اتنی ساری غزلوں میں سے وہ چمکدار غزل بار بار نکل آتی تھی۔ کاغذوں کا ڈھیر تھا لیکن ان میں سے وہ غزل نہ جانے کس طرح راہ بنا کر میرے سامنے آجاتی تھی۔ میں اس کی ندرت اور تازگی سے لطف لیتا تھا اور اسے کاغذوں کے انبار میں پھر چھپا دیتا تھا‘ لیکن کچھ دیر میں وہ پھر میرے سامنے ہوتی تھی۔ چہکتی، چہچہاتی اور مسکراتی ہوئی۔ بے طلب مطالبے کرتی ہوئی۔
بطور منصف بے شمار غزلوں میں سے تین یا پانچ بہترین غزلیں منتخب کرنا مشکل کام ہے۔ اس دن میں اسی مشکل میں گرفتار تھا۔ کراچی سے ایک دوست نے مجھے ایک انعامی مقابلے کیلئے منصف مقرر کیا تھا۔ انعام بھی بہترین غزلوں پر بہت خطیر رقم کا‘ جو ایک ادب دوست نے نوجوانوں کے اس مقابلے کیلئے مختص کی تھی۔ کسی غزل پر شاعر کا نام موجود نہیں تھا۔ صرف غزل نمبر تھا۔ یہ بات انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھی۔ مجھے اس غزل کے شاعر کا نام معلوم نہیں تھا لیکن غزل میں تازہ کاری توفیق یافتہ والی اور پختگی ریاضت یافتہ کی تھی۔
وجد کرتی اک دُعا کچے مکانوں سے اٹھی
روشنی تسبیح کے رنگین دانوں سے اٹھی
سرخ آفت سے مُزّین تختۂ گُل کی سحر
شب کو نارنجی قیامت شمع دانوں سے اٹھی
میرے پاس نمبروں کے اعتبار سے یہ غزل پہلے نمبر پر تھی اور نام کا اعلان ہونے تک مجھے شاعر کا نام جاننے کا تجسس رہا۔ پھر احمد جہاں گیر سے پہلی ملاقات کراچی کی اس تقریب میں ہوئی جس میں یہ انعام انہیں دیا گیا۔ بعد میں اس نوجوان کی مزید شاعری میری نظر سے گزرتی رہی اور اس کی محبت ہے کہ اس نے مجھ سے رابطہ بھی رکھا۔ شخصیت اور شاعری دونوں میں آنچ لو دیتی ہو تو منصف کو اپنے فیصلے پر خوشی کیوں نہ ہو؟
شاہ دریا کے نام سے احمد جہانگیر کی کتاب ابھی شائع ہوئی ہے۔ سندھو دریا سے اس کی وابستگی کی ایک اور جہت۔ احمد جہاں گیر مرصع ساز ہے۔ اپنے پیشے میں بھی اور اپنی شاعری میں بھی۔ آپ کوآتش کا وہ شعر یادآیا؟
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
پچی کاری یا مرصع سازی مجھے ہمیشہ مسحور کرتی رہی ہے۔ تعمیرات ہوں، جواہرات ہوں یا زیورات جڑاؤ کام کی خوبصورتی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ میں بہت بار سوچتا ہوں کہ جس فنکار نے پہلے بار سنگِ مرمر کے نقش و نگار میں سنگِ سرخ یا سنگِ سیاہ بھرا ہوگا اسے تکمیل کے بعد کیسی طمانیت ملی ہوگی۔ یاقوت، زمرد، عقیق، مرجان، پکھراج، الماس، نیلم، زبرجد، سنگ یشب، فیروزہ، لاجورد، زرقون کے طلسماتی رنگ جب ایک دوسرے کی آغوش میں سمٹ کر جھلملاتے ہیں تو فنکار کو کیسی آسودگی ملتی ہوگی۔ اس آسودگی اور سرشاری کا ایک حصہ تو دیکھنے والوں کو بھی پہنچتا ہے تو مرصع ساز کے دل کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔
زبانیں، ان کے الفاظ، ان کے شجرے اور ان کے معانی جواہرات اور قیمتی پتھروں کی طرح ہوتے ہیں۔ ارغوانی یا عنابی رنگ کا لفظ زرد رنگ کے لفظ کے ساتھ کھپے گا یا نہیں؟ اگر ہاں، تو کس خوبصورت ترین طریقے سے۔ عربی، اردو، فارسی تو خیر ہیرے، زمرد اور یاقوت کی طرح خوبصورت ترین زبانیں ہیں لیکن ہندی، پنجابی، سندھی پشتو اور بلوچی کے پکھراج، فیروزے، نیلم اور عقیق اپنی طلسماتی جھلملاہٹ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کون سا پتھر کس پتھر کی بانہوں میں بھرا جانا چاہیے اور سندھی کا کون سا لفظ اردو میں اس طرح پیوست ہوسکتا ہے کہ اوپرا پن محسوس نہ ہو، یہ فیصلہ ہی تو اصل فنکاری ہے۔ یہی تو مرصع سازی ہے۔ یہی تو شاعری ہے۔
سبز چمکتا در کھل جائے، اور سنگھاسن ظاہر ہو
کوئی سخی آواز پکارے، سندھی شاعر حاضر ہو
سورج سہرا باندھ کے ابھرے جھلمل کرتی کرنوں کا
طوف نبھاتا، وجد میں آتا، اک سیّارہ ناظر ہو
پیغمبرؐ ارشاد کریں کچھ مانگ، ارے کیا مانگے گ
اور عجم کا جاٹ سراسر کچھ کہنے سے قاصر ہو
پانی ربّ کی حمد گزارے، غنچے شہؐ کی نعت پڑھیں
ہستی کے ایوان کا منظر، طیّب، روشن، طاہر ہو
احمد جہانگیر کے ہاں بڑے گمبھیر فلسفے اور شعری نظریات نہیں ہیں۔ زندگی نے اسے تلخیوں سے گزارا ہے لیکن نہ وہ سطحی مقبولیت کیلئے ناراض نوجوان کا روپ دھارتا ہے۔ نہ اسے زمینی اور آسمانی خداؤں کو للکارنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نہ مذہب کے خلاف سستی نعرے بازی کی‘ نہ ایسا مذہبی اور مسلکی چولا اوڑھنے کی جو وقتاً فوقتاً سب کو خوش کرتا رہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس کی نظر عارضی مقبولیت پر ہے ہی نہیں۔ اس کی نظر شاعری پر ہے اور آپ اس کے شعر پڑھیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ شاعری کی نظر بھی اس پر ہے۔ دو طاقتیں اس کے پاس ایسی ہیں جو کسی اور نوجوان کے پاس نہیں ہیں۔ ایک خالق سے محبت، دوسرے مخلوق سے محبت۔ یہ محبتیں جو اصل میں بہم جڑی ہوتی ہیں طرح طرح سے اس کے ہاں ظہور کرتی ہیں۔
نعمت کی تقطیع نہ کرنا، رحمت کی تشریح نہیں
خاموشی سے صرف زیارت سارے تانے بانے کی
صبح گلابِ ذکر کی خوشبو اک ہیکل کے چارطرف
رات زبورِ حمد سے روشن ایک تلاوت خانے کی
ذرا دیکھیے، یہ طاقتیں کیسی آسانی سے تخلیقی زور کے بہاؤ پر احمد جہانگیر سے تلاوت خانہ، گلاب ذکر، بے کرانی رنگ جیسی خوبصورت تراکیب اختراع کرواتی ہیں۔
کیا مصّور خلق کرتا، بے کرانی رنگ سے
آنکھ کی سرحد بنا دی، آسمانی رنگ سے
صبح نے انجیل کھولی ابتدائی عہد کی
زرد سے مٹّی سنور لی، گھاس دھانی رنگ سے
احمد جہاں گیر اپنا جھولا پشت پر ڈال کر لفظ تلاش کرنے نکلتا ہے۔ اس مچھیرے کی طرح جسے پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا رزقِ رواں اس وقت کہاں ہے اور آج اسے ملے گا بھی یا نہیں۔ یہ لفظ اسے پتھروں اور کنکریوں کی ڈھیریوں میں اپنی طرف بلا رہے ہوتے ہیں لیکن شام ڈھلے وہ گھر لوٹتا ہے تو اس کا جھولا جگمگاتے پتھروں سے بھرا ہوتا ہے۔
ثروت حسین بھی کیا عجیب کیفیات بھرا رجحان ساز شاعر تھا۔ ایک رنگ میں بہت سے رنگ رکھنے والا۔ اپنے ہم عمروں سے لے کر اپنی بعد کی نسلوں تک کتنے لوگوں کو متاثر کرنے والا۔ احمد جہانگیر پر بھی ثروت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر جہاں سندھو دریا اور سندھ دھرتی کا ذکر آتا ہے لیکن احمد جہانگیر مماثلتوں کے باوجود بہت حوالوں سے مختلف ہے۔ وہ صرف اپنے شہر اور اپنے صوبے کی نہیں، ہر خطے کی خوشبو میں سانس لیتا ہے۔ اس نے تہذیبوں سے اپنا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے اور فقیری سے بھی۔ میں اس کی شاعری میں اسے ایک بنجارا، ایک فقیر، ایک درویش، ایک گڈریا دیکھتا ہوں۔ اپنی مٹی، اپنے لوگوں، اپنی بستیوں سے محبت کرنے والا گڈریا جسے اپنے گیتوں سے عشق ہے۔ میں اس کی شاعری میں اس کے محبوب کو ڈھونڈتا رہا لیکن یہی سب اس کے محبوب ہیں۔ پھر مجھے خیال آیاکہ میں اسے کیوں ڈھونڈ رہا ہوں جسے وہ ابھی خود ڈھونڈ رہا ہے۔
رمز سماعت کر سکتا ہوں بھید دکھائی دیتا ہے
پانی میں آہنگ چھپا تھا، گُل میں رنگ حجابی تھا
غار کے منہ پر حکم کی رو سے مکڑی جالا تانتی تھی
اجیارے میں پیغمبرؐ کے سیدھے ہاتھ صحابی تھا
بہت کچھ کہا لیکن کہنا مجھے بس یہ تھا کہ احمد جہانگیر! تم میرے پاس اب بھی پہلے نمبر پر ہو۔ شالا، تمہیں نظر نہ لگے اور شہر کی ہوا نہ لگے۔