ترقی کی حقیقی بنیاد کیا ہوسکتی ہے؟ کسی بھی ملک یا معاشرے کے لیے انتہائی بنیادی اِکائی کا درجہ رکھتے ہیں عوام۔ عوام مضبوط ہوں تو ملک بھی مضبوط ہوتا ہے۔ ملک کو چلانے والی مشینری اُسی وقت مضبوط ہوسکتی ہے جب عوام کو تمام بنیادی سہولتیں میسر ہوں‘ اُن کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے اور کسی بھی مرحلے پر اُنہیں اجنبیت کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا ماحول کبھی پیدا ہی نہیں ہوا جس میں عوام کو حقیقی معنوں میں احترام دیا گیا ہو، اُن کے حقوق کی پاس داری یقینی بنانے کی سمت کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنہیں ایسی مراعات دی گئی ہوں کہ اُن کا احساسِ محرومی یکسر مٹ کر رہ گیا ہو۔ جسے بھی اقتدار ملا اُس نے عوام کو زیادہ کمزور کرنے پر کمر باندھی اور ایسا بہت کچھ کر گزرا جو بعد میں آنے والوں کے لیے انتہائی نوعیت کی دشواریوں کا حامل ثابت ہوا۔
عوام ملک کے لیے حقیقی ورکنگ یونٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُنہی کے دم سے معیشت چلتی ہے۔ وہی پیداواری عمل جاری رکھتے ہیں اور یہ پیداوار اُنہی پر خرچ ہوکر معیشت کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کی معیشت اُسی وقت مضبوط ہو پاتی ہے جب عوام مضبوط ہوتے ہیں اور اُن کی خوش حالی نمایاں ہوتی ہے۔ اُن کی کام کرنے کی صلاحیت کا مدار اس بات پر ہے کہ اُنہیں تمام بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ اگر کہیں کرپشن عام ہو اور لوگ ایک دوسرے کو ڈکار جانے پر یقین رکھتے ہوں تو معیشت کسی بھی سطح پر نہیں پنپتی۔ پنپ ہی نہیں سکتی! ہمارے ہاں اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی صورت میں اُن میں استحکامِ فکر و نظر پیدا ہوگا اور وہ زیادہ دلجمعی سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن معاشروں میں عام آدمی معیاری انداز سے زندگی بسر کرتا ہے اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ بہت سے غیر ضروری تفکرات اسے آزاد رہتا ہے۔ یہ کیفیت اُسے بہت کچھ سیکھنے اور استعدادِ کار کے بڑھانے کی تحریک بھی دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں کا عام آدمی پسماندہ معاشروں کے عام آدمی سے خاصا بلند ہوتا ہے۔ اُس کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انتہائی معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔
ایک دور تھا کہ ہمارے ہاں بھی عام آدمی کی بنیادی ضرورتوں کا تھوڑا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ یہ دور زیادہ دیر رہا نہیں۔ جب معاملات کو ڈھیلا چھوڑ دیا گیا اور کرپشن کے حوالے سے نرمی اور برداشت کا رویہ اختیار کیا گیا تب معاملات تیزی سے خرابی کی طرف گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ اگر کچھ سیدھا کرنے جائیے تو بہت کچھ اُلٹا ہو جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں قانون کی پاسداری یقینی بنانے کی کوشش کیجیے تو بہت سوں کے مفادات پر یوں ضرب پڑتی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے شہروں میں تجاوزات ختم کرنے کا معاملہ ہی لیجیے۔ جب بھی تجاوزات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تب بہت سے لوگ سٹے لے لیتے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ کہیں کہیں امن و امان کا ایسا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے کہ ریاستی اور انتظامی مشینری کو بھی پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتیں عوام کے حقیقی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ زیادہ نہیں کر پائی ہیں۔ اس حوالے سے سیاستدانوں کے پاس بصیرت ہے نہ قوتِ ارادی۔ سیاسی ماحول میں پروان چڑھنے والوں کی اکثریت حقیقی سیاسی شعور اور بصیرت سے محروم ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی اُن میں وہ بات پیدا نہیں ہو پارہی جو عوام کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے۔ جب لوگ سیاست میں آتے ہی صرف مال بنانے کے لیے ہوں تو کیسی بصیرت اور کہاں کی دانائی؟ ایسے میں صرف اپنی تجوریاں بھرنے کی سوجھتی ہے اور وہی سوجھ رہی ہے۔ منتخب نمائندوں کی واضح اکثریت ذاتی یا پھر علاقائی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی فکر میں غلطاں رہتی ہے۔ عوام کے لیے سوچنے کا اُس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ صرف وہی کچھ کرنے پر زور دیا جاتا ہے جس سے اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت ملتی ہو۔
آج کا ہمارا معاشرہ عوام کے حقوق اور مجموعی کیفیت کے حوالے سے دور ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ عوام کو بیشتر معاملات میں ریاستی اور انتظامی مشینری نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ وہ بنیادی سہولتوں کے لیے بُری طرح ترس رہے ہیں۔ جب وہ اپنے بنیادی حقوق اور سہولتوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو انتظامیہ طاقت کے ذریعے اُن کی آواز دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اِس سے کام نہ بنے تو طاقت کا استعمال بڑھاکر اُنہیں منتشر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ حکومتی مشینری کو عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے سے غرض نہیں۔ عوام جنہیں منتخب کرتے ہیں وہ ہر وقت صرف اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ ایک زمانے سے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی تحرک بھی پایا جاتا ہے مگر منتخب ادارے کچھ کرتے ہیں نہ انتظامی مشینری ٹس سے مس ہوتی ہے۔ عوام خود کچھ کرنے کی کوشش کریں تو اُن سے سختی سے نمٹا جاتا ہے۔ عدالتی احکام اگر عوام کے حق میں ہوں تو اُن کی تعمیل میں تساہل برتا جاتا ہے، وہ سب کچھ کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جس سے عوام کے لیے آسانی پیدا ہوتی ہو۔ ہمارے ہاں ہر حکومت نے آتے ہی دعویٰ کیا کہ عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں یقینی بنائی جائیں گی تاکہ اُن کا معیارِ زندگی بلند ہو اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ عملاً کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں! جب کچھ کرنے کی نیت ہی نہ پائی جاتی ہو تو کیا ہو گا؟ عوام جنہیں ووٹ دیتے ہیں وہی اُن کے مفادات کے خلاف جاتے ہیں، اُنہیں ملنے والی سہولتوں کے راستوں میں کانٹے بچھاتے ہیں اور یہ سب کچھ صرف ذاتی مفادات کے لیے ہوتا ہے۔ حکومتی اور انتظامی مشینری میں بھی ایسے لوگ کم ہی ہیں جو عوام کے بنیادی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں سوچتے ہوں۔ عمومی سطح یہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ پریشان رکھا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ دور اندیشی یہ ہے کہ عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ ملک اور معاشرے لیے ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل ہوسکے۔ کبھی آپ نے کوئی ایسا درخت دیکھا ہو جو باہر سے بہت تنومند ہو اور نیچے سے کھوکھلا اور کمزور ہو؟ ایسا ممکن ہی نہیں۔ اگر جڑیں مضبوط نہ ہوں، دور تک پھیلی ہوئی نہ ہوں تو کوئی بھی بڑا درخت کھڑا نہیں رہ سکتا۔ کسی بھی بڑے درخت کو صرف گہری اور مضبوط جڑیں ہی کھڑا رکھ سکتی ہیں۔ قدرت کا یہ اصول ہر معاملے میں کارفرما ہے۔ معاشروں پر بھی یہی اصول اطلاق پذیر ہے۔ وہی معاشرے کامیاب رہتے ہیں جن میں عام آدمی کو مضبوط رکھا جائے۔ عوام کسی بھی معاشرے کے لیے جڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اُن کی جاں فشانی ہی سے معاشرے پنپتے ہیں۔ اگر اُنہی کے شب و روز الجھنوں کا شکار رہیں تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ عوام کو مضبوط بنانے کا ایک اچھا اور معیاری طریقہ یہ ہے کہ اُنہیں پہلے مرحلے میں بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بے فکر کردیا جائے اور دوسرے مرحلے میں چند ایک آسائشیں بھی فراہم کی جائیں۔
آج عام پاکستانی بہت سی بنیادی باتوں میں الجھا ہوا ہے۔ حالات ہی ایسے پیدا کردیے گئے ہیں کہ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے سے بلند سطح کی زندگی ممکن نہیں رہی۔ یہ کھیل ختم کرنا ہوگا۔ عوام کو بنیادی ضرورتوں کے معاملے میں فکری انتشار سے آزاد کیے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ معاشرہ ایسا درخت ہے جس کی جڑیں عوام میں ہیں۔ عوام کو مضبوط کیے بغیر معاشرے کو مضبوط نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ بنیادی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے سوچنے سے کہیں زیادہ‘ عملاً کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔