تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     09-02-2022

جہاں عقل دنگ رہ جائے

ایسی مدھر آواز کہاں سے آ سکتی ہے؟ انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔ چھوٹی عمر سے لتا منگیشکر کو سنتے آئے لیکن اُن کی صحیح عظمت کا احساس کچھ بڑی عمر میں ہوا جب اُن کے شروع کے سالوں کے گانوں کو سننے کا موقع ملا۔ لتا جی کی آواز ایسی ہے کہ ہر ذوق و شوق پہ پورا اترتی ہے لیکن ہمارے دل نے زیادہ اثر اُن کے پہلے کے گیتوں کا لیا۔ 1942-43ء میں اُنہوں نے گانا شروع کیا تھا جب اُن کے والد دینا ناتھ منگیشگر کی وفات ہوئی اور پورے پریوار کو سنبھالنے کی ذمہ داری اِن کے کندھوں پہ آن پڑی۔
دبلی پتلی سی تھیں اور شروع کے فوٹو بتاتے ہیں کہ کچھ شرمائے شرمائے رہتی تھیں۔ تب آوازیں تھوڑی بھاری ہوا کرتی تھیں، زہرا بائی انبالے والی، پرولال گھوش، شمشاد بیگم اور ثریا۔ گانے کی دنیا میں سب سے بڑا نام اُس وقت نور جہاں کا تھا اور نور جہاں کی آواز بس وہ بھی خدا کی دین تھی، بھری ہوئی آواز لیکن کیا مٹھاس کیا سُر اور کیا اُٹھان۔ ملکہ ترنم کا لقب اُنہیں ویسے ہی نہیں ملا تھا۔ اُس وقت ایسی آواز پوری فلمی دنیا میں نہ تھی‘ اور لتا جی نئی نویلی تھیں، اپنا راستہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ کہتے ہیں کہ کئی میوزک ڈائریکٹروں نے کہا کہ آواز ذرا پتلی ہے۔ شروع کے لوگ اگر کوئی حوصلہ دینے والے تھے تو اُن میں ماسٹر غلام حیدر کا نام نمایاں تھا۔ اُنہوں نے لتا جی کے کئی گانوں کیلئے سنگیت ترتیب دیا۔ اُنہوں نے یہ نور جہاں کے ساتھ بھی کیا تھا، اُن کو بھی حوصلہ دیا۔
لتا جی کی بڑی بریک تو فلم محل میں ہوئی لیکن اُس سے پہلے کے گانے سنے جائیں تو اُن میں بھی ایک لا جواب قسم کی کشش ہے۔ بہرحال 'محل‘ کی موسیقی مہان سنگیت کار کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھی۔ وہی کھیم چند جنہوں نے سہگل صاحب کی فلم تان سین کی موسیقی بنائی۔ محل کا وہ گانا تو ہم سب نے سنا ہوا ہے، 'آئے گا آنے والا‘۔ اِس گانے سے ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا۔ ایسا گانا کبھی سنا نہ گیا تھا۔ اور پھر لتا جی نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ انیل بِسواس ایک اور میوزک ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے شروع کے سالوں میں لتا جی کے متعدد گانوں کے لیے موسیقی تیار کی تھی۔ اب بھی وہ گانے سنیں غش آ جاتا ہے، کیا موسیقی اور کیا آواز۔
برصغیر کے فلمی گانوں کی یہ خاصیت ہے کہ 30‘ 40 اور 50 کی دہائیوں میں شاعری اور سنگیت دونوں ایسے لا جواب ہوا کرتے تھے کہ اِس معیار کو بعد میں نہ شاعر پہنچ سکے نہ سنگیت کار۔ ہاں ساحر لدھیانوی بعد میں آئے اور نوشاد علی نے بھی بہت خوب صورت موسیقی تیار کی۔ یوں سمجھئے کے 60ء کی دہائی کو بھی اُس سنہری دور میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 60 کی دہائی کے درمیان یہ سنہرا دور تقریباً ختم ہو گیا اور پھر نہ واپس آ سکا نہ واپس آ سکتا تھا۔ بس وہ کرشمہ تھا کہ ایسے دور نے جنم لیا جس کا آغاز آپ کہہ سکتے ہیں کندن لال سہگل نے کیا اور پھر موسیقی کا جادو تین بڑے ناموں کے گرد گھوما: نور جہاں، محمد رفیع صاحب اور لتا جی۔ بہت بڑے بڑے گلوکار آئے، موسیقی اور شاعری کے بڑے نام آئے لیکن سنہرا دور وہی 25-30 یا زیادہ سے زیادہ 35 سالوں پہ محیط ہے۔
وہ دور چلا گیا لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ جو ذخیرہ اُس دور میں اکٹھا ہوا وہ ہماری پہنچ میں ہے۔ ہماری کم عمری میں موسیقی سننا ایک مشکل کام ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو عام تھا لیکن ہر گھر میں ریڈیو نہیں ہوتا تھا اور گرامو فون سننے کی سعادت کسی کسی کو نصیب ہوتی تھی۔ آج کل دور مختلف ہے، کون سی چیز ہے جو یُو ٹیوب پہ دستیاب نہیں۔ ہم ترستے تھے ریڈیو سیلون کے پرانے فلموں کے سنگیت کے پروگرام کو سننے کے لیے۔ چمٹے رہتے تھے ریڈیو کے ساتھ کہ وہ گانے سنیں۔ اب ہر چیز دستیاب ہے۔ جو بڑی عمر میں ہم نے لتا جی کے گانے سنے ہیں وہ پہلے سن نہ سکتے تھے، ہماری دسترس میں نہ تھے۔ یہ جو ماسٹر غلام حیدر کا ذکر ہوا ہے، انیل بسواس کا، کھیم چند پرکاش کا، یہ سب یُو ٹیوب کی مہربانی ہے۔ اور اِسی ذریعے سے لتا جی کی اصل عظمت کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔
ایک لحاظ سے موسیقی اور گانوں کے ہم رسیا رہے ہیں لیکن عمر بھر کی کاوش کے بعد بہت دیر بعد یہ احساس ہوا کہ جتنی مدھر آواز لتا جی کی ہے وہ کہیں اور نہ ملے۔ اِتنی میٹھی آواز لیکن کیا کمال کا فن، مشکل سے مشکل طرز لیکن لتا جی نے اِس آسانی سے گایا کہ انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ سجاد حسین بہت پائے کے موسیقار تھے۔ لتا جی بھی اُن کی بڑائی کو مانتی تھیں۔ جو اُن کے چند ایک گانے لتا جی نے گائے ہیں وہ آدمی سن کے دم بخود رہ جاتا ہے۔ یہ گانا سنئے 'آج میرے نصیب نے مجھ کہ رُلا رُلا دیا‘ تو میری بات پہ یقین آ جائے گا۔ جمال سین نے ایک دو گانوں کی موسیقی تیار کی، کمال کے گانے ہیں‘ جس سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ گانے کے حوالے سے صرف آواز کافی نہیں۔ لتا جی اور محمد رفیع صاحب نے ہزاروں گانے گائے لیکن سارے کے سارے ہِٹ گانے نہیں ہیں۔ ہِٹ وہی ہیں جن کی موسیقی اور شاعری ایک معیار کو پہنچتی ہے۔ 70 اور 80 کی دہائیوں میں بھی لتا جی نے بے شمار گانے گائے لیکن وہ ہمارے دل کو ایسے نہیں لگتے جیسے کہ اُن کے پہلے کے گانے۔ دنیا بدل گئی موسیقی بھی بدلی شاعری بھی وہ نہ رہی۔ فلمی موسیقی میں شور شرابے کا زیادہ عمل دخل ہونے لگا۔ ایسی موسیقی کے بھی دیوانے ہیں لیکن ہم اپنی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے دل کو تو وہ سنہرا دور ہی اچھا لگتا ہے جو ظاہر ہے گزر چکا ہے اور پھر نہ آئے گا۔
ایک نام بھول گیا تھا، سنگیت کار مدہن موہن سے لتا جی کا خاص لگاؤ تھا۔ اُنہیں بھائی کا لقب دیتی تھیں اور شاید راکھی بھی باندھتی ہوں گی۔ مدہن موہن نے بھی لتا جی کے لیے کئی نہ بھولنے والی دھنوں کو تیار کیا۔ دو گیت ذہن میں آ رہے ہیں 'سپنے میں سجن سے دو باتیں، اک یاد رہی اک بھول گئی‘ اور 'ہمارے بعد اب محفل میں افسانے بیان ہوں گے، بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نجانے ہم کہاں ہوں گے‘۔ لیکن یہ فضول کا کام ہے لتا جی کے کن کن گانوں کا ذکر کیا جائے۔ لتا جی ایسی نہیں تھیں کہ آپ کہیں یہ اُن کے دس یا بیس لا جواب گانے تھے۔ کم از کم پانچ سو لا جواب گانوں کی لسٹ بنانی پڑے گی اور پھر بھی فہرست شاید مکمل نہ ہو۔
سہگل ایک ہی تھے پھر کوئی سہگل نہیں آئے گا۔ یہی کیفیت آپ نور جہاں اور محمد رفیع صاحب کی بیان کر سکتے ہیں۔ اور لتا جی کے بارے میں تو یہ بالکل حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں صرف ایک ہی لتا پیدا ہو سکتی تھی۔ اِن کی کوئی کاپی نہیں بن سکتی۔ مدھر آوازیں آئیں گی لیکن ایسی مدھر آواز نے ایک بار ہی آنا تھا اور ہماری خوش نصیبی کہ لتا کے دور میں ہم زندہ رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved