تقسیم برصغیر سے پہلے پروفیسر دلاور ایم اے او کالج لاہور کے پرنسپل ہوا کرتے تھے جو کرکٹ کے بہت شوقین اور کسی زمانے میں خود بھی کرکٹر رہے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ سال میں متعدد باراپنی کرکٹ ٹیم کو نئی دہلی، کانپور اور دیگر شہروں میں میچ کھلوانے لے کر جایا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی ٹکٹ خریدنے کی زحمت گوارا نہ کی تھی اور ہمیشہ بچ بچا کر نکل جایا کرتے ، لیکن ایک بار دھر لیے گئے اور 50روپے جرمانہ ادا کرکے جان خلاصی کروائی۔ واپسی پر وہ جب سٹاف روم میں یہ قصہ سنا چکے تو ایک لیکچرار نے کہا، سر، آپ پانچ دس روپے سے شروع ہوتے اور پندرہ بیس پر بات طے ہوجاتی، آپ پورے 50روپے دے آئے ہیں! یاد رہے کہ اس زمانے میں پچاس روپے ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی، جس پر دلاور صاحب بولے، آپ پانچ دس کہہ رہے ہیں، میں تو معافی سے شروع ہوا تھا! عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند لوگ معافی ہی سے شروع ہوتے ہیں خواہ ملے نہ ملے، ادھر ہمارے خان صاحب ہیں جنہوں نے عدالت جانے سے پہلے ہی کہہ دیا کہ وہ معافی ہرگز نہیں مانگیں گے‘ چاہے انہیں جیل جانا پڑے یا وہ نااہل بھی قرار دے دیئے جائیں۔ حالانکہ عدالت نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا بھی کہ ہم نے آپ کو معافی مانگنے کے لیے نہیں بلکہ اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے بلایا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے ایک ایم این اے عارف علوی نے ایک بیان میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ معافی مانگنے کی بجائے ڈٹ جائیں گے ! جبکہ عمران خان کا اپنا بیان بھی عقل وخردسے خالی تھا کیونکہ کسی برائی یا سیاسی جماعت کے خلاف ڈٹ جانا اور بات ہے اور عدالت کے خلاف بالکل اور بات۔ اور، معافی کی یہ گنجائش صرف توہین عدالت ہی کے حوالے سے رکھی گئی ہے ورنہ کوئی قاتل یا چور ڈاکو اس رعایت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ واضح رہے کہ عدالت کا رویہ خاصا نرم تھا اور اس کا کہنا یہ بھی تھا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں کیونکہ آپ ایک بڑے لیڈر ہیں اور آپ کا ایک مقام ہے اور ایسی بات آپ کو زیب نہیں دیتی۔ عدالت نے ان کا تحریری بیان بھی اسی لیے دوبارہ واپس کردیا تھا کہ یہ ناقابل قبول اور غیر تسلی بخش ہے۔ عدالت کا غالباً خیال یہی تھا کہ جواب میں عمران خان بھی نرم گوئی کا مظاہرہ کریں گے اور توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا جائے گا اور اس طرح معافی مانگے بغیر ہی موصوف کو معافی مل جائے گی۔ ایک شخص قتل کے مقدمے میں چالان ہوگیا تو اس نے اپنے وکیل سے کہا کہ کسی طرح اسے وہ پھانسی کی سزاسے بچالے اور عمرقید کرادے تو وہ اس کا بیحد ممنون ہوگا۔ چنانچہ وکیل نے بھی اس سے وعدہ کرلیا کہ وہ اسے سزائے موت سے بچالے گا۔ ملزم اسے ہرپیشی پر اپنا وعدہ یاددلاتا اور تاکید کرتا۔ آخر جج نے اسے عمر قید کی سزاسنا دی۔ باہر نکلتے ہوئے ملزم نے اسے شاباش دی اور شکریہ ادا کیا کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے تو وکیل صاحب بولے کہ میں نے تمہیں بڑی مشکل سے عمر قید کی سزا دلوائی ہے ورنہ جج صاحب تو تمہیں صاف ہی بری کررہے تھے! ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے وکیل صاحب نے بھی انہیں بڑی مشکل سے جج صاحبان کی معافی سے بچایا ہے جو وہ خود ہی دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ حق تو یہ ہے کہ عمران خان نے عقلمندی کی بجائے سیاسی طرز تخاطب اختیار کرلیا، شاید کارکنوں کو گرمانے کے لیے یا ہیرو بننے کی خاطر‘ جبکہ موصوف کا اپنا مؤقف تضادات اور نقائص سے بھرا پڑا تھا۔ ان کا موقف یہ رہا کہ انہوں نے توہین عدالت کا ارتکاب نہیں کیا کیونکہ ان کا اشارہ عدلیہ کی طرف نہیں تھا بلکہ ریٹرننگ افسروں کی طرف تھا حالانکہ وہ اپنی 26جولائی کی تقریر میں یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے آزاد عدلیہ کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور بڑی جدوجہد کی ہے جبکہ عدلیہ کا رویہ شرمناک رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ سپریم کورٹ ہی کی طرف تھا ورنہ کیا انہوں نے جدوجہد اور قربانیاں ریٹرننگ افسروں کے لیے دی تھیں؟ عدالت میں ان کے وکیل صاحب کا مؤقف بھی یہی تھا کہ عمران خان کو عدلیہ سے کوئی شکایت نہیں تھی‘ لیکن ایک ہی سانس میں وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ نے ان کی عذرداریاں غیرضروری اعتراض لگاکر واپس کردیں اور اس طرح ان کے فیصلے میں تاخیر کا باعث بنی۔ گویا وہ عدلیہ سے کوئی شکایت نہ ہونے کے باوجود ایک شکایت بیان بھی کررہے تھے ! اور اس طرح سپریم کورٹ کو اس معاملے میں ملوث بھی کررہے تھے اور اپنے اس موقف کی تکذیب بھی کہ انہیں اعلیٰ عدلیہ سے کوئی شکایت نہیں تھی، یعنی وکیل اور مؤکل اپنے اپنے بیانات میں یک بام ودوہوا، کی صورت حال سے دوچار تھے۔ عمران خان بار بار یہ بات کہہ رہے تھے کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی۔ حالانکہ توہین وہ ہوتی ہے جسے فریق ثانی توہین سمجھے کہ اس کی توہین ہوئی ہے ، اس بات کا الزام علیہ جو مرضی کہتا رہے ۔ پھر ایک اور لطیفہ یہ بھی ہے کہ موصوف نے عدالت سے باہر نکل کر یہ بیان دیا کہ انہیں آج پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ شرمناک کا لفظ واقعی ایک گالی ہے یعنی یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ انہوں نے عدلیہ کو واقعی گالی دی ہے، انہوں نے کسی قسم کا اظہار ندامت یا تاسف ضروری نہیں سمجھا بلکہ اسے مذاق میں اڑانے کی کوشش کی حالانکہ عدالت کے تحریری بیان واپس کرنے کا مقصد بھی غالباً یہی تھا کہ عمران خان کم ازکم اپنے اس رویے پر معذرت ہی کردیں گے تو بہت ہوگا کیونکہ عدالت اس معاملے کو لٹکانا یا آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی۔ ایک دفعہ بڑے زور کی آندھی آئی، مکانوں کی چھتیں اڑ گئیں اور درخت اکھڑ گئے تو لوگ خوفزدہ ہوکر گھروں سے باہر نکل آئے۔ چنانچہ جب آندھی کا زور تھما تو چوک میں جمع ہونے والے لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں کیا کرنا چاہیے جس پر ایک صاحب نے انہیں کہا کہ سب سے پہلے آپ کو گھر جاکر پائجامہ پہننا چاہیے! ہماری ناقص رائے میں بھی سب سے پہلے عمران خان کو اپنا وکیل تبدیل کرنا چاہیے، اگر وہ اپنی خیریت چاہتے ہیں کیونکہ اب ان کی جان معافی سے کم پر چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ آج کا مقطع سبزہ تھا اور پھول سرِ آسماں، ظفرؔ اور، فرشِ خاک پر تھے ستارے پڑے ہوئے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved