امریکہ میں بریکنگ نیوز عام طور پر سیاست دانوں کی وہ غیر اخلاقی حماقتیں ہوتی ہیں جن پر وہ فوراً معذرت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ایسی شخصیات اکثر خبروںمیں رہتی ہیںلیکن پھر وہ فوراً نظروںسے گر جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ ہی عوامی حلقوںمیں ان کی نجی زندگی کے بارے میں چٹی پٹی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ میڈیا، جس کے پاس سکینڈلز کی کمی نہیںہوتی، اپنے ناظرین کے لیے ہیجان خیز تصاویر اور گرما گرم خبریں پیش کرتا ہے۔ یہ بات قابل ِ غور ہے کہ اُس آزاد معاشرے میں عوام سیاسی رہنمائوں کی بے راہ روی برداشت کرنے کے روادار نہیںہیں۔ آج کی تازہ خبروںمیں شرمناک فوٹو اور جنس زدہ عبارت اخبارات اور سائبر سپیس میں رش لے رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے نیویارک کے شہری بھی پریشان ہیں کیونکر ہو سکتا ہے کہ انتھونی وینیر (Anthony Weiner) امریکی سیاست دان ،جس کا اعتراف ہے کہ اُس نے چھ سے لے کر دس نوجوان لڑکیوںکے ساتھ آن لائن روابط رکھے اور انہیں عریاں تصاویر ارسال کیں‘ ان کا میئر بن جائے۔ اس واقعے کے میڈیا میں آنے کے بعد اس کی مسلمان بیوی ہما عبادین کا رویہ بھی خاصا پریشان کن ہے۔ مزیدار خبروں کی منتظر ویب سائٹس اور آن لائن اخبارات سے لے کر اہم قومی روزنامے، جیسا کہ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور یوایس اے ٹوڈے اور ٹی وی چینلز اس بات پر حیران ہیںکہ ہما عبادین ، جس کی والدہ ایک پاکستانی اور جس کا والد متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوا تھا، ابھی تک اپنے سکینڈلز کے شکار شوہر کا ساتھ دے رہی ہے۔ اُن سب نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر ایسا کیوںہے؟ ایک اور سوال اپنی جگہ پر ہے کہ کیا ایسے شخص کو میئر بننا چاہیے جس کے ماضی پر جنسی سکینڈلز کے گہرے سائے ہیں؟اس کہانی کا عنوان ’’Sex and the City‘‘، جو دراصل ایک مشہور فلم ہے، ہو سکتا تھا۔ یہ فلم بھی دو بے وفا شوہروں اور ان کی ’’ معاف ‘‘ کر دینے والی بیویوں کے بارے میں ہے۔ فلم میں نیویارک کا ہی منظر پیش کیا گیا ہے۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی نہیں سوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہنگامہ خیز زندگی کا کوئی حصہ مس ہوجائے۔ تاہم جیسے جیسے نئے میئر کے چنائو کا موقع قریب آرہا ہے، غیر یقینی پن اور نا پسندیدگی کے جذ بات کو ہوا مل رہی ہے۔ اس موقع پر دو افراد متواتر معذرت پیش کررہے ہیں۔ ایک صاحب ایلیٹ سپیزر(Eliot Spitzer) ہیں جو 2007ء میں نیویارک کے گورنر تھے۔ انھوں نے منصب سنبھالنے کے ایک سال بعد یہ اعتراف کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا کہ اُس کے اونچے درجے کی طوائفوں سے تعلقات تھے اور وہ ان کی ’’خدمات‘‘ چارہزار ڈالر فی شب حاصل کیا کرتا تھا۔ اُس کی بیوی سلیڈا(Silda ) نے پہلی پریس کانفرنس کے دوران تو غیر جذباتی انداز میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا لیکن بعد میں وہ اس سے الگ ہو کر علیحدہ اپارٹمنٹ میںرہنے لگی۔ تاہم ایک مرتبہ پھر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی ہے اور دوسری مدت کے لیے نیویارک شہر کا سب سے اہم عہدہ حاصل کرنے کے لیے اُ س کا ساتھ دے رہی ہے۔ اُس نے بھی ہما عبادین کی طرح اپنے شوہر کو معاف کر دیا ہے ۔ تاہم اس معاملے پر نیویارک کے شہریوں کی رائے مختلف ہے، خاص طور پر خواتین کو اس بات پر سخت حیرانی ہے کہ ایسی بیویاں اپنے شوہروں کو چھوڑ کیوں نہیں دیتیں،چہ جائیکہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔ برائون یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے وینڈی سکیلر (Wendy Schiller) کا کہنا ہے کہ ۔۔۔’’یہ بہت اہم بات ہے کہ اگر کسی اسکینڈل کے بعد اُس شخص کو اس کی بیوی معاف کردے۔ اگر اُس کی بیوی اس کے لیے انتخابی مہم چلائے تو اس سے بہت فرق پڑتا ہے اوراگر ایسا نہ ہو تو پھر دیگر خواتین بھی اُس شخص کو مشکوک نظروںسے دیکھتی ہیں۔ ‘‘دنیا کے اہم ترین اخبارات میں سے ایک نیویارک ٹائمزبھی اس معاملے کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔ اداریے میں سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اخباروینیر کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے ازدواجی مسائل اور ذاتی ’’مصروفیت‘‘ کو ٹی وی کیمروں اور عوام کی آنکھ سے دور رکھے، چنانچہ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ نیویارک کا میئر بننے کی دوڑ سے دستبردار ہوجائے۔ وینیر کی طرف سے لڑکیوں کوعریاں میل بھیجنے کا معاملہ دو سال پہلے منظر ِ عام پر آیا تھا۔ پہلے تو اس نے اس الزام کی تردید کی لیکن پھر اعتراف کر لیا اور وعدہ کیا کہ پھر کبھی ایسا نہیں کرے گا۔ تاہم ایک ویب سائٹ The Dirty کا دعویٰ ہے کہ اُس نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے پھر ایسا ہی کیا ہے۔ اس ویب سائٹ پر کچھ عورتوںکی کہانیاں ہیں جن کا کہنا ہے کہ اُنہیں ایسی میلز وصول ہوئی ہیں۔ اس پر نیویارک ٹائمز ا س جوڑے، وینیر اور ہما کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔’’بس بہت ہوگئی۔ مسٹر وینیر اور مس عبادین کہتے رہے ہیں کہ اُن کا جنسی سکینڈل عوامی مسئلہ نہیںہے۔ بالکل درست، یہ ہرگز نہیںتھا لیکن اُنھوںنے سیاسی مہم میںکود کر اسے ہمارا مسئلہ بنا دیا ہے۔‘‘ ہما عبادین ایک عملی مسلمان ہے اور اردو اور عربی روانی سے بولتی ہے۔ اُس کا باپ سید زین العابدین بھارت میں پیدا ہوا اور وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔ اُس کی والدہ صالحہ کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ آج کل جدہ کے ایک کالج میں پڑھاتی ہے اور وہ حجاب پہنتی ہے۔ ہما نے دس سال تک ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام کیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے۔۔۔’’میری ایک بیٹی ہے ، لیکن اگر میری ایک اور بیٹی ہوئی تو وہ ہما بنے گی۔‘‘ Vogue رسالے نے 2007ء میں ہما کی پروفائل میں لکھا تھا کہ وہ بیس سال کی لڑکیوں جیسا جذبہ، تیس سال کی عورتوں جیسا اعتماد، چالیس سال کی عورتوں جیسا تجربہ اور پچاس سالہ خواتین جیسا وقار رکھتی ہے۔ صدر بل کلنٹن نے بھی وینیر اور عبادین کی شادی میں شرکت کی تھی۔ ایک بات پر غور کیجیے کہ عبادین ایک مسلمان اوروینیر ایک یہودی ہے۔ کیا ہم پاکستانی خوش قسمت نہیں ہیںکہ ہمارے ہاں ایسے جنسی سکینڈلز سر نہیں اٹھاتے۔ ہاں ہم عزت کے نام پر قتل کر دیں تو اور بات ہے۔ اس ضمن میں اخبارات میں کچھ کہانیاں شائع ہوتی رہتی ہیںکہ کس طرح والدین اور رشتہ داروںنے کسی لڑکی کو شک کی بنیاد پر سفاکی سے ہلاک کر دیا۔ شاید ہمارے ہاں ایک دوٹوک فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ ’’عورتیں قصور وار جبکہ مرد بے گناہ ہوتے ہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں بھی ’’بل کلنٹن، وینیر اور Spitzers‘‘ موجود ہیں لیکن ہمارے ہاں کتنے رہنما ہیں جو عوامی عہدہ سنبھالنے سے پہلے یا بعد میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ہمارے ہاں بجلی چور پکڑے جاتے ہیں، کرپشن کرنے والوں کا نام بھی سامنے آجاتا ہے، کک بیکس کا بھی میڈیا کھوج لگا ہی لیتا ہے لیکن اخلاقی جرائم؟ ہر گز نہیں، ہمارے ہاں سب فرشتے ہیں، بس دامن نچوڑنے کی کسر ہے۔ صدرزرداری نے خواتین کے تحفظ کا بل منظورکرایا تھا اور اس کا انہیں کریڈٹ جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اُنھوںنے ایک اور اعتراف بھی کیا تھا کہ ’’میری بیوی مجھ سے زیادہ طاقتور ہے‘‘۔ یہ بات بھی سچ ہے۔ اس سچ پر بھی انہیں دادملنی چاہیے۔ کیا آپ نے ایسا کوئی آدمی دیکھا ہے جو ہمارے معاشرے میں یہ بات کہنے کی ہمت رکھتا ہو۔ ویل ڈن مسٹر زرداری!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved