تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     09-02-2022

لیڈرشپ پروفائل

لیڈرشپ سماجی نظام کے خدوخال کا ایک اہم حصہ ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں کچھ رہنما یا کچھ ممتاز شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے مخصوص سماجی سیاق و سباق' جیسے کاروبار، صنعت، طلبا، مزدور یا میڈیا' میں اپنے قائدانہ کرداروں کے لیے جانی جاتی ہیں۔ کچھ رہنما کبھی سیاسی اقتدار کے کسی عہدے تک نہیں پہنچ پاتے ، لیکن وہ اپنے اخلاق یا اچھے چلن کی وجہ سے لوگوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ زیرِ نظر سطور میں ہم ان رہنماؤں پر توجہ مرکوز کررہے ہیں جو ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہیں، ریاست کے اہم عہدے پر فائز ہوتے ہیں یا ان عہدوں پر فائز ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ گورننس اور سیاسی نظم و نسق میں نامور لوگ ہوتے ہیں۔
ایک لیڈر کو کسی گروپ، معاشرے یا ملک میں ایک خاص شخص کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جسے اپنے پیروکاروں کا اعتماد حاصل ہو۔ یہ اعتماد اسے (لیڈر) اپنے اہداف مقرر کرنے کے قابل بناتا ہو اور وہ اپنے پیروکاروں کو مقررکردہ اہداف کے حصول کیلئے متحرک کر سکتا ہو۔ لیڈر اور اس کے پیروکاروں کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے جس کے قائم ہونے میں وقت لگتا ہے ؛ تاہم جب اعتماد کا رشتہ استوار ہو جائے ، تو پھر پیروکار اپنے رہنما کو ایک ایسے فرد کے طور پر دیکھنا شروع کردیتے ہیں جو ان کے مسائل حل کر دے گا اور وعدہ کردہ سماجی اور سیاسی نظام تشکیل دے گا۔ اگر لیڈرشپ کے تصور کو پاکستان پر لاگو کریں تو دلچسپ معلومات ہاتھ آتی ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قیادت کس طرح تبدیل ہوئی ہے ۔ وہ رہنما‘ جو پاکستان میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے یا ایسے عہدوں پر فائز رہنے کی خواہش رکھتے تھے یا جو سیاسی میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں' انہیں مختلف زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ جمہوری عمل نے بہت سے لوگوں کو طاقت یا اثرورسوخ والے عہدوں کیلئے قسمت آزمانے کے قابل بنایا ہے ؛ تاہم ان کا پس منظر اور سیاست کے بارے میں ان کا نقطہ نظر وقت کے ساتھ بدلا ہے ۔ آج کل پاکستان میں حکمرانی اور سیاست پر 1985 کے بعد کے رہنماؤں کا غلبہ ہے جو ابتدائی طور پر نامزد کردہ وفاقی کونسل اور 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے ذریعے صوبائی اور قومی سطح پر سامنے آئے تھے۔ 2002 کے بعد سیاست میں داخل ہونے والی نئی نسل نے عام طور پر 1985 سے 1999 کے درمیانی عرصے میں قائم ہونے والی سیاسی روایات کو آگے بڑھایا۔
تمام سابق نوآبادیاتی ممالک کی طرح پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی بھی پہلی کھیپ تحریک آزادی سے آئی تھی۔ تحریک آزادی کی قیادت کرنے والی پارٹی کو نئی ریاست میں اقتدار کے اختیارات مل گئے لیکن کچھ لیڈر اقتدار کی راہداری سے دور رہے یا اپوزیشن کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر کا قیامِ پاکستان سے قبل طویل اور مشکل سیاسی کیریئر تھا۔ وہ سیاسی معاملات میں زیادہ تجربہ کار تھے ۔ ان کا سب سے بڑا مقصد اقتدار پر قبضہ نہیں بلکہ عوامی خدمت تھا۔ 1947-58 کے دوران وفاقی اور صوبائی کابینہ سائز میں چھوٹی ہوا کرتی تھی اور عام طور پر سیاسی لحاظ سے نامور لوگ ہی کابینہ کا حصہ بنتے تھے ۔ پہلی دو آئین ساز اسمبلیوں میں بحث کی سطح منطقی دلائل پر زور دینے کے ساتھ نہایت پختہ ہوتی تھی۔
دوسری قسم کی پاکستانی قیادت اعلیٰ بیوروکریسی اور فوج سے آئی۔ سب سے پہلے یہ بیوروکریسی ہی تھی، جو سابق بیوروکریٹس کی شکل میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی جیسے غلام محمد، اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی۔ ریاستی امور سنبھالنے اور منقسم سیاسی رہنماؤں کا استحصال کرنے کے لیے اعلیٰ بیوروکریسی کی حمایت حاصل تھی۔ فوج نے سائیڈ لائنز سے ان کا ساتھ دیا۔
اکتوبر 1958 کے بعد آرمی براہ راست سیاسی میدان میں وارد ہوئی۔ ملٹری حکومتوں نے دو طرح کی قیادت پیدا کی۔ کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران اہم سیاسی‘انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ انگریزوں کی قائم کردہ سویلین انتظامیہ میں فوجی افسران کے باقاعدہ تبادلے کی روایت کو غیر سویلین حکومتوں، خصوصاً ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کو سول سروسز میں شامل کیا گیا اور انہیں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدے دیئے گئے۔
دوسری قسم کی قیادت فوجی حکومتوں کی پیدا کردہ تھی یعنی وہ سویلین سیاسی رہنما جو ان کے ساتھ ان کی شرائط پر کام کرنے کو تیار تھے ۔ انہیں براہ راست فوجی حکمرانی کے خاتمے کے بعد اہم عہدے مل گئے ۔ ان سویلین لیڈروں نے نہ صرف خود کو اسٹیبلش کیا بلکہ سویلین حامیوں کے ایک طبقے کو بھی پروان چڑھایا جس نے ان کے رول کو مضبوط کیا۔ کنونشن مسلم لیگ نے 1960 کی دہائی میں تعاون کیلئے ایک چھتری فراہم کی تھی۔ ضیاالحق نے دسمبر 1981 میں فیڈرل کونسل قائم کی جس کے تمام رکن نامزد کردہ تھے اور فروری 1985 میں غیرجماعتی انتخابات کے انعقاد کے ذریعے سویلین قیادت کا ساتھ دیا۔ ایوب خان کے دور کی ابتدائی جنریشن کے علاوہ اس تعاون کرنے والے سویلین طبقے میں بڑی تعداد میں وہ سیاسی شراکت دار بھی تھے جو مقامی اور تحصیل/ضلع کی سیاست سے قومی اور صوبائی سطح کی سیاست میں تیزی سے منتقل ہوئے۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی پہلی نسل کے مقابلے میں، 1985 کے بعد کی نسل نے مقامی سے قومی سطح تک تیزی سے جست بھری۔ پاکستان کی قومی اور صوبائی سیاست مقامی اور ضلعی سطح کے ایشوز کے گرد گھومنے لگی، جس سے پارٹی بازی اور سیاسی تقسیم میں اضافہ ہوا۔ اس نے سیاست میں مذہبی اور سماجی قدامت پرستی کو بھی بڑھایا‘ جو ضیا حکومت کی مذہبی راسخ العقیدگی اور عسکریت پسندی کو فروغ دینے کی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ اور مضبوط ہوئی۔
''تازہ تازہ امیر بننے والوں‘‘ کا ایک گروپ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں سیاست میں داخل ہوا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کی محنت کو خلیجی خطے اور مشرق وسطیٰ میں برآمد کرکے دولت کمائی۔ ان کے بعد وہ لوگ جنہوں نے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے پیسہ کمایا۔ کاروباری اور تجارتی طبقے اور نئے امیر لوگوں کے داخلے کی وجہ سے تجارتی اخلاقیات، خاص طور پر منافع کے حوالے سے ، سیاست کے ساتھ گڈمڈ ہو گئیں۔ مسلم لیگ (ن) نے سیاست کو کمرشل ایکٹیوٹی بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ یوں ''سہولت کاروں‘‘ کا ایک طبقہ بھی تیار ہوا جو حکومت کی مختلف سطحوں سے کاروبار اور دوسرے لوگوں کے کام کروانے کیلئے ''نقد فیس‘‘ لیتا تھا۔ ایسے رہنما بھی ہیں جو سیاست میں کسی غیرسیاسی میدان میں نمایاں ہونے کی وجہ سے داخل ہوئے ۔ مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کے رہنما اس زمرے میں آتے ہیں۔ کرکٹ کے کھیل میں عمران خان کی نمایاں کامیابی اور رضاکارانہ شراکت کے ذریعے کینسر ہسپتال کے قیام نے ان کیلئے سیاست میں آنے کو آسان بنایا؛ تاہم جو لیڈر اس طرح سیاست میں آتے ہیں، انہیں اپنی لیڈرشپ کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی میدان میں کام کرنا پڑتا ہے اور اپنی حمایت کو بڑھانا پڑتا ہے ۔
لیڈرشپ کی ایک اور کیٹگری بھی ہے‘ جسے خاندانی رہنما قرار دیا جا سکتا ہے ۔ وہ جو کئی سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ قیادت میں ان کا عروج ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ہوتا ہے‘ قیادت کی سطح تک پہنچنے کیلئے طویل سیاسی جدوجہد کے سبب نہیں۔ جمہوری عمل نے نئے لیڈروں کے داخلے میں سہولت فراہم کی اور ان کے کردار کو برقرار رکھا ہے ؛ تاہم، وہ عام طور پر جمہوری ثقافت کے اصولوں کا مشاہدہ کرنے میں کمزور ہیں اور اپنی سیاست، کمرشل ازم اور بدعنوانی اور گہری متعصبانہ ذہنیت کو تبدیل کیے بغیر سماجی و اقتصادی تبدیلی چاہتے ہیں جو معاشی ترقی اور سماجی تبدیلی کے خلاف ہے ۔ جو لوگ اب بھی جمہوریت اور فلاحی معاشرے کی روایتی اقدار پر قائم ہیں وہ اقلیت میں رہ گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved