ہی محفوظ رکھا جائے۔ اس پروجیکٹ کو ''دلکش لاہور‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کہنے کے مطابق‘ پیدل چلنے والوں کے لیے سہولتوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ٹریفک کا دبائو بڑھ رہا ہے‘ روزانہ کی بنیاد پر کاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسی دبائو کے پیش نظر روزانہ کی بنیاد پر ایئر کوالٹی انڈیکس پر بھی نظر رکھی جائے۔
شہر کی آلودگی کے پیشِ نظر ''کار فری ڈے‘‘ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کوئی ایسی حکمت عملی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جس میں بڑھتی آلودگی کو کنٹرول کیا جائے۔ ہر پندرہ دنوں میں ایک دن پورے شہر بشمول مال روڈ کے ساڑھے چھ کلومیٹر ٹکڑے کو‘ مکمل کار فری زون قرار دیا جانا چاہیے۔ بہتر ہو گا کہ ایسا مستقل سلسلہ ترتیب دیا جائے اور شیڈول پورے ملک تک پھیلا دیا جائے۔ نہ صرف یہ صحت عامہ کے لیے مفید ہو گا بلکہ معیشتِ عامہ کے لیے نیک شگون بھی ہو گا۔ ضروری سرکاری اور ایمرجنسی امور کی انجام دہی کے لیے البتہ رعایت کی گنجائش ضرور نکالی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی انوکھا اور ناممکن امر نہیں‘ کئی ممالک میں باقاعدگی سے ''کار فری ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔