پاکستان کا نظامِ معیشت چلانے میں دوست ممالک کا کردار اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی ان پر بھرپور انحصار کیا جاتا رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہو تا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے کی بجائے دوسروں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ سعودی عرب سے ساڑھے چار ارب ڈالر قرض لینے کے بعد چین سے درخواست کی جا رہی ہے کہ چار ارب ڈالر کے قرضوں کی مدت میں توسیع کر دی جائے۔ اطلاعات کے مطابق مارچ‘ اپریل میں چین سے لیے گئے قرضوں کی مدت بھی پوری ہو رہی ہے۔ ان حالات میں اگر پاکستان کو چین کے واجب الادا قرض لوٹانے پڑ جائیں تو 16 ارب 19 کروڑ ڈالرز کے زرمبادلہ ذخائر 12 ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ اور اگر سعودی عرب تین ارب ڈالر واپس مانگ لے تو یہ ذخائر کم ہو کر نو ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف سمیت کوئی بھی بین الاقومی ادارہ پاکستانی معیشت پر اعتماد نہیں کر سکے گا۔ 129 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں میں 70 فیصد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیے گئے ہیں۔ تقریبا 25 فیصد چین سے لیے گئے ہیں اور بقیہ پانچ فیصد میں دیگر ادارے اور ممالک شامل ہیں‘ یعنی اگر کسی ایک ملک سے پاکستان نے سب سے زیادہ قرض لیے ہیں تو وہ چین ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین پاکستان کو یہ قرض کیوں دے رہا ہے؟ بھائی چارے کی بنیاد پر یا ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی کے نعروں پر یہ قرض نہیں مل رہے‘ یہ افسانے پرانے ہو چکے ہیں۔ آج کا معاملہ کچھ لینے اور کچھ دینے کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ ماضی میں چین کے لیے دنیا کے دروازے کھولنے میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس مرتبہ بھی چین کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ عالمی منظر نامے پر حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ امریکہ چین پر پابندیاں لگا رہا ہے۔ یورپ کی مارکیٹ چین کے لیے سکڑتی جا رہی ہے اور چینی ٹھپے والی مصنوعات کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی۔ ان حالات میں چینی ایسے ملک کی تلاش میں ہیں جہاں وہ اپنی فیکٹریاں منتقل کر سکیں۔ٹیکنالوجی‘ مزدور‘ خام مال سمیت ہر چیز وہ خود لگائیں لیکن زمین‘ بندرگاہ اور ٹھپہ کسی اور ملک کا استعمال ہو۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات اسی اصول کے تحت کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس مقصد میں کامیابی پاکستان کے بغیر ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل یونٹس پاکستان میں لگا رہا ہے جہاں میڈ اِن پاکستان کی مہر کے ساتھ ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی جائیں گی۔ یہ اپروچ پاکستان اور چین کے لیے بہتر دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج دنیا گلوبل ویلج ہے۔ یہ جاننا بڑا آسان ہے کہ کس ملک میں چائنیز کمپنی کا مال بن رہا ہے۔پاکستان میں چینی کمپنیوں کی بھرمار سے پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر امریکہ اور یورپ میں پاکستانی ٹیکسٹائل کو بھی چینی مصنوعات قرار دے کر ان کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ نقصان پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سرمایہ کاروں کے پاس چینیوں جتنا سرمایہ اور مہارت بھی نہیں ہے۔ وہ ممکنہ طور پر ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے جس سے مقامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور جس سیکٹر پر تحریک انصاف کی حکومت نے تین سال میں اربوں ڈالر سبسڈی کے طور پر خرچ کر دیے ہیں اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم کے دورہ ٔچین کو روس اور یوکرائن تنازعے کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین اس معاملے پر روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ روس اور چین نے نیٹو ممالک کی تعداد بڑھانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر واشنگٹن کو تشویش ہے۔ اس طرح کی صورتحال پاکستان کے لیے ہمیشہ سے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔ دو بڑے ممالک کے درمیان اختلافات میں پاکستان کس کے سا تھ کھڑا ہو گا یہ سوال اہمیت کا حامل ہے۔ ان حالات میں پاکستانی وزیراعظم کا چین سے کھل کر مدد مانگنے کا اعلان موقع سے فائدہ اٹھانے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ اگر اسی پالیسی میں ملکی مفاد ہے تو اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ قیادت کے پاس ا ن حالات کو ملکی مفاد میں صحیح معنوں میں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
بظاہربڑے معاہدے ہو رہے ہیں۔ خبر ہے کہ وزیراعظم کے دورۂ چین کے دوران چینی کمپنیوں سے اربوں ڈالرز کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔ گوادر میں سٹیل ری سائیکلنگ کے لیے ساڑھے چار ارب ڈالرز کا معاہدہ ہو گیا ہے۔زرعی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے لیے چائنا مشینری انجینئر نگ کارپوریشن ایک سنٹر قائم کرے گی۔ سی ایم ای سی نے کراچی میں دو لاکھ میٹرک ٹن کے ایل این جی سٹوریج میں بھی دلچسپی دکھائی ہے۔ 50 ملین ڈالر کے زرعی اور 500 ملین ڈالرکے ایل این جی منصوبوں پر دستخط ہونے کی امید ہے۔ اس کے علاوہ فوجی فرٹیلائزر کے ساتھ کئی منصوبوں پر کام کرنے کی حامی بھری گئی ہے۔ چین نے پاکستان کے لائیو سٹاک میں بھی دلچسپی دکھائی ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی سرمایہ کار پاکستان میں رائل گروپ بفیلو فارم کے قیام پر تقریباً 50 ملین ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گوشت کے علاوہ دودھ کی صنعت میں بھی سرمایہ کاری کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ڈیری ڈویلپمنٹ پر تقریباً 30 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ منصوبہ بھی رائل گروپ کی زیر سرپرستی مکمل ہو گا۔ اطلاعات ہیں کہ چیلنج فیشن نے فری اکنامک زون میں 250 ملین ڈالر کی لاگت سے بڑی سرمایہ کاری کی ہے جس میں 100 ایکڑ زمین کی خریداری بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سرمایہ کاری سے برآمدات میں 400 ملین تک اضافہ ہو سکتا ہے اور 20 ہزار نوکریاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق سی آر بی سی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ساتھ مل کر تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کوسٹل ڈویلپمنٹ زون کی تکمیل ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے جو کہ دونوں گروپوں کے تعاون سے مکمل ہو گی۔ میڈیکل اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ نیو سافٹ میڈیکل سسٹم مصنوعی ذہانت پر کام کر رہا ہے۔ اس شعبے میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی توقع ہے۔ ابھی تک کی خبروں کے مطابق مصنوعی ذہانت پر کام کرنے کے لیے تقریبا 30 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ اس شعبے کے علاوہ نیو سافٹ دیگر شعبوں میں تقریبا 170 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کے علاوہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کی امید ہے۔ ہنان سن واک کنسٹرکشن گروپ اس شعبے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے تحت ایک لاکھ کلو میٹر لمبی فائبر آپٹک کیبل بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ گلوبل سیمی کنڈیکٹر گروپ 40 ملین ڈالرز کی لاگت سے سکلز ڈویلپمنٹ سنٹر قائم کرے گا جو کہ ایک لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم اس دورے کے نتیجے میں امید ہے کہ گوادر کو درپیش بجلی کے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت گوادر میں 12 سے 14 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جس کے باعث چینی نئی انڈسٹری نہیں لگا پا رہے جبکہ گوادر میں بجلی کی ضرورت پاکستان کی بجائے ایران سے پوری کی جاتی ہے ۔نئے معاہدے ہو رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہیں لیکن یاد رہے کہ معاہدے طے پانے اور ان پر عمل درآمد میں فرق ہوتا ہے۔ سی پیک کے اکثرمعاہدے آٹھ سال بعد بھی نامکمل ہیں۔ نئے معاہدے کب مکمل ہوں گے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔