لیہ کے دوردراز علاقے کی وہ غریب خواتین جن کے کچے گھروں میں رات دو بجے درجن بھر پولیس اہلکار گھس گئے کہ بکری چور پکڑنے آئے ہیں ‘ان کی دردناک ویڈیوز مجھے پندرہ برس پیچھے لے گئیں جب میں نے میرپور آزاد کشمیر جا کر ان چھ بے گناہ خواتین کا انٹرویو کیاتھا جنہیں گجر خان سے پولیس اٹھا کر لے گئی تھی اور دس پندرہ دنوں سے جانوروں کے طرح بند کررکھا تھا۔
ان خواتین کا قصور یہ تھا کہ ان کا ایک عزیز کسی کیس میں پولیس کو مطلوب تھا‘اسے پکڑنے کیلئے پولیس پورے خاندان کی خواتین کو اٹھا کر میر پور لے گئی ۔اُس وقت کشمیر کے آئی جی وہ صاحب تھے جو کچھ ماہ پہلے اپنے دو اور ڈی آئی جی کولیگز کے ساتھ مجھ سے ملے اور بتایا کہ ان کے ساتھ ظلم ہوگیا ‘ پروموشن نہیں ہوئی۔ میں نے دستاویزات دیکھیں اور لگا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ میں نے ان تینوں افسران کے حق میں سٹوریز کیں۔ اتفاق سے ان کی پروموشن ہوگئی۔ان میں سے ایک افسر اس وقت کشمیر میں آئی جی تھا۔ اسے کال کی اور بتایا کہ اس کی میر پور پولیس نے چھ سات بے گناہ خواتین کو دس پندرہ دن سے تھانے کے ایک کمرے میں بند کررکھا ہے۔ کوئی ایف آئی آر نہیں‘ کوئی عدالت نہیں۔ وہ ہنس کر بولا :چھوڑو رئوف صاحب کس بات کو لے بیٹھے ہیں۔ ہمارا یہ روز کا کام ہے ‘ کچھ اور سنائیں۔مجھے اس دن احساس ہوا کہ کتنے بے رحم لوگ ہیں۔ اس بندے کی اپنی پروموشن نہیں ہورہی تھی تو یہ پورا ایک ہفتہ میرے سامنے روتا رہا کہ میری خبر فائل کریں۔آج کسی اور کی خواتین قید میں ہیں تو یہ اس کیلئے نارمل بات ہے۔ دکھ یا صدمہ وہی ہوتا ہے جو ان بڑے افسران کا اپنا ہو۔
میرے گائوں کے قریب ان غریبوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی روداد سن کر یاد آیا کہ عمر شیخ جیسے پولیس افسران کو کیوں محکمے میں نہیں ٹکنے دیتے۔آج عمر شیخ آر پی او ڈیرہ غازی خان ہوتا تو پورا تھانہ کوٹ سلطان برطرف ہوکر گرفتار ہوچکا ہوتا‘ جیسے پہلے لیہ میں ایک ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو ہتھکڑی لگا دی تھی کہ انہوں نے قتل کی ایک تفتیش میں پیسے لے کر ملزمان کو بے گناہ ظاہر کر دیا تھا۔
میں پچھلے سات دن سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ منصور میرا عزیز ہے۔ پی ایچ ڈی کر کے گائوں لوٹ گیا۔ ماں کی موت نے اس پر اثر ڈالا۔ اسلام آباد جیسا شہر چھوڑ کر گائوں میں سکول سنبھال لیا۔ ہم نے اپنی جیب سے خاندان کی چیریٹی شروع کی۔ غریب کسانوں‘ بیوائوں‘ یتیموں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کیلئے کام شروع کیا۔وہ کئی دنوں سے ٹویٹ کررہا تھا کہ لیہ کی تھانہ کوٹ سلطان پولیس نے ایک نویں جماعت کے بچے کو تھانے میں بند کررکھا ہے کہ اس کے بھائی پر الزام ہے کہ اس نے بکری چوری کی تھی۔ پتہ چلا کہ درجن بھر پولیس والے رات دو بجے تین گھروں میں داخل ہوئے‘ خواتین کو نیند سے جگایا‘ انہیں گالیاں دیں‘ دھکے مارے اور جاتے جاتے اس گھر کا بچہ اٹھا کر لے گئے ‘ساتھ میں ان کے بھیڑوں کے ریوڑ سے تیس بکریاں بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس نویں جماعت کے طالبعلم کو اس لیے تھانے بٹھا لیا کہ اس کا بڑا بھائی پیش کریں تو یہ چھوٹا لے جائیں۔ ہمارے علاقے کے ''جرائم‘‘ کی نوعیت دیکھیں کہ سب سے بڑا مقدمہ یہ ہے کہ کسی کی بکری چوری ہوگئی۔رات کو فصل کاٹ لینا‘کپاس چن لینا‘گدھا کھول لینا‘ریڑھی چوری کرلینا یا بکری وغیرہ‘ گائوں میں عام سی بات ہے۔ اس کا حل سمجھدار ایس ایچ او یہ نکالتا ہے کہ وہ نمبردار کو کہتا ہے کہ جن پر شک ہے انہیں تھانے لے آئیں۔ عموماً پنچایت میں فیصلہ ہوجاتا ہے ‘لیکن وقت کے ساتھ نمبردار کا عہدہ اب ایم پی اے‘ایم این ایز نے سنبھال لیا ہے۔
جونہی پولیس کوبکری چوری کی خبر ہوئی انہیں لگا کہ یہ بہترین موقع ہے مال بنانے کا۔جن غریبوں کے گھروں میں وہ گھسے وہ عزت دار لوگ گائوں سے چند کلومیٹر دور رہتے ہیں۔ زمینوں پر مزدوری کرتے اور اپنی بھیڑ بکریاں پالتے ہیں۔ان کے اپنے ریوڑ ہیں۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے چوری کی بکریاں خریدی ہیں۔ چاہئے تھا کہ دن کے وقت ان لوگوں کے گھر جا کر بات کی جاتی یا فون کر کے تھانے بلا لیا جاتا لیکن رات کے دو بجے بغیر وارنٹ اور بغیر خواتین پولیس اہلکاروں کے انہوں نے ان گھروں کی خواتین کے ساتھ بدترین بدسلوکی کی۔ اس خاندان کی ایک لڑکی جو ابھی بی ایس میں پڑھ رہی ہے لیہ کی لیڈی ڈی پی او سے اپنے ماں باپ کے ساتھ جا کر ملی ۔ اس خاتون ڈی پی او نے اس لڑکی کو کہا: چلیں بکریاں ہی اٹھائی ہیں آپ کو تو اٹھا کر نہیں لے گئے۔اس لڑکی کا میں ویڈیو انٹرویو سن رہا تھا کہ وہ کس اذیت سے گزر رہی ہے کہ ایک پڑھی لکھی ‘سی ایس ایس خاتون افسر اس کی شکایت کا نوٹس لینے کے بجائے الٹا اسے شرمندہ کررہی تھی کہ کیا ہوا اگر رات دو بجے پولیس تمہارے گھر گھسی اور تم لوگوں کی بکریاں اٹھا کر لے گئی۔ تمہیں تو اٹھا کر نہیں لے گئی۔
ہم خوش ہوتے ہیں کہ پولیس اور ڈی ایم جی میں پڑھی لکھی لڑکیاں آرہی ہیں‘ مگر اس پڑھی لکھی ڈی پی او کا جواب حیران کن تھا۔ ویسے میرا خیال ہے لیڈی ڈی پی او کے والدین‘ پولیس بیج میٹس‘ سی ایس ایس کا وہ انٹرویو پینل جس نے انہیں پولیس گروپ میں ریکمنڈ کیا‘ وہ سول سروس اکیڈمی جس نے انہیں تربیت دے کر اے ایس پی لگنے کیلئے تیار کیااور وہ آئی جی یا وزیراعلیٰ جس نے انہیں لیہ ڈی پی او لگایا ان سب کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ ایک خاتون پولیس افسر اس کے پاس شکایت لانے والی بی ایس کی طالبہ‘ جس کے غریب گڈریے ماں باپ نے محنت سے اسے پڑھایا‘ یہ سوچ کر ڈی پی او سے ملنے چلی گئی کہ اس کیساتھ انصاف ہوگا‘ اسے یہ جواب سننے کو ملا۔
مجھے پہلے بھی پولیس کے ساتھ ہمدردی کم تھی مگر میرے گائوں کے قریب ان غریبوں کے ساتھ جو کیا گیا اس کے بعد ہمدردی مزید کم ہوگئی ہے۔ آئی جی رائو سردار کواس واقعہ کے بعد لیہ جا کر‘ ان غریبوں کے گھر بیٹھ کر کچہری لگا کر پورے تھانے کو ہتھکڑیاں لگوانی چاہیے تھیں‘ ڈی پی او کو برطرف کرنا چاہئے تھا‘ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آر پی او ڈیرہ غازی خان کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ حیران ہوں وزیراعلیٰ سے لے کر آئی جی‘ تک کسی کو پروا نہیں۔ وہی بات کہ ان سب کے نزدیک ظلم وہی ہے جو اِن کے اپنے ساتھ ہو۔انہیں پروموشن نہ ملے‘ اچھی پوسٹنگ نہ ملے‘ اچھی گاڑی نہ ملے‘ اچھا دفتر نہ ملے پھر آپ ان کا ماتم دیکھیں‘ لیکن اگر آپ انہیں ان مظلوموں پر ہونے والے ظلم پر توجہ دلائیں تو ہنس کر کہیں گے: چھوڑو‘ یہ تو چلتا ہے اور کوئی غریب بچی ہمت کر کے ڈی پی او لیہ تک پہنچ جائے تو وہ آگے سے کہیں کہ کیا ہوا تمہیں تو اٹھا کر نہیں لے گئے۔
اس بچی کے ساتھ ڈی پی او سے ملنے کیلئے جانے والے غریب ماں باپ تو شرم سے وہیں ڈوب گئے ہوں گے۔ان کا خیال تھا کہ ان کی پڑھی لکھی بچی‘ جسے وہ بھیڑ بکریاں پال کر پڑھا رہے تھے ‘ڈی پی او کو بات سمجھا سکے گی‘ بچی کو بھی اعتماد تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر ڈی پی او سے بات کر سکتی ہے‘ مگر وہ بچی بھول گئی کہ وہ ایک غریب کی بیٹی تھی جسے اس کا باپ کھیت مزدوری کرکے پڑھا رہا تھا۔ چلیں اس بچی کی غلط فہمی خاتون ڈی پی او لیہ نے دور کر دی۔