زندگی کے سفر میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو میرے بچپن کے دن مسکراتے نظر آتے ہیں۔ کیسا زمانہ تھا وہ جب زندگی روشنیوں اور خوشبوئوں میں لپٹی ہوئی تھی یا مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ اس وقت مجھے یوں لگتا تھا‘ یہ دلفریب منظر کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ اس سنہری زمانے کا ایک حصہ راولپنڈی کی قدیم بستی ٹاہلی موہری میں گزرا۔ ٹاہلی موہری سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب ہم نے یہاں کرائے پر گھر لیا۔ اس وقت میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے مالک مکان چوہدری انور صاحب تھے جو ساتھ والے گھر میں رہتے تھے اور لال کرتی کے سی بی ٹیکنیکل ہائی سکول میں پڑھاتے تھے‘ جہاں میں پڑھتا تھا۔ چوہدری صاحب کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ہمارے گھر کے سامنے والے گھر میں میجر الطاف صاحب رہتے تھے۔ ان کا بیٹا میرا ہم عمر تھا جس کا نام وسیم الطاف تھا۔ وسیم سے میرا رابطہ اب بھی ہے۔ وہ ایک سیلانی طبیعت کا مالک ہے۔ پرانی جگہوں پہ جانا اور گئے دنوں کا کھوج لگانا اس کا من پسند مشغلہ ہے۔ کچھ عرصہ اس گھر میں رہنے کے بعد ہم اسی گلی میں ایک اور مکان میں شفٹ ہو گئے تھے۔ یہ ایک دو منزلہ گھر تھا جس کی چھت سے دورکے مناظر دکھائی دیتے تھے۔ اس گھر کی خاص بات اس کا کنواں تھا‘ جس کا آدھا حصہ گلی میں اور آدھا گھر کے اندر تھا۔ یہاں بھی ہمارا قیام مختصر رہا کیونکہ اب ہم اپنے تعمیر کردہ گھر میں جا رہے تھے جو وہاں سے کچھ ہی فاصلے پرتھا۔ خوش قسمتی سے ہمارے گھر کے قریب ایک خالی پلاٹ تھا جہاں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ سردیوں میں چھٹیوں کے دنوں میں ہم باہر کرسیاں ڈال کر بیٹھتے اور گپ شپ لگاتے۔ مجھے یاد ہے‘ ہماری گلی کے ایک گھر میں ڈاکٹر وصال بابر بھی رہتے تھے وہ جنرل نصیراللہ بابر کے بھائی تھے۔ وہی جنرل بابر جو 71 کی جنگ میں دادِ شجاعت دینے پر ستارۂ جرأت کے حقدار ٹھہرے۔ بعد میں وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں صوبۂ سرحد کے گورنر اور پھر وزیرِ داخلہ کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کے والد ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور اکثر گھر کے سامنے خالی پلاٹ میں کرسی پر بیٹھے انگریزی اخبار کا مطالعہ کرتے نظر آتے۔ ہماری گلی جہاں ختم ہوتی‘ وہاں سے ایک پتلی گلی دائیں ہاتھ نکلتی تھی جو اس سڑک سے مل جاتی جو ہارلے سٹریٹ کو جاتی تھی۔ گلی کے بائیں طرف کا راستہ ٹاہلی موہری کے اندرون کو جاتا تھا۔ گلی کے آخر میں کھڑے ہوں تو سامنے ایک نالہ اور پھر ہارلے سٹریٹ کا وہ قبرستان نظر آتا تھا‘ جس میں میرے والد، والدہ اور انعام بھائی ابدی نیند سورہے ہیں۔
جس علاقے میں ہمارا گھر تھا اس کے اردگرد کے مکینوں نے اسے نورس کالونی کا نام دے رکھا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ایک مسجد تھی اس کا نام محمدی مسجد تھا۔ اس کے منتظم علاقے کے بزرگ سلطان صاحب تھے۔ وہ پانچ وقت مسجد میں اذان دیتے تھے۔ ہم اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ عید کے موقع پرتو اتنا رش ہوتاکہ مسجد میں بڑی مشکل سے جگہ ملتی تھی۔ مسجد کے قریب ہی ملک کا لکڑیوں کا تنور تھا۔ لکڑیوں کے اس تنور پر پکی روٹیوں کی اپنی مہک ہوتی۔ ملک روٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑے سے دیگچے میں سالن بھی پکاتا۔ اردگرد کے مزدور اس کے پاس آکر سستے داموں کھانا کھاتے تھے۔ تنور کے ساتھ بوری کا ایک پردہ لٹکا ہوتا۔ اس پردے کے پیچھے کھلے کھیت تھے اور ایک کچا کمرہ جس میں ملک کی بیوی اور بچے رہتے تھے۔ اس زمانے کی ایک روشن یاد عید میلادالنبیﷺ کے جلوس کی ہے۔ یہ جلوس ہرسال باقاعدگی سے نکلتا جس میں بچے، نوجوان اور بوڑھے ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ اس جلوس کے روحِ رواں چوہدری بشیر صاحب ہوا کرتے تھے جو خود ایک سجے ہوئے گھوڑے پر سوار ہوتے۔ ان کے گلے میں ہار ہوتے۔ میں خالی پلاٹ پر ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر بڑے اشتیاق سے اس جلوس کو دیکھا کرتا۔ اس بات کو پانچ چھ دہائیاں گزر گئی ہیں۔ شاید اب بھی یہ جلوس اسی جوش و خروش سے نکلتا ہوگا۔
ہمارے گھر کے قریب میجر انور صاحب رہتے تھے۔ ان کے چار بیٹے نجم، انجم، اسلم اور سلمان اور ایک بیٹی ہما تھی۔ ان کے ساتھ ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ 1971 کی جنگ میں وہ مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ جنگ کے دوران وہ قید ہوگئے اور بریلی کے جنگی کیمپ میں تین سال اسیر رہے۔ یہ ان کے گھر والوں کیلئے پریشانی اور بے یقینی کے دن تھے۔ میجر انور نے ان مشکل دنوں میں شاعری کا سہارا بنا لیا۔ جب وہ رہا ہوکر آئے تو اپنے ہمراہ اپنی شاعری کا مجموعہ ''حسیں صیاد‘‘ بھی لائے۔ اب تواس بات کو بھی پانچ دہائیاں گزر چکی ہیں۔ سنا ہے نجم اور انجم کراچی میں اور میجر صاحب اپنی بیگم، بیٹوں اسلم، سلمان اور بیٹی ہما کے ساتھ انگلینڈ میں ہوتے ہیں۔
میجر انور صاحب کے گھر کے سامنے کچھ دکانیں تھیں۔ انہی میں سے ایک دکان میں حیات رہتا تھا۔ اس کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ 502ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ شام کے وقت وہ برآمدے میں اپنی چارپائی پر بیٹھ کر بینجو بجاتا تو ہم بچے کتنی محویت سے حیات کو بینجو بجاتے سنتے تھے۔ حیات ہر سال چھٹی پر مشرقی پاکستان جاتا تھا۔ وہ 1971 کا سال تھا۔ پاکستان اور بھارت کی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان سے تشویشناک خبریں آرہی تھیں۔ حیات جنگ شروع ہونے سے پہلے چھٹی پر مشرقی پاکستان گیا تھا اس کے بعد پھر وہ کبھی واپس نہ آیا۔ اس بات کو ایک عرصہ گزرگیا لیکن ابھی تک میرے تصور میں حیات کا چہرہ اور اس کی بینجو کے سُر‘ دونوں روشن ہیں۔ حیات کے ٹھکانے سے آگے ایک دکان تھی جس کے مالک کا نام کوثر جہلمی تھا اور وہ شاعری بھی کرتا تھا۔ وہ آتے جاتے گاہکوں کو اپنی دلچسپ شاعری سناتا تھا۔
کوثر جہلمی کی دکان کے پہلو میں عروج لائبریری تھی جس کے مالک لطیف صاحب تھے۔ عروج ان کے بیٹے کا نام تھا جس کے نام پر یہ لائبریری تھی۔ لطیف صاحب ہماری گلی میں رہتے تھے۔ وہ انتہائی شائستہ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی لائبریری سے میں نے بہت سی کتابیں کرائے پر لے کر پڑھیں۔ ذرا آگے آئیں تو امین کی ہیرکٹنگ کی دکان تھی۔ امین کو پیار سے مِینا کہتے تھے۔ انعام بھائی کی اس سے دوستی تھی۔ وہ اکثر انعام بھائی سے گپ شپ لگانے گھر آتا۔ امین کی دکان سے آگے کونے میں گوشت کی دکان تھی۔ گوشت کی دکان سے دائیں ہاتھ مڑیں تو یہ سڑک ٹاہلی موہری چوک کو جاتی تھی۔ اس سڑک پر ذرا آگے دائیں طرف ایک زرد رنگ کی کوٹھی تھی جو جنوں والی کوٹھی کے نام سے مشہور تھی۔ یہاں سے گزرتے ہوئے عجیب سا خوف محسوس ہوتا۔ کہتے ہیں یہ کوٹھی اچانک ہی کسی آسیب کی گرفت میں آ گئی تھی۔ بیٹھے بٹھائے گھر میں رکھی مختلف چیزوں کو آگ لگنا شروع ہو جاتی اور کبھی پتھر برسنے لگتے۔ گھر کے درودیوار پر خوف کے سائے رینگنے لگے تھے۔ گھر والوں نے بہت سے عاملوں کی خدمات حاصل کیں لیکن آتشزدگی اور سنگ باری کا سلسلہ نہ رکا۔ آخر کار تنگ آکر گھر کے مکینوں نے اس کوٹھی کو خیرباد کہہ دیا او پھر لوٹ کر نہ آئے۔ تب سے کوٹھی ویران پڑی تھی۔ گیٹ پر ایک زنگ آلود قفل تھا اور دیواروں پر بے ترتیب بیلیں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں جیسے کوئی چڑیل بال کھولے گہری نیند سورہی ہو۔ (جاری)