فخر کیا جائے یا دکھ اور افسوس کا اظہار کہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی ہر قسم کی بیماریوں کے علاج پاکستان میں ہونا ناممکن ہو چکا ہے ۔ ا ن کے مقابلے میں بھارت کی مثال سامنے رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ نرسمہا رائو اوراٹل بہاری واجپائی نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے گھٹنوں کا علاج بھارتی ڈاکٹروں سے کروایا تھا اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنی سرجری بھی بھارت سے ہی کروائی حالانکہ وہ چاہتے تو ورلڈ بینک کے سابق عہدیدار ہونے کے ناتے‘ ورلڈ بینک کے کھاتے سے دنیا کے بہترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے بھی اپنا علاج کروا سکتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کے گھر بھی باہر ہیں اور ان کے ڈاکٹرز بھی پاکستان سے باہر پائے جاتے ہیں۔ ان کی رپورٹس بھی امریکہ اور یورپ میں بیٹھے ڈاکٹرز تیار کر کے بھجواتے ہیں۔ باہر کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی شاید اصل وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے بہت سے اکائونٹس اور کاروباری سلطنتیں بھی تو وہیں باہر ہی واقع ہیں۔ یہ ایمپائر سٹیٹس کیسے بنائی گئیں اورکب بنائی گئیں اس کی سب کو خبر ہے۔ ان تمام معاملات کو ہر کوئی جانتا ہے۔ اگر نہیں جانتے تو صرف وہ جو ان کے ہاتھوں کے لگائے ہوئے پودے ہیں۔جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ ان کے نام اور کردار بدلتے رہتے ہیں‘ ایک کے بعددوسرا چارج سنبھال لیتا ہے لیکن محبتوں اور عنایات کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں پاتا ‘اس لئے ان کے لگائے گئے پودوں کی مہربانی سے بیرونی دنیا میں ان لوگوں کو پنجابی محاورے میں ستے خیراں نیں۔ ابھی حال ہی میں ایک مشہور مقدمے کی سماعت کے دوران جج صاحب نے پوچھا کہ یہ جو آپ بوگس اکائونٹس کا کیس میرے سامنے لائے ہیں اس میں کسی بینکر کا بھی چالان کیا گیاہے اور جواب نفی میں ملا تو جج صاحب نے کیس اٹھا کر پرے پھینک دیا کہ یہ کیس میرے دائرہ اختیار سے باہر ہے‘ اسے احتساب کورٹ میں لے جایا جائے اور اس طرح معالات دبا دیے گئے ۔یہ کس نے کیا ؟شاید موجودہ حکومت اس کا ابھی تک سراغ ہی نہیں لگاسکی۔
وہ جو کہتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی ایک دھیلے کی کرپشن بھی نہیں کی‘ ہو سکتا ہے کہ وہ سچ ہی کہتے ہوں۔ اب اگر کوئی کسی ٹام یا ہیری کے اکائونٹس میں چالیس‘ پچاس کروڑ روپے جمع کرا دیتا ہے‘ اگر سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے یا کسی گلی بازار میں کوئی چھوٹی سے دکان کرنے والے کے اکائونٹ میں ایک ‘دو ارب روپے بھیج دیے جاتے ہیں توا س کے لیے سب سے پہلے وہ بینک اور اس کا منیجر جواب دہ ہوتا ہے کہ مروجہ قوانین کی رو سے تین لاکھ سے زائد رقم جمع کرائی جائے تو اکائونٹ ہولڈر سے اس کے ذرائع پوچھے جاتے ہیں‘ لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوا۔ اب ہو سکتا ہے کہ چالیس پچاس کروڑ روپے رشوت یا منشیات سے حاصل کر کے اصل شخصیت کے اکاؤنٹ میں اس کے کسی فرنٹ مین کے نام پر جمع کروا دیے گئے ہوں۔ منی لانڈرنگ صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ جسے اب دہشت گردی سے منسلک کرتے ہوئے FATF جیسا ادارہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہے‘ لیکن بد قسمتی سے یہ ادارہ صرف ایسے ممالک کے خلاف ہی سر گرم رہا ہے جنہیں عالمی سامراج نے اپنے خود مختارانہ فیصلوں کی سزا دینی ہو ۔
منی لاندرنگ حکومتی اور ریاستی فنڈز کے علا وہ منشیات اور اسلحہ سمگلنگ سے حاصل کردہ دولت کے لیے بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کے الزامات کا شور ہمارے ملک کی سیاسی فضا میں پندرہ بیس سال پہلے شدت سے گونجتے تھے۔میثاق جمہوریت کی وجہ سے یہ شور تھم گیا لیکن عمران خان کی صورت میں ابھرنے والی تیسری سیا سی قوت نے اس کا پھر واویلا شروع کر دیا ۔ میثاق جمہوریت نے زبان بندی تو کر وادی لیکن گزشتہ تیس برسوں سے مسلسل ایک دوسرے پر کی جانے والی لفظی گولہ باری اخبارات کے صفحات کی صورت میں محفوظ تھی۔ سچی بات ہے کہ پاکستان کی سیا ست پر قابض رہنے والے خاندان ایک د وسرے کا کچا چٹھا سامنے لے کر نہ آتے تو کیسے پتہ چلتا کہ ہمیں لوٹنے والے کون ہیں۔ اور پھرThe plunder of Pakistan اور پانامہ نے تو سب کا یوں کچا چٹھا کھول کے سامنے رکھ دیا کہ ہر کوئی اپنی کھاتے چھپانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہا ہے۔ اگر جناب نواز شریف ہمیں یہ نہ بتاتے تو کیسے پتہ چلتا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے سوئٹزر لینڈ اور دوسرے ممالک میں بینک اکائونٹ ہیں اور اگر زرداری صاحب انکشاف نہ کرتے تو کیسے پتہ چلتا کہ میاں صاحب کے لندن‘ سوئٹزرلینڈ اور دبئی میں اکائونٹس ہیں۔
لوگ سوچتے ہوں گے کہ یہ منی لانڈرنگ آخر کیا بلا ہے اور یہ جو امریکہ‘ جرمنی‘ سوئٹزر لینڈ ‘ فرانس‘ لندن‘ سپین‘ دبئی ‘ قطر ‘ عمان اور نیوزی لینڈ میں جمع کروڑوں اربوں کی باتیں کی جاتی ہیں اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہو گا؟ اگر تفصیلی نظر ڈالیں تومنی لانڈرنگ کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں‘ اسے سمجھنے کیلئے آپ کو 1990 ء کی دہائی میں لئے چلتے ہیں جب گلف آئل نے کوریا اور بولیویا کے سیاستدانوں کو کمیشن اورر شوت پہنچانے کے لیے بہاماس کے ذریعے چار ملین ڈالر منتقل کئے تھے جبکہ لاک ہیڈ کارپوریشن نے اٹلی کے سیا ستدانوں کو نقد اور بئیررڈرافٹس کی صورت میں ایک ٹرسٹ کو واسطہ بنا کر25 ملین ڈالر کا کمیشن دیا۔ لاک ہیڈ کی طرف سے جاپانی سیاستدانوں کو رشوت دینے کے لیے امریکہ کے ایک مشہور فارن کرنسی ڈیلرڈیک پریڈ کو استعمال کیا گیا جس نے لاک ہیڈ کے کہنے پر8.3 ملین ڈالرکے کالے دھن کو ایک بڑے سودے کے معاملات کے ذریعے سفیدکرنے کا چکر چلایا تاکہ کمپنی اکائونٹس میں اس سفید دھن کا ہی اندراج کیا جاسکے اور کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہے۔ دوسری طرف یہ رقم پندرہ ایسی ادائیگیوں کی صورت میں مطلوبہ افراد کو پہنچ گئی جن کا کھوج لگانا انتہائی مشکل تھا ۔آپ حیران ہوں گے کہ یہ رقم ہانگ کانگ کے ایک سپینی پادری کے فلائٹ بیگ اور سنگتروں کے کریٹوں کے ذریعے ٹوکیو میں لاک ہیڈ کے اہل کاروں کے حوالے کی گئی۔ یہ اپنے من پسند سیاستدانوں‘حکمرانوں اور بڑے بڑے اداروں کو خریدنے اورمحفوظ طریقوں سے کمیشن پہنچانے کی چند ایک مثالیں ہیں۔ ٹیکسوں کی چوری اور ہیرا پھیری کے ذریعے حاصل کردہ کالے دھن کو سفید کرنے کا عمل صرف انفرادی حیثیت میں ہی نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی کارپوریشنیں‘ کمپنیاں اور بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی ٹیکس سے بچنے کے لیے یا اپنے حصص یافتگان کو دھوکہ دینے‘ کرنسی کنٹرول کے قواعد و ضوابط سے بچنے اور اس سے پہلو تہی کرنے کے لیے متعلقہ اہلکاروں کو بھاری رشوت اور کمیشن کے نام پر ان کے مقرر کردہ ایجنٹوں یا اپنے ملک اور ملک سے باہر ان کے کھاتوں تک پہنچانے کے لیے یہی کالا دھن استعمال کرتے ہیں۔رقم کو تیسرے فریق کے کاروبار میں لگا کر با ضابطہ بنانے کا کام حکومتیں کیا کرتی ہیں خواہ ان کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ ہو یا نئے دہشت گرد تیار کرنا ۔جس طرح امریکہ اور بھارت نے جند اﷲ‘ حزب الاحرار ‘ تحریک طالبان پاکستان‘ لشکر اسلام اورداعش جیسی تنظیموں کو تیار کیا اسی طرح امریکہ نے ایک عرب ملک کی مدد اور ادائیگیوں کے عوض ایران کو اسلحہ دیا اور رقم نکارا گوا کی مارکسسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والے کونٹرا با غیوں کو دی گئی۔ یہ سب کچھ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی کی نگرانی میں ہو رہا تھا ۔ منی لانڈرنگ کے ماہرین کے ہاتھ بہت ہی لمبے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ان تک پہنچنا‘ ان کو سزا دینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے ‘یہی وجہ ہے کہ چند روز یا مہینوں کے شور شرابے کے بعد سب کچھ طے ہو جاتا ہے۔
پس منظر:اپنے دو جنوری کے مضمون'' اندر کا آئینہ ‘‘ میں جھنگ کے ایک دور افتادہ گائوں کی‘ چھ یتیم بچوں کی جس بیوہ ماں کا حوالہ دیا تھا وہ دو روز ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی ہے۔