حکومت کو جمہوری طریقے سے ہٹانا ہے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ'' حکومت کو جمہوری طریقے سے ہٹانا ہے‘‘ اصل جمہوری طریقہ تو تحریک عدم اعتماد ہے لیکن اس کے لیے اسمبلی میں اکثریت کی ضرورت ہے جس کا کہیں نام و نشان تک نہیں ملتا حتیٰ کہ ہم سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجودبھی ہار گئے۔ اگرچہ لانگ مارچ کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہے اس لیے اس میں بھی ہماری شمولیت ایک تکلف سے زیادہ نہیں ہے جبکہ ویسے بھی ہم جمہوری اصولوں سے اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے کیونکہ جو کچھ ہم نے پہلے کیا ہے‘ وہ جمہوری اصولوں کے عین مطابق تھا کیونکہ سیاست اور جمہوریت ایک کاروبار کی مانند ہیں اور ہر کاروبار کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور اس میں ہماری کامیابی بھی عین جمہوریت ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کررہے تھے۔
حکومت لانگ مارچ کی گیدڑ بھبکیوں
سے ڈرنے والی نہیں: شفقت محمود
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ ''حکومت لانگ مارچ کی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والی نہیں‘‘ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کا شیر اب اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ دھاڑنے کے قابل بھی نہیں رہا اور اسی لیے یہ لوگ اب گیدڑ بھبکیوں سے کام لینے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ انہیں گیدڑوں سے یہ کام لینے کے بجائے ان سے گیدڑ سنگھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ کوئی بات بن سکے لیکن انہوں نے گیدڑ صرف گیدڑ بھبکیوں کے لیے رکھے ہوئے ہیں جو بھبکی بھی اپنی مرضی ہی سے لگاتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ بھبکیاں صرف ان کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اس لیے انہیں شیر ہی کو دوبارہ جوان کرنے کے لیے کوئی ٹانک وغیرہ پلانے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو نیب زدہ مافیاز نے گھیر رکھا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کو نیب زدہ مافیاز نے گھیر رکھا ہے‘‘ اور یہ بات نہایت تشویش کا باعث ہے اور جس سے اسے پہلی فرصت میں نکلنا چاہیے اور اس کے لیے میں اپنی ادنیٰ خدمات بھی پیش کر سکتا ہوں کیونکہ اگر انتخابات کے بعد ہم برسراقتدار آتے ہیں تو بھی ہمیں ان کا تدارک کرناہی پڑے گا اس لیے کیوں نہ وقت پر ہی اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جبکہ ہم نے اپنے طور پر ان کی جڑوں کا کھوج لگانے کی بھی کوششیں شروع کر دی ہیں اور جونہی اُن کا پتا چلتا ہے‘ اپنی روزانہ کی تقریروں کے ذریعے اس مافیا کا قلع قمع کرنے کی مہم شروع کر دوں گا کیونکہ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔ آپ اگلے روز گجرات میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت نے
ملک لوٹنے کا عہد کر رکھا ہے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت نے ملک لوٹنے کا عہد کر رکھا ہے‘‘ حالانکہ اس کے لیے اقتدار و اختیار کا ہونا ضروری ہے جو انہیں دور دور تک نظر نہیں آتا اور اگر یہ کسی اشارے کے منتظر ہیں تو انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایسے افراد کو ایک بار پھر اقتدار میں آنے کا اشارہ کرنا کس حد تک مناسب ہوگا اس لیے یہ پارٹیاں ایسے کسی کام کا عہد کریں جو وہ کر بھی سکتی ہوں، مثلاً بیرونِ ملک منتقل کیا گیا پیسہ واپس لوٹانا اورآئندہ اس کام سے مکمل طور پر تائب ہو جانا جو اگرچہ ممکن نہیں لگتا‘ اس لیے انہیں چاہیے کہ اُلٹے سیدھے خواب دیکھنے کا تکلف نہ کریں؛ اگرچہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
شہباز‘ زرداری ملاقات سے حکومت
کے ہاتھ پاؤں پھول چکے: عظمیٰ بخاری
مسلم لیگ نون پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''شہباز‘ زرداری ملاقات سے حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول چکے‘‘ کیونکہ اس ملاقات کا جو انجام ہونا ہے‘ حکومت کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے جبکہ ہاتھ پاؤں خوشی سے ہی پھولتے ہیں جیسا کہ غالب نے کہا ہے ؎
اس خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جب اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
اور یہ بات ان دونوں حضرات کو بھی اچھی طرح سے معلوم ہے جبکہ حکومت کو وہ دونوں ویسے بھی نہیں گرانا چاہتے اور یہ صرف لوگوں کو لارا لگانے کی ایک بودی سی کوشش ہے۔ آپ اگلے روز ترجمان پنجاب حکومت کے بیان پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں انجم قریشی کے مجموعۂ کلام ''دوجا پاسا‘‘ میں سے ایک نظم:
تھوڑ
ساوے ہو گئے رُکھے ماہی
پانی دے گھٹ سُکے ماہی
تیرے مُکھ دے بھکھے ماہی
تیری اکھ دے دُکھے ماہی
تیرے لئی ہتھ چُکے ماہی
اپنے آپ توں لُکے ماہی
تیری تانگھ وچ مُکے ماہی
نہ سنیہا نہ رُقعے ماہی؟
کون اے تینوں تیتھوں اگے
تینوں میرے نال کیہ لگے
دنیا سوندی، تتڑی جگے
رتڑے سُفنے ہو گئے بگے
سُنجے گھر وچ کھکھر لگے
نہ چندرا کوئی اتھرو ڈگے
نہ گڑ پکے نہ ای وگے
ٹھگاں دا ٹھگ تُوں، گئے ٹھگے
آج کا مطلع
سبزۂ گلزار پر چوما ہے جس کو خواب میں
زندگی کا زہر تھا اس گوہرِ نایاب میں