تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-02-2022

کیا واقعی کسی بھی قیمت پر؟

انفرادی سطح پر زیادہ سے زیادہ خوش حالی یقینی بنانے کے لیے انسان کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اپنے ماحول اور معاشرے سے خوش نہیں اور کہیں اور جاکر اپنی زندگی کو ایک نیا رنگ دینا چاہتے ہیں۔ پس ماندہ ممالک کے نوجوان ہمہ وقت ترقی یافتہ معاشروں میں آباد ہونے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کے ذہنوں پر یہ خواب جنون کی طرح سوار ہو جاتا ہے اور پھر وہ جذبات کی رَو میں بہہ کر اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے انتہائی درجے کی مشکلات پیدا کر بیٹھتے ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کے بیشتر نوجوان ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونے کا خواب دیکھتے دیکھتے اپنی جوانی کو روگ لگا بیٹھتے ہیں۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے‘ اپنے وطن سے بیزاری جب زور پکڑتی ہے تو انسان کا کسی کام میں جی نہیں لگتا اور وہ ہر وقت کہیں اور آباد ہونے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ یہ سوچ جب شدت اختیار کرتی ہے تو انسان اپنا مستقبل بہتر بنانے کے نام پر کچھ بھی کرنے پر بضد رہتا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی حالت میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہ بالعموم خرابیاں پیدا کیا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر پس ماندہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی حالت میں وطن کی مٹی کو چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہاں! ایسے لوگوں کی تعداد خاصی قلیل ہوتی ہے۔ اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو موقع ملتے ہی وطن کو خیرباد کہنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتے۔ اُن کی نظر میں مادّی سکھ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اِس کی خاطر وہ کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ بلکہ بضد رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بالعموم شدید ناکامی کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ اگر وہ کبھی کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہو بھی جائیں تو وہ سکھ کبھی حاصل نہیں کر پاتے جس کا اُنہوں نے سدا خواب دیکھا ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا کی چمک دمک اِتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پس ماندہ معاشروں کے نوجوان اُس کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں صرف ایک بات ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور وہاں آباد ہوجائیں۔ کیا واقعی کسی ترقی یافتہ معاشرے میں آباد ہونا اِتنا بڑا معاملہ ہے کہ اُس کے لیے زندگی کے باقی تمام معاملات داؤ پر لگادیے جائیں؟ کیا ترقی یافتہ دنیا کی رنگینی اور اُس کی روشنیوں کی چکاچوند اِس قابل ہوتی ہے کہ اُس کے لیے وطن کو مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جائے؟ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کیجیے تو ہر اس نوجوان کی سوچ بالکل درست معلوم ہوتی ہے جو وطن سے بیزار رہتا ہے اور کسی ترقی یافتہ معاشرے میں آباد ہونے کا خواب دیکھتا رہتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے انسان کو تمام بنیادی سہولتیں پورے اہتمام کے ساتھ فراہم کرتے ہیں۔ کیریئر کے حوالے سے امکانات بھی وسیع تر ہوتے ہیں۔ اپنی پسند کے شعبے میں طالع آزمائی اِن معاشروں میں بہت آسان ہے اور اِس کے نتیجے میں کوئی بھی شبانہ روز محنت کے ذریعے اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں قدم جمانے اور اپنی پسند کے شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کی جانی چاہیے؟ علامہ اقبالؔ نے کہا ہے ؎
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
دیدۂ دل وا کیجیے یعنی کسی بھی شے کی حقیقت دیکھنے کی کوشش کیجیے تو معاملہ کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں کہ جو اپنے وطن میں مطمئن رہتے ہوئے ڈھنگ سے زندگی بسر کرسکتے ہیں وہ بھی کسی جواز کے بغیر وطن سے بیزاری محسوس کرتے ہیں اور بیرونِ ملک آباد ہونے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اگر کوئی پریشان حال ہو اور وطن میں اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے حوالے سے کچھ زیادہ نہ کر پاتا ہو تو اُس کا کسی ترقی یافتہ معاشرے میں قدم جمانے کے بارے میں سوچنا فطری امر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو اپنے وطن میں اپنی ضرورت کے مطابق کما رہے ہوتے ہیں اور اپنوں کے درمیان ڈھنگ سے جی رہے ہوتے ہیں وہ بھی وطن سے بیزاری محسوس کرتے ہوئے کہیں اور جانے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ اِسے محض خواہش نہیں بلکہ نفسی مرض قرار دیا جاسکتا ہے۔ جو اپنے وطن میں اچھا کماسکتے ہیں، ڈھنگ سے کھا پی سکتے ہیں، دوسروں سے بہتر طرزِ زندگی کے حامل ہیں وہ یہ سب کچھ تج بیرونِ ملک جانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں جو کچھ ہو اُس کا بھرپور لطف نہیں اٹھایا جاسکتا؟ وطن کو تج کر کہیں اور جانے اور وہاں طالع آزمائی کرنے کی خواہش کو پروان چڑھاتے وقت یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ بیرونِ ملک کسی کو بھی سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کردیا جاتا۔ اپنے وطن میں جتنی محنت کی جاتی ہے اُس سے کئی گنا محنت کرنے پر کچھ مل پاتا ہے۔ اگر انسان اِتنی محنت اپنے ہی معاشرے میں کرے تو ویسی ہی بھرپور کامیابی یقینی بناسکتا ہے جیسے بیرونِ ملک بنائی جاسکتی ہے؟
وطن کو تج کر کسی ترقی یافتہ معاشرے میں کچھ کر دکھانے کے خواہش مند افراد کبھی کبھی کسی جواز کے بغیر سبھی کچھ داؤ پر لگادیتے ہیں۔ کہیں جانے کے لیے قانونی اور غیر قانونی طریقوں کے درمیان پایا جانے والا فرق بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر کہیں جانے والوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن کا ذکر پھر کبھی سہی۔ ہم تو اُن کی بات کر رہے ہیں جو خالص قانونی طریقے سے بیرونِ ملک آباد ہوتے ہیں۔ وہ کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ تھوڑے سے مادّی سُکھ کی خاطر اُنہوں نے کتنا روحانی سکھ کھودیا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونے والوں کو شدید تر موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ایک طرف موسم کی سختی اور دوسری طرف تنہائی۔ اپنوں سے دور پردیس میں تگ و دَو کرنے والوں کے معاملات رفتہ رفتہ بگاڑ کی طرف جاتے ہیں۔ بیزاری اپنے وطن میں بھی ہوتی تھی اور وہاں بھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپنوں، پیاروں سے بہت دور نئی زندگی تلاش کرنے والوں کو مشکل گھڑی میں کوئی دلاسا دینے والا بھی نہیں ملتا۔ یہ نکتہ کبھی نظر انداز نہ کیا جائے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں غیر قانونی طور پر رہنے اور کام کرنے والے باشندوں کو نوکری دینے والے افراد بہت محتاط رہتے ہیں اور ان محنت کشوں کی مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
موسیقی سے شغف رکھنے والوں میں کون ہے جو لکشمی کانت پیارے لعل سے واقف نہیں؟ لکشمی کانت اور پیارے لعل کی جوڑی نے بالی وُڈ فلم انڈسٹری پر کم و بیش دو دہائیوں تک راج کیا۔ لکشمی کانت شانتا رام کدالکر اور پیارے لعل رام پرساد شرما جی نے مل کر کام کیا تو سُروں کی ایسی محفل سجی جس کی مستی میں لوگ اپنے آپ کو بھول گئے۔ ایک وقت تھا کہ پیارے لعل شرما مناسب موقع نہ ملنے پر مایوس ہوگئے اور بیرونِ ملک جاکر آرکسٹرا کنڈیکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ لکشمی کانت نے سمجھایا ''نہ جاؤ! ہم میں صلاحیت ہے‘ ایک دن قدرت مہربان ہو ہی جائے گی۔‘‘ پیارے لعل جی نے کچھ سوچا اور بات مان لی اور بات ماننے کا انتہائی سریلا نتیجہ پوری دنیا نے دیکھا۔
سب سے پہلے یہ طے کیجیے کہ آپ کے نزدیک سُکھ اور خوش حالی کس چیز کا نام ہے۔ امریکا یا پھر یورپ کے کسی بھی ملک میں قسمت جگانے کا سوچنے والے یاد رکھیں کہ راتوں رات سُکھی ہو جانا تو امریکا اور یورپ میں بھی ممکن نہیں۔ کسی بھی ملک میں کوئی بھی دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ نہیں پالیتا۔ بڑے کاروباری گھرانوں کے نوجوان بھی محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جن کی لاٹری نکل آتی ہے وہ بھی زیادہ سکھ سے نہیں جی پاتے۔ کہیں اور جاکر طالع آزمائی میں کچھ ہرج نہیں لیکن اگر ملک کی حدود میں اچھے مواقع میسر ہوں تو صرف مادّی سکھ کے لیے سب کچھ داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved