تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     05-02-2022

کشمیر مانگے آزادی

مقبوضہ وادیٔ جموں و کشمیر بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہے اور دنیا پر مجرمانہ خاموشی طاری ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہاں ایسے سانحات رونما ہوئے کہ انسانیت بھی شرما گئی لیکن عالمی ضمیر نہ جاگ سکا۔ اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ وادی میں عملاً لاک ڈائون اور کرفیو نافذ ہے۔ ایک سال سے زائد عرصے تک وہاں ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ اور بازار بند تھے جبکہ ہر جگہ کرفیو نافذ تھا۔ شہری بنیادی سہولتوں کیلئے سسکتے رہے مگر کوئی نرمی نہیں برتی گئی۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران بھی کشمیری ادویات اور ویکسین کے لیے تڑپتے رہے لیکن مودی سرکار کی بے حسی برقرار رہی۔ لاکھوں کی کشمیری آبادی کیلئے چند وینٹی لیٹرتھے؛ تاہم مودی سرکار کی سفاکی کم نہیں ہوئی۔
حالیہ کچھ عرصے میں مقبوضہ وادی میں ایسے سانحات پیش آئے ہیں کہ ہر اُس شخص کی آنکھ میں پانی آگیا جو دردِ دل رکھتا ہے۔آٹھ سال کی آصفہ مقبوضہ کشمیر کے غریب چرواہوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی‘ اس کو ایک ہفتے تک نشہ آور ادویات دے کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ جن چھ ہندوئوں کو اس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا‘ بی جے پی ان کے دفاع میں آ گئی۔ کاتھو‘ جنگلات پر مبنی مقبوضہ کشمیر کا چھوٹا سا علاقہ ہے جس پر مودی سرکار کی نظر تھی۔ اس ظلم کا ارتکا ب کرنے والے افراد کو بی جے پی کی سرپرستی میسر تھی اور یہ سب اس لیے کیا گیا کہ علاقے کے مسلمان چرواہوں کو وہاں سے ہجرت پر مجبور کیا جائے۔ بھارت کی برسرِاقتدار فاشسٹ جماعت بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں Ethnic cleansingکر رہی ہے۔ مسلمان آبادیوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ اب صرف مقبوضہ کشمیر ہی واحد ریاست ہے جہاں اب بھی مسلمان اکثریت میں ہیں‘ اس کے علاوہ بھارت کی تمام ریاستوں میں ایسے ہی ہتھکنڈوں سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلاجا چکا ہے۔8 سالہ معصوم بچی کو سات دن تک حیوان نما انسان نوچتے رہے اور پھر اسے جان سے مار دیا گیا لیکن مجرموں کو پکڑنے کے بجائے انتظامیہ اور ریاست انہیں بچانے میں لگ گئی۔ ہندوتوا کے پیروکاروں سے اس کے علاوہ امید بھی کیا کی جا سکتی ہے؟ وہ کبھی بھی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیں گے‘ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کی منظم نسل کشی کررہے ہیں۔ آصفہ اور اس کا خاندان بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مودی کے 'گودی میڈیا‘ کا بس چلے تو وہ آصفہ کو بھی اَتنگ وادی کہہ دے جس طرح معصوم کشمیری نوجوانوں حتیٰ کہ سکول کے طالب علموں کو شہید کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ وہ آتنگ وادی تھے۔معصوم بچی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھی اور کشمیری تھی اور بھارت کی مودی سرکار سے اس کا وجود برداشت نہیں ہورہا تھا۔
ایسا ہی ایک اور انسانیت سوز واقعہ 2017ء میں پیش آیا تھا جب ایک کشمیری نوجوان کو بھارتی فوج نے جیپ کے آگے باندھ کر ''ہیومن شیلڈ‘‘ بنایا تھا۔ اس غیر انسانی فعل کی بھارت کے اٹارنی جنرل نے تائید کی تھی۔ ضلع بڈگام کے ایک کشمیری نوجوان کو بھارتی فوج کے بدنام میجر گگوئی نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جیپ کے آگے باندھ دیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ کشمیری اس پر پتھرائو نہ کر سکیں۔سوشل میڈیا پراس حوالے سے خاصا شور مچا لیکن اس شخص کو انصاف نہیں مل سکا بلکہ میجر گگوئی کو اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ''بہادری کا خصوصی ایوارڈ‘‘ دیا جس کی ایمنسٹی سمیت عالمی تنظیموں نے شدید مذمت کی تھی۔
ایسے ہی سوپور میں ایک معصوم بچے کے سامنے اس کے نانا کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے شہید کردیا تھا۔ نانا بچے کو سکول سے واپس گھر لا رہے کہ بھارتی فورسز نے ان پر گولیاں برسا دیں۔ بچہ اپنے زخمی نانا کے سینے پر بیٹھا تڑپ تڑپ کر روتا رہا اور اس کے نانا نے وہیں سڑک پر جان دے دی۔
نومبر 2021ء میں حیدرپورہ کے علاقے میں الطاف بھٹ اور ڈاکٹر مدثرگل کو بھارتی فوج نے دہشت گرد قرار دے کر شہید کر دیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد غاصب فوج نے ان کے جسدِ خاکی لواحقین کو دینے سے انکار کرتے ہوئے خود ہی انہیں دفنا دیا۔ الطاف بھٹ ایک بلڈنگ کے مالک تھے اور سیمنٹ کا بزنس کرتے تھے اور ڈاکٹر مدثرنے وہیں اپنا کمپیوٹر سنٹر کھول رکھا تھا۔ وہ پڑھے لکھے‘ امن پسند شہری تھے۔ڈاکٹر مدثر کی بیوہ‘ دو سالہ بیٹی اور ماں نے منفی درجہ حرارت کے باوجود سڑک پر دھرنا دے کر احتجاج کیا اورانصاف کی اپیل کی۔ روتے ہوئے لواحقین کی تصاویر اور وڈیوز نے ہر دردِ دل رکھنے والے انسان کوہلاکر رکھ دیا تھا۔ الطاف بھٹ کی بیٹی نے بھی اس ظلم پر شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے والد کا جسدِ خاکی ان کے حوالے کیا جائے‘ اہلِ خانہ ان کی خود تدفین کریں گے۔ سرینگر پولیس نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ ایک دہشت گرد سمیت تین سہولت کار ایک کارروائی میں مارے گئے ہیں مگر جب احتجاج بڑھتا چلا گیا تو پھر یہ موقف اپنایا گیا الطاف بھٹ اور ڈاکٹر مدثر کو دہشت گردوں نے مارا، اس پر بھی خاصا احتجاج ہوا پھر بیان تبدیل کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ کراس فائرنگ میں مارے گئے ہیں۔بعد میں الزام لگایا گیا کہ الطاف بھٹ نے دہشت گردوں کو کرائے پر رہائش دی ہوئی تھی حالانکہ یہ سب جھوٹ تھا۔ بھارتی افواج جان بوجھ کر کشمیریوں کی نسل کشی کررہی ہیں اور مسلسل ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں جن سے تنگ آ کر کشمیری اپنے آبائی علاقوں سے نکل کر کہیں اور آباد ہو جائیں۔
اگر فاشسٹ مودی حکومت کے حالیہ اقدام پر نظرڈالی جائے تو اب آزادیٔ صحافت پر حملہ کیا گیا ہے، کشمیر پریس کلب کو بند کر دیاگیا ہے۔ انتظامیہ نے کلب کو تحویل میں لے کراس پر تالا لگا دیا ہے۔ تین بڑے کشمیری اخباروں کے اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔گزشتہ تین سالوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے درجنوں صحافیوں کو ہراساں کیاگیا۔6 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ چھ میڈیا آوٹ لیٹس کو نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ مظلوم کشمیریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں‘ کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ ظلم کا یہ سلسلہ 1947ء سے اب تک جاری و ساری ہے۔ کشمیریوں کو صرف اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں‘ ان کی ہر غمی اور خوشی میں پاکستان کا پرچم لہراتا ہے۔ اب دنیا کو کشمیریوں کو ان کا حق دینا ہو گا‘ استصوابِ رائے کے وعدے پر عمل درآمد کرانا ہوگا۔
بھارت اس وقت تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ متنازع نئے شہریتی قوانین کی آڑ میں غیر کشمیریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں۔ متازع علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو لگانا، انٹرنیٹ‘ فون‘ کیبل اور دیگر ذرائع مواصلات بند کرنا انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے۔ اس کے ساتھ ماورائے عدالت قتل‘ نوجوانوں کو اغوا اور پھر قتل‘ بچیوں کے ساتھ زیادتی‘ بڑے بوڑھوں پر تشدد جیسے واقعات بھارتی جمہوریت کے منہ پر کالک کے مترادف ہیں۔ بھارت سیکولر جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ حقیقت میں ایک ہندوتوا اور شدت پسند نظریات کا پرچار کرنے والی ریاست ہے جہاں ایک منظم طریقے سے اقلیتوں اور مخالفین کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
بھارت نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے اور اقوام عالم خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ دنیا اپنی آنکھیں کھولے اور بھارتی ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرائے۔ظلم اب حد سے بڑھ گیا ہے۔ آج یومِ یکجہتیٔ کشمیر پر ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم کشمیریوں کا ہر ممکن ساتھ دیں گے اور ان کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کریں گے۔ کشمیر کے غازیوں اور شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘ مقبول بٹ شہید سے لے کر برہان وانی شہید تک اور سید علی گیلانی سے لے کر یٰسین ملک تک‘ سب کی جدوجہد جلد رنگ لائے گی۔مجھے امید ہے جب بھی استصوابِ رائے ہو گا‘ کشمیر بنے گا پاکستان‘ ان شاء اللہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved