تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-02-2022

آن لائن تدریس کا دُکھڑا

جب سے کورونا کی وبا عام ہوئی ہے تب سے آن لائن پڑھائی کا کلچر بھی ایسا عام ہوا ہے کہ اب جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ آن لائن تعلیم کا کلچر دنیا بھر میں موجود ہے۔ کورونا کی وبا سے پہلے بھی آن لائن کلاسز ہوتی تھیں مگر یہ معاملہ بہت حد تک ترقی یافتہ ممالک کا تھا۔ وہاں چونکہ بنیادی ڈھانچا موجود ہے اور اچھی حالت میں ہے اس لیے آن لائن تدریس سے مطلوب نتائج بہت حد تک حاصل ہو پاتے تھے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں طلبہ کی ذہنی سطح بھی خاصی بلند ہے۔ اُن کا آئی کیو ہی بلند نہیں بلکہ کچھ نیا سیکھنے کی لگن بھی غیر معمولی ہے۔ ایسے میں آن لائن کلچر اُن کے لیے کسی بھی درجے میں منفی نتائج کا حامل ثابت نہیں ہوا۔ ترقی پذیر دنیا میں آن لائن تدریس نے مطلوب نتائج پیدا نہیں کیے؛ تاہم کچھ زیادہ منفی نتائج بھی برآمد نہیں ہوئے۔ ان ممالک میں آن لائن تدریس سے والدین پر اگر ایک طرف اخراجات کے حوالے سے دباؤ بڑھا تو دوسری طرف بچوں کو سکول نہ بھیجنے کے دردِ سر سے نجات بھی ملی۔ ہاں! پسماندہ ممالک آن لائن تدریس کی چکی میں پس کر رہ گئے۔
کیا آن لائن پڑھانے سے بچوں میں مطلوبہ قابلیت اور علم کے حصول کی لگن پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ آن لائن تدریس سے مکمل مطلوب نتائج تو خیر کہیں بھی ممکن نہیں بنائے جاسکے۔ ہمارے ہاں بھی آن لائن تدریس کا معاملہ ملا جلا، کھٹا میٹھا رہا ہے۔ نتائج کے بارے میں اب بھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے ہاں آن لائن تدریس کے حوالے سے مطلوب بنیادی ڈھانچا‘ زیادہ تر‘ مطلوبہ معیار کا نہیں۔ عام آدمی اپنی اولاد کو معیاری آلات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ آن لائن تعلیم و تعلّم کے لیے ٹی وی سکرین یا پھر لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی سکرین معقول قرار دی جاسکتی ہے مگر یہاں بچوں کو موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین پر کلاسز اٹینڈ کرنا پڑ رہی ہیں۔ بھارت کی ریاست گجرات میں آن لائن تعلیم کے حوالے سے کرائے جانے والے ایک آن لائن سروے میں 543 طلبہ نے حصہ لیا جن میں سے 6 فیصد کالج اور یونیورسٹی سطح کے تھے۔ سروے سے معلوم ہوا کہ 36 فیصد طلبہ آن لائن کلاس کے دوران وڈیوز دیکھتے رہتے ہیں، 41 فیصد گیمز کے مزے لیتے ہیں اور 17 فیصد دوستوں سے چیٹنگ کا لطف پاتے ہیں! متعدد شہروں سے شائع ہونے والے روزنامہ ''دِویہ بھاسکر‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق آن لائن پڑھنے کی صورت میں 52 فیصد طلبہ ریاضی اور نیچرل سائنسز میں کمزور ہوئے ہیں۔ 63 فیصد نے آنکھوں میں تکلیف کی شکایت کی۔ 26 فیصد کی شکایت ہے کہ اُن کا حافظہ متاثر ہو رہا ہے۔ 7 فیصد نے ہڈیوں میں تکلیف کی شکایت بتائی۔ 5 فیصد کا کہنا تھا کہ آن لائن کلاسز لینے سے ان کا نظامِ انہضام کمزور پڑ چکا ہے۔ آن لائن پڑھنے والوں میں 68 فیصد وہ ہیں جو موبائل فون کا سہارا لیتے ہیں۔ 20 فیصد لیپ ٹاپ کی مدد سے پڑھتے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی بینائی پر کس حد تک دباؤ پڑتا ہوگا۔
آن لائن پڑھنے میں کیا خاص لگا؟ اس سوال کے جواب میں 31 فیصد نے کہا: کچھ خاص نہیں۔ 36 فیصد نے کہا: وقت کی بچت ممکن ہو پائی۔ 16 فیصد کا کہنا تھا کہ مرضی کے مطابق پڑھنے کی آزادی ملی، اور بس۔ آن لائن تعلیم پانے کا تجربہ کیسا رہا؟ اس سوال کے جواب میں 13 فیصد نے کہا کہ والدین کا عمل دخل نہیں رہا‘ جو خطرناک بات ہے۔ 17 فیصد نے کہا کہ پڑھنے میں الجھن پیش آتی ہے‘ کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں آتا۔ 35 فیصد نے کہا کہ بار بار پیدا ہونے والی تکنیکی خرابیوں اور کنکشن سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث دیکھنے اور سننے میں الجھن محسوس ہوتی ہے۔ آن لائن تعلیم کے حوالے سے پوچھا گیا کہ اب آگے کیا کرنا ہے تو 60 فیصد سے زائد طلبہ نے کہا: ''جیسے تیسے‘‘ پڑھتے رہیں گے۔
کیریئر کے حوالے سے پوچھے جانے پر 25 فیصد نے کہا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیا کریں گے۔ 9 فیصد نے کہا: اب کمانے کی طرف جانا ہے۔ 6 فیصد نے کہا: اب مزید پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ صرف 18 فیصد نے کہا کہ امتحان آن لائن لینا چاہیے۔ 37 فیصد نے آف لائن امتحان میں دلچسپی ظاہر کی۔ 28 فیصد کا کہنا تھا کہ کلاس روم میں آن لائن اور آف لائن تدریس کا امتزاج بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ دنیا بھر میں رائے عامہ کے جائزوں سے یہ امر واضح ہوا ہے کہ آن لائن کلاسز سے بچوں کی فکری یعنی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ وہ فطری علوم کے حوالے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ کلاس روم میں مسابقت کا ماحول رہتا ہے۔ ایسے میں بچے مشکل مضامین میں خوب محنت کرتے ہیں۔ اساتذہ کی طرف سے حوصلہ افزائی کی صورت میں اُن میں پڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیت اور سکت بڑھتی ہے۔ وہ زیادہ دل لگاکر پڑھنے کی طرف جاتے ہیں۔ آن لائن کلاسز نے طلبہ کی زندگی کے اس اہم حصے کو ہی ختم کر ڈالا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بعض مخصوص معاملات میں ہی آن لائن تدریس معقول طریقہ ہے؛ تاہم کلاس روم میں پڑھنے کا الگ ہی لطف ہے۔ سکول اور کالج کے طلبہ دوستوں میں بیٹھ کر زیادہ راحت محسوس کرتے ہیں۔ گھر سے سکول یا کالج تک جانا ایک سہانے سفر کا درجہ رکھتا ہے۔ سکول میں ہم مزاج دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنا، پڑھنا، کھانا پینا، کھیلنا‘ سبھی کچھ ایک الگ دنیا کا معاملہ ہے۔ یہ حقیقی انسانی ماحول ہے۔ ہم کسی بھی طور ''ہیومن فیکٹر‘‘ کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ ممکن ہی نہیں! آن لائن کلاس میں وہ گرم جوشی، تمکنت اور شادمانی پیدا ہو ہی نہیں سکتی جو حقیقی کلاس روم میں پائی جاتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں بچے پڑھائی میں پہلے ہی بہت کمزور ہیں۔ چند ایک بچے فطری ذہانت کی بدولت ذاتی محنت کے نتیجے میں کچھ بن پاتے ہیں۔ دیگر کا معاملہ تو قابلِ رحم ہے۔ سکول کا بنیادی کام بچوں میں بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے درکار اعتماد پیدا کرنا ہے۔ آن لائن کلاسز کی شکل میں ایسا نہیں ہو پاتا۔ بچوں کے لیے صبح کے اوقات ہی تعلیم و تعلم کے اعتبار سے موزوں ترین ہیں۔ اپنے ہی شہر یا علاقے میں دیکھ لیجیے۔ دوپہر کی شفٹ والے سکولوں کے بچے خاصے پژمردہ انداز سے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ رات کی پُرسکون نیند کے بعد سکول جانا بچوں کے لیے بالکل فطری معاملہ ہے۔ دن جیسے جیسے چڑھتا جاتا ہے، توانائی کی سطح گرتی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دو پہر کی شفٹ میں پڑھنے والے بچوں میں کچھ پڑھنے، سیکھنے کی لگن زیادہ اور توانا نہیں ہوتی۔ آن لائن پڑھائی ایک خاص حد تک ہی فائدہ دیتی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو تو ٹیچر یا ٹیوٹر سے معلوم کرنے کے لیے آن لائن سسٹم بہت کارگر ہے۔ یہ کام فون کال کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ پوری کی کی پوری کلاس ہی آن لائن لی جائے‘ یہ بات کچھ زیادہ کارگر معلوم نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں آن لائن تعلیم عام ہوتی جارہی ہے مگر اِس کے مضمرات کے بارے میں زیادہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جا رہی۔
ایک بھارتی ریاست کے حوالے سے کیا جانے والا سروے ہمارے لیے بھی اہم ہے کیونکہ دونوں ممالک میں مجموعی ماحول یکساں ہی ہے۔ یہاں بھی تعلیم کا بُرا حال ہے۔ ہمارے ہاں بھی آن لائن تعلیم سے بچوں کی صلاحیتوں کو گہن لگا ہے۔ ایسے میں بہت حد تک ناگزیر ہے کہ تعلیم و تعلم کے حوالے سے ترجیحات کا درست تعین کیا جائے۔ ہم تعلیم کے میدان میں پہلے ہی بہت پیچھے ہیں۔ اگر آن لائن سسٹم کو مزید زحمت دی گئی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ ہاں! وقت کا ضیاع روکنے کے لیے سمارٹ ٹائمنگ اور سمارٹ ٹیچنگ کے راستے پر چلا جاسکتا ہے۔ ہفتے میں چار دن کی اور یومیہ چار گھنٹے کی سکولنگ بھی ہوسکتی ہے۔ بچوں کو تھکا دینے والی ٹائمنگ سے گریز کیا جانا چاہیے۔ سب سے بڑا سوال کچھ سیکھنے کے حوالے سے بچوں میں دلچسپی کا برقرار رکھنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved