دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گرکر 140 تک پہنچ گئی ہے اورگزشتہ 11 برسوں میں یہ پاکستان کی سب سے بُری درجہ بندی رہی ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کا اپوزیشن جماعتوں نے خوب چرچا کیا ۔مسلم نواز کی لیڈر شپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس رپورٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کرپٹ ترین ہے‘ اس لیے اسے فوری مستعفی ہو جانا چاہئے۔اگر مسلم لیگ نوازکے نزدیک ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ ہی کسی حکومت کے کرپٹ ہونے کا معیار ہے تو پھر نیب ‘ ایف آئی اے اورملک کی عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس رپورٹ پر ایک جے آئی ٹی بنا کر قصوروار ثابت ہونے والے عناصر کو قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ وہ چہرے بے نقاب ہو جائیں جنہوں نے ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ چہرہ خواہ عمران خان کا ہو ‘ شریف برادران یا بھٹو کے وارثان کا ۔
8 ستمبر 2018 ء کی ایک شام میڈیا کے افراد کو بلا کر میاں شہباز شریف نے شکوہ کیا تھا کہ عمران خان کی حکومت شہروں میں چار سے چھ اور دیہات میں بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کررہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انتخابات سے پہلے ہی لوگو ں کو خبردار کر دیا تھا کہ وہ صرف31 مئی2018ء تک بجلی کے ذمہ دار ہوں گے‘ اس کے بعد نہیں۔حیران کن بات ہے کہ ایوب خان کو اس د نیا سے گئے پینتالیس برس ہو نے کو ہیں لیکن ان کے دور میں لگائے گئے منگلا‘ تربیلا ‘ وارسک اور گدو پاور سٹیشن کی بجلی ابھی تک ہم سب پاکستانیوں کو مل رہی ہے لیکن نہ جانے شریف برادران کے دور میں لگائے گئے بجلی کے پیداواری یونٹوں سے پیدا کی گئی بجلی کیسی تھی جو اُن کے جاتے ہی اڑن چھو ہو گئی ۔ البتہ جاتے جاتے گردشی قرضوں کا ایک پہاڑ اس طرح چھوڑ گئی کہ عمران خان کی حکومت کیلئے یہ آج بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔جون 2018ء میں گردشی قرضے 1148ارب روپے تھے جو اکتوبر 2021ء تک2419ارب روپے تک پہنچ چکے تھے ۔ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران گردشی قرضوں میں ماہانہ 35ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
پاکستان جیسے ملک میںعوام کا پیٹ ہی ا ن کی سیا ست ہوتا ہے۔ انہیں کچھ یاد نہیں رہتا کہ ملک کے ساتھ کس نے کیا کیا ۔وہ تویہ تک بھول چکے ہوں گے کہ 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد میاں نواز شریف نے 480 ارب روپے کے گردشی قرضے پاور پلانٹس کو ادا کئے تھے‘ جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ سب ادائیگیاں دوستوں کو کی گئیں اوربغیر آڈٹ کی گئی ہیں ۔اگر ان480 ارب روپوں کی ادائیگی ا ور عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے سے واجب الادا گردشی قرضوں کا آڈٹ کرالیا جائے تو شاید اس ملک وقوم کی بہت سے پریشانیوں سمیت مہنگائی اور مہنگی بجلی سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اس سے سب کا بھلا ہو جائے۔ پرائیویٹ پاور پلانٹس کوجس طرح ادائیگی کی جاتی ہیں اس سے یاد آ تا ہے کہ کسی شہر کے وسط میں واقع ایک بینک میں ڈاکوئوں نے اسلحہ تانتے ہوئے اندر موجود لوگوں کو انتہائی سرد لہجے میں کہا کہ سب لیٹ جائو اگر کسی نے ذرا سابھی ہلنے کی کوشش کی تو گولی مار دی جائے گی اور پھر چند منٹوں میں ڈاکو بینک لوٹ کرفرار ہوگئے۔ ڈاکو ئوں کے جانے کے بعد منیجر نے اپنے زونل ہیڈ سے رابطہ کرتے ہوئے کہا: پولیس کو اطلاع دینے سے پہلے آپ کو اس ڈکیتی کا بتانا منا سب سمجھ رہاہوں۔ زونل انچارج کچھ لمحے خاموش رہا اور پھر اس نے منیجر سے آہستگی سے کہا :دیکھو قدرت شاید ہماری مدد کر رہی ہے کیوں نہ ہم ان سات کروڑ روپوں کو بھی اس ڈکیتی میں شامل کرد یں جو ہم نے بینک سے نکلواکر سٹاک ایکسچینج میں لگالئے ہیں۔ بینک منیجر نے زونل انچارج کی یہ بات سن کر دبے لفظوں میں او کے کہتے ہوئے کہا:This is called swim with the tide۔ چند منٹوں بعد میڈیا پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی کہ ڈاکو‘جن کے چہرے نقاب میں چھپے ہوئے تھے بینک میں داخل ہوئے اور اسلحہ کی نوک پر بینک سے دس کروڑ ر اکیاسی لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے ۔دوسری طرف ڈاکو راستے بدلتے ہوئے اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو جیسے ہی انہوں نے ٹی وی آن کیا تو انہیں یہ بریکنگ نیوز سنائی دی۔ نیوز سنتے ہی ڈاکو لوٹی ہوئی رقم گننے لگے ‘انہوں نے ایک دفعہ ‘ دوسری دفعہ او رپھر تیسری دفعہ لوٹی ہوئی رقم کو گناجو بار بار گننے کے بعد بھی تین کروڑ اکیاسی لاکھ سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہ تھی تو ڈاکو نے آپس میں کہا کہ انہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بینک سے صرف تین کروڑ اکیاسی لاکھ روپیہ لوٹا ہے اور جرم گیارہ کروڑ کا بن گیا ہے۔ قانون اورعوام ہمیں ڈاکو کہتے ہیں لیکن اپنی انگلی کی صرف ایک حرکت سے جو سات کروڑ بینک سے لوٹ لے گئے وہ پھر بھی معزز کہلاتے ہیں۔
29 جون 2014ء کے اخبارات کی شہ سرخیاں تھیں کہ حکومت نے پاور پلانٹس کے 480ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کر دیے ہیں اورساتھ ہی ایک خبر یہ بھی تھی جس میں سپریم کورٹ پی پی پی کی سابقہ حکومت کی طرف سے کی گئی کسی مبینہ کرپشن پر شکوہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے پوچھ رہی تھی کہ اٹارنی جنرل صاحب ملکی دولت بچائیں یا ہمیں بتا دیں کہ حکومت نے مفاہمت کر لی ہے۔ابھی سپریم کورٹ کا اٹارنی جنرل سے اس سوال کا پس منظر جاننے کی کوشش کررہاتھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی کا وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کو لکھا گیا خط سامنے آ گیا جس کے مطابق آئی پی پیز نے گزشتہ دس برسوں میں ایک ہزار ارب روپے اضافی وصول کئے تھے۔ سپریم کورٹ نے منیر اے ملک سے ملکی دولت بچانے کا شکوہ راجہ پرویز اشرف کا کیا ہے یا ان آئی پی پیز کا؟ اس کا جواب نہ جانے کس کے پاس ہے کیونکہ ایک ہزار ارب روپے کی اضافی ادائیگی پر جن سے سوال کیا گیا وہ راجہ صاحب کے لیگل ایڈ وائزر تھے۔ تو سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اورعادل گیلانی کے اس خط کو تحقیقاتی کمیٹی کے حوالے کیا جائے تاکہ سچ اور جھوٹ سامنے آ جائے۔ ہمارے جیسے لوگوں کاشمار چونکہ کم فہم اور کم علم لوگوں میں ہوتا ہے اس لیے اس ذمہ داری کا تعین معتبر دانشوروں پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ وہ ٹرانسپیر نسی کے گیلانی صاحب کو بلا کر تمام تفصیلات پوچھ کر کارروائی کرانے کاذکر اسی طرح شروع کر دیں جس طرح ملک میں بدعنوانی کے حوالے سے حالیہ رپورٹ آنے کے بعد سب نے موجودہ حکومت کوکرپٹ ثابت کرنے کیلئے مہم شروع کر رکھی ہے‘ اب دودھ میںشامل تمام پانی کو علیحدہ کر ہی دینا چاہئے تاکہ کسی بھی طریقے سے لوٹا ہوا قوم کا پیسہ مہنگائی ختم کرنے کے کام آ سکے ۔ گیلانی صاحب نے خواجہ آصف کے علاوہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو بھی یہ شکایت ارسال کی تھی کہ نجی پاور پلانٹس کو منافع کی مد میں ان کے اخراجات کے اٹھارہ فیصد کے برابر ریاستی ضمانت فراہم کی گئی ہے لیکن آئی پی پیز نے غیر قانونی طور پر اٹھارہ فیصد سے زائد فائدہ حاصل کرنے کیلئے اپنے اخراجات اور پیداواری لاگت کو اصل سے بڑھا کر پیش کیا ۔24 ستمبر2012ء کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق آئی پی پیز اپنے اخراجات میں ان بوگس اضافوں کی ذمہ دار ہیںکیونکہ انہوں نے آپریشن اور مینٹی ننس کے اخراجات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا‘ٹیکنیکل سروسز کیلئے زائد ماہانہ اخراجات ادا کئے‘ میٹر یل اور دوسری اشیا کے حصول کے اخراجات بھی زیا دہ ظاہر کئے نیزبجلی کی پیداوارظاہر کرنے میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ احتساب کرنے والے سو ر ہے ہیں یا ہم سب۔