ہم نے ایک دوسرے کے لانگ مارچ
کا خیرمقدم کیا ہے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم نے ایک دوسرے کے لانگ مارچ کا خیرمقدم کیا ہے‘‘ جبکہ ہم اپنا لانگ مارچ کرینگے اور وہ اپنا، اور آپس میں تصادم کے بجائے ایک دوسرے کو خوش آمدید کہیں گے کیونکہ الیکشن سر پر ہیں اور تصادم کا وقت بھی آنیوالا ہے اور ہم چوراہے میں کھڑا کرنے اور پیٹ پھاڑنے کی دھمکی کو عملی جامہ پہنائیں گے جس کا لوگ ہمیں اکثر طعنہ دیا کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ ہم جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے بھی ہیں جبکہ وزارتِ عظمیٰ کی باری بھی اب میری ہے‘ نون لیگ جس کے خواب دیکھ رہی ہے اور انہیں کوئی اشارہ بھی نہیں ملا کیونکہ اصل اشارہ جو ہمیں دیا گیا ہے‘ اس کے واپس لینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے
نااہل اپوزیشن ملی: شیخ رشیداحمد
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے نااہل اپوزیشن ملی‘‘ اور دونوں کا مقابلہ اپنے زور و شور سے جاری ہے کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے؛ تاہم ابھی اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ دونوں میں سے زیادہ کمزور کون ہے جبکہ حکومت کی کمزوری کا ثبوت یہ ہے کہ اپوزیشن کی تمام تر کوشش کے باوجود یہ بھاگ بھی نہیں سکتی کیونکہ بھاگنے کے لیے بھی خاص طاقت اور انرجی کی ضرورت ہوتی ہے یعنی حکومت اگر بھاگنا چاہے بھی تو اس میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ بھاگ سکے‘ اس لیے کوئی نتیجہ حاصل کرنے کے لیے دونوں کو اپنی اپنی نقاہت پر توجہ دینی چاہئے۔ آپ اگلے روز یوم یکجہتی کشمیر پر نکالی گئی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
نااہل ملک تباہ کر رہے ہیں‘ جلد
بھگائیں گے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نااہل ملک تباہ کر رہے ہیں‘ جلد بھگائیں گے‘‘ لیکن مصیبت یہ ہے کہ کسی کو بھگانے کے لیے اس کے پیچھے خود بھی بھاگنا پڑتا ہے جس کی ہم میں ہرگز کوئی سکت نہیں رہی اس لیے حکومت سے درخواست ہے کہ ہماری حالت پر رحم کرے اور خود ہی بھاگ جائے جبکہ حکومت کو ویسے بھی بھاگ دوڑ اور ورزش کی سخت ضرورت ہے‘ ہم نے تین برس تک سڑکوں پر بھاگ بھاگ کر اپنا وقت ضائع کیا ہے اور رہی سہی طاقت بھی‘ اس لیے حکومت کو بھگانا ایک خواب ہو کر رہ گیا ہے اور خود ہمارا سارا کیا ہی ہمارے آگے آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز کشمیر ریلی اور ڈی آئی خان میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی کے شور میں حکومت
کی پالیسیاں دب گئیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کے شور میں حکومتی پالیسیاں دب گئیں‘‘ اور اسی شور کی وجہ سے حکومتی پالیسیاں کامیاب نہیں ہو سکیں حالانکہ مہنگائی کو اتنا شور مچانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ مہنگائی کے مارے ہوئے عوام کا شور ہی کافی تھا اور جس میں ان کی چیخیں بھی شامل تھیں جبکہ مہنگائی چپ چاپ بھی اپنا کام کر سکتی تھی جو وہ بڑی کامیابی کے ساتھ کر بھی رہی ہے لیکن اس شور نے ہماری پالیسیاں ہی دبا دیں اور جو باہر نکل ہی نہیں رہیں اور نہ ہی حکومتی اعلانات کے باوجود مہنگائی میں کوئی کمی آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز پی سی ایس آئی آر میں نئی لیبارٹری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اشاروں پر چلنا ہوتا تو نہ حکومت گنواتے
اور نہ انتخاب ہارتے: جاوید لطیف
مسلم لیگ نواز کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''اشاروں پر چلنا ہوتا تو نہ حکومت گنواتے اور نہ انتخاب ہارتے‘‘ چنانچہ اب ہم نے کافی سبق سیکھ لیا ہے اور ہمیں اشارے بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں، اگرچہ یہ ادھورے قسم کے ہیں اور اس قدر مبہم ہیں کہ ان کا کوئی بھی مطلب نکل سکتا ہے جبکہ زیادہ قابلِ اعتماد اشارے وہی ہوں گے جو شاہد خاقان عباسی کوملیں گے جبکہ شہباز شریف کو ملنے والے کسی اشارے کو اشارہ نہیں کہا جا سکتا بیشک وہ جتنی بھی بھاگ دوڑ کرتے رہیں بلکہ اب تو لندن سے بھی گرین سگنل مل گیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ان پر اعتبار ہی نہیں کیا جا رہا اور بات آگے نہیں بڑھ رہی۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
خیال کی شطرنج
یہ امجد بابر کی نثری نظموں کا مجموعہ ہے۔ پسِ سرورق ایک سطری رائے اور انتساب خاکسار کے نام ہے یعنی عوضِ معاوضہ گلہ ندارد۔ کتاب کے دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر طارق ہاشمی، علی محمد قریشی، ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور جیا شاہ شامل ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ ''متاز نظم گو علی محمد فرشی کے مطابق ''جاندار شاعر عصری صورتِ حال سے لاتعلقی اور فرار کی راہ اختیار نہیں کرتا، بالخصوص عہدِ حاضر میں شاعر کیلئے پورے شعور اور تمام تر حسیّات کے ساتھ بدلتے منظر نامے کے پسِ منظر تک رسائی از بس ضروری ہے۔ امجد بابر کو میں نے اس زاویے سے چوکنا‘ محتاط اور حساس پایا ہے، اس نے سوالات کے مقابل کھڑے ہونے میں ذرہ بھر لرزش یا لغزش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ زندہ اُمید مضطرب شعور کو زادِ راہ بنا کر ہمہ وقت تخلیقی سفر میں رہتا ہے‘‘۔ اس مجموعے میں کل 70نظمیں شامل ہیں۔
نمونۂ کلام کے طور پر اس کتاب میں سے ایک نظم:
فراغت میں سیر کی اذیت
آؤ عشق کے محلے میں
بے حسی کے نمک پارے ہی بانٹ آئیں
منافقت کے رس گلے مطلبی قاصد کو کھلا کر
محبوب کے نام لمبی چھٹی کی ای میل تھما آئیں
خود غرض دوستوں کی بے وفائی پر
افسانہ نہیں
مائیکرو فکشن لکھیں
سرد موسم میں محبت کے چلغوزے مہنگے ہو گئے
اب مونگ پھلی سے راتیں گرم کریں
اندھوں کو ریوڑیاں نہیں
شوارمے اور پیزے درکار ہیں
دیہاتی لوگوں میں اپنائیت
شہروں میں تنہائی، اکلاپے کے جنگل آباد ہیں
کوئی صحرا کا رُخ نہ کرے
اب ذہنوں میں خود فراموشی کا جادو
سر چڑھ کر بولتا ہے
آؤ عشق کے محلے میں
رقیب کو دوستی کی پیش کش کریں
ناصح کی بے اثر تبلیغ سے
خود کو جھاڑ کر اُس بے وفا کے گھر کو دیکھنے چلیں
جس نے کبھی رات کی تنہائی میں بھی
آواز نہیں دی
جس نے کبھی حسن کی خیرات کے لیے بھی
دروازہ نہیں کھولا
آج کا مطلع
جہاں چاہیں وہیں گزرتی ہے
عمر پھر بھی نہیں گزرتی ہے