صدارتی الیکشن ہوچکے۔ نئے صدر ایوان صدر میں پہنچ چکے ہیں۔ نئی اسمبلیاں، نئے حکمران اور اب نئے صدر۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ پارلیمنٹ اب مکمل ہے اور نئے سرے سے جمہوریت آگے چل سکتی ہے۔ اب نواز شریف صاحب کے لیے کیا رکاوٹ رہ گئی ہے کہ وہ ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتے ؟ صدر کے انتخاب کی تاریخ بدلے جانے کے بعد جو تنازعات شروع ہوئے ہیں شاید میاں نواز شریف کو مہنگے پڑیں گے کہ ان کے سیاسی اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ عمران خان پر توہین عدالت کے الزام کا تعلق بھی اسی صدارتی انتخاب سے ہے۔ الیکشن کمشنر فخرو بھائی کا استعفیٰ بھی صدارتی الیکشن اور اس کی تاریخ سے جُڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان فاصلہ اور پاکستان میں نئے انتخابات کے چالیس دن کے اندر اندر سیاسی تلخی پیدا ہونے کا تعلق بھی اسی تاریخ سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بحران کیوں اور کس نے پیدا کیا اور کیا اس کی واقعی ضرورت تھی ؟ یہ سارا بحران اس وقت پیدا ہوا جب الیکشن کمیشن نے نئے صدر کے انتخاب کے لیے تاریخ دی تو اس پر میاں نواز شریف نے اعتراض کر دیا اور پہلے الیکشن کمیشن کو خط لکھا گیا کہ وہ تاریخ بدل دیں کیونکہ 6اگست کے دن بہت سارے ایم این ایز اور ارکان اسمبلی عمرے کے لیے سعودی عرب ہوں گے یا پھر وہ اعتکاف میں بیٹھے ہوں گے اور ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ الیکشن کمیشن نے یہ اعتراض قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر نواز شریف نے راجہ ظفرالحق کو ہدایت کی کہ وہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دیں۔ جس دن پٹیشن دائر کی گئی اسی دن ایک گھنٹے میں فیصلہ دے دیا گیا اور الیکشن کے لیے 6اگست کی بجائے 30جولائی کی تاریخ مقرر کردی گئی اور یہیں سے سارا کھیل شروع ہوا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف پچھلے کئی برسوں سے رمضان کا آخری ہفتہ سعودی عرب میں عبادت میں گزارتے ہیں‘ لہٰذا وہ کسی قیمت پر اپنی اس روایت کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ ان کی ہدایت تھی کہ کچھ بھی ہوجائے اس تاریخ کو بدل دیا جائے اور ان کی خواہش کے احترام میں یہ سب کچھ کیا گیا ۔ الیکشن کمشن نے انکار کیا تو سپریم کورٹ چلے گئے اور فیصلہ ہوگیا جس پر سب سے پہلے پیپلز پارٹی اور پھر عمران خان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور یوں بائیکاٹ سے کام شروع ہوا جو عمران خان کی توہین عدالت تک پہنچ گیا ہے اور اب عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں پڑگیا ہے اور پیپلز پارٹی کو موقع مل گیا ہے کہ وہ عدالت، الیکشن کمیشن اور نواز لیگ پر گٹھ جوڑ کے الزامات لگا سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن تاریخ کی تبدیلی اتنی ضروری تھی کہ اس کے لیے اتنا بڑا سیاسی بحران کھڑا کر دیا جاتا کہ پہلے چیف الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا پڑتا اور پھر عمران خان کو سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا؟ میرا خیال ہے کہ نواز شریف کی خواہش کی تکمیل کی نئی حکومت نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے جس کا اندازہ انہیں اس وقت نہیں ہورہا کیونکہ عمران خان کی پارٹی‘ جس نے الیکشن کی شام ٹویٹر پر نواز شریف کو مبارکباد دے کر الیکشن کے نتائج مان لیے تھے‘ کے ارکان آج کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ الیکشن میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی تھی اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا تھا ۔ یوں چالیس دن کے اندر اندر عمران خان کا نقطہ نظر بدل گیا ہے اور وہ الیکشن نتائج‘ جن کو سب قبول کرنے پر تیار تھے‘ اچانک متنازعہ ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ اگر کسی کو یاد ہو تو 1997ء میں ہونے والے الیکشن کے بعد بینظیر بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور نتائج تسلیم نہیں کیے تھے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ لوٹ سکا تھا اور اس کا نتیجہ بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کی شکل میں نکلا۔ فوجی قیادت بھی اس وقت کی سیاسی قیادت کی عزت اس وجہ سے نہیں کرتی تھی کہ ان پر دھاندلی کے ذریعے الیکشن جیتنے کے الزامات ہیں اور وہ اس ملک کے اصلی نمائندے نہیں ہیں۔ 2008ء کے انتخابات تقریباً سب جماعتوں نے مان لیے تھے اور یوں پانچ سال پورے ہوئے لیکن موجودہ الیکشن پر بہت سارے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور اس کی شروعات بھی دھاندلی کے الزامات سے شروع ہوئی ہے جو نئی حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہے کیونکہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جس الیکشن پر بھی سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے اس کے نتائج پر قائم ہونے والی حکومت زیادہ دیر چل نہیں سکی‘ چاہے وہ 1977ء کے الیکشن ہوں یا پھراس کے بعد ہونے والے انتخابات دو تین برس سے زیادہ وقت ان حکومتوں کو نہیں ملا۔ صرف وہ اسمبلیاں اپنا وقت پورا کر سکیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم نہیں ہوئیں او راس سلسلے میں صرف 1970ء اور 2008ء کے انتخابات ہی ذہن میں آتے ہیں اور دونوں دفعہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو جنرل مشرف دور میں بھی پارلیمنٹ نے اپنی آئینی مدت پوری کی لیکن اس وقت فوج پوری قوت کے ساتھ سیاسی میدان میں خود موجود تھی اور بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو باہر رکھ کر ان اسمبلیوں کا وقت پورا کرایا گیا اور پھر عدالت کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس لیے تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیا ہے اور محض رمضان میں سعودی عرب عمرہ کرنے کی خاطر تاریخ جس انداز میں تبدیل کرائی گئی اس سے اُن کے لیے بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جائے گا۔ ان کی حکومت پہلے ہی بہت سکینڈلز میں گھر چکی ہے اور ان میں کچھ وفاقی وزیروں کے نام بھی آرہے ہیں۔ آئی پی پیز کو پانچ سو ارب روپے کی ادائیگی سے بھی کچھ وزیروں کو فائدہ ہوا ہے جن کے کچھ پاور کمپنیوں میں شیئرز ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے لیے مسائل پیپلز پارٹی اور عمران خان تو پیدا کر ہی رہے ہیں‘ بہت سارے مسائل وہ خود بھی پیدا کرتے جارہے ہیں جو ہو سکتا ہے فی الوقت بڑے مسائل نظر نہ آتے ہوں کہ ان کی حکومت اس وقت ہنی مون پیریڈ سے گزر رہی ہے لیکن ہنی مون پیریڈ میں پرسکوں انداز میں کیے گئے فیصلے بعد میں بڑے مسائل پیدا کریں گے جن کا اندازہ وہ اس وقت نہیں کر رہے۔ عمران خان پر جوں جوں عدالت کا دبائو بڑھتا جائے گا وہ بھی پاکستان کے سیاسی ٹمپریچر میں اضافہ کرتے جائیں گے اور ان کا پیپلز پارٹی کے موقف کی طرف جھکائو بڑھتا جائے گا اور یہ وہ نکتہ ہوگا جہاں میاں نوازشریف کے لیے ان کا مینڈیٹ بھاری پڑ سکتا ہے کیونکہ جس دن پیپلز پارٹی اور عمران خان کی شکایات مشترکہ ہوجائیں گی، اس دن سیاسی دشمن کا دشمن دوست بن سکتا ہے۔ نواز لیگ ایم کیو ایم کو گلے لگا سکتی ہے تو عمران پیپلز پارٹی کو کیوں نہیں؟ مجھے تو صدارتی انتخاب کی تاریخ بدلوانے والا یہ شگون کچھ اچھا نہیں لگ رہا‘ خصوصاً اگر عمران خان عدالت سے معافی نہیں مانگتے( جو وہ کہتے ہیں نہیں مانگیں گے) اور انہیں بھی سابق وزیراعظم گیلانی کی طرح نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved