کیا معاشرے سے ہٹ کر‘ سب سے کٹ کر جیا جاسکتا ہے؟ یقیناً۔ سب سے جدا ہوکر جینا انتہائی دشوار سہی‘ ناممکن ہرگز نہیں۔ کوئی بھی انسان باقی دنیا سے بالکل لاتعلق ہوکر بھی جی سکتا ہے مگر اس طور جینے کو ہم زندگی نہیں کہہ سکتے۔ اس طور جینا محض حیوانی سطح ہے۔ اپنے ماحول میں پائی جانے والی دیگر مخلوق کا مشاہدہ کیجیے۔ اُن کے جینے کو محض سانسوں کا تسلسل قرار دیا جاسکتا ہے‘ اور کچھ نہیں۔ وہ سال دو سال جئیں یا دس بیس سال اُن کے جینے نہ جینے سے ماحول پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یوں‘ حیوانی سطح پر جینے کو زندگی کہنا زندگی کی توہین کہلائے گا۔ انسان کو اس طور جینے کے لیے خلق نہیں کیا گیا۔ انسان اور باقی تمام مخلوق میں یہی تو فرق ہے۔ انسان سوچتا ہے‘ ماحول کو بہتر بنانے کی سعی کرتا ہے‘ اپنی زندگی کا معیار بلند کرتا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی زیادہ کارگر ثابت ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
زندگی بہت کچھ مانگتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مل جل کر رہیے۔ سب سے الگ رہتے ہوئے‘ محض اپنے وجود اور اپنے متعلقین میں گم ہوکر زندگی بسر کرنا بھی ممکن تو ہے مگر اس طور جینے میں لطف ہے نہ زندگی کا حق ہی ادا ہو پاتا ہے۔ انسان کو جتنی بھی سانسیں عطا کی گئی ہیں اُن کی گنتی جیسے تیسے پوری کرکے دنیا سے چلے جانا کسی بھی درجے میں زندگی نہیں۔ اس طور جینے میں اپنے لیے راحت ہے نہ دوسروں کے لیے۔ بہت سے معاملات میں انسان اگر خود غرضی کو پروان چڑھاتے ہوئے زندگی بسر کرے تو کسی اور کے لیے تو کیا‘ اپنے متعلقین کے لیے بھی کام کا نہیں رہتا۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں بہت سی اقدار ختم ہوچکی ہیں مگر پھر بھی بہت کچھ باقی ہے۔ دیگر پس ماندہ معاشروں سے پاکستانی معاشرے کا موازنہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم میں اب بھی بہت کچھ باقی ہے‘ زندہ ہے اور کارگر بھی ہے۔ خاندانی نظام بہت بگڑ چکا ہے مگر پھر بھی موجود اور زندہ ہے۔ اس نظام کے تحت انسان بہت سی پریشانیاں بھی جھیلتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ فوائد بھی بٹورتا ہے۔ مل جل کر رہنے میں محض الجھنیں نہیں ہوتیں۔ یہ تصور مغربی معاشروں نے دیا ہے جہاں شخصی آزادی کو انتہائی شکل میں پروان چڑھایا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ انسان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے اور اپنی بہبود سے ہٹ کر کچھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہتا جس میں دوسروں کے لیے بھی تھوڑی بہت بہبود کا سامان ہو۔ مغرب میں شخصی آزادی کا انتہائی تصور عملی شکل میں سامنے آچکا ہے اور ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ شخصی آزادی کے اس انتہائی تصور نے کیا گُل کھلائے ہیں۔ انسان کو خود مختار بنانے کے نام پر مادر پدر آزادی دے کر اُس کی زندگی کو یکسر بے لگام کردیا گیا ہے۔ ایسے میں حرام و حلال کے مابین امتیاز کو بھی یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
فی زمانہ حقیقی انفرادیت کا اہتمام بہت بڑا دردِ سر ہے۔ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے کچھ ہٹ کر‘ نئے انداز سے‘ نئی سوچ کے ساتھ کچھ کرنا کسی بھی درجے میں کوئی آسان کام نہیں۔ منفرد دکھائی دینا بہت کچھ طلب کرتا ہے۔ سب کی طرح جینے میں انسان کو زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مشکل تو اُس وقت پیش آتی ہے جب دوسروں سے ہٹ کر‘ اپنے لیے طے کردہ راستے پر چلنے کی بات آجائے۔ اپنے لیے الگ راستہ نکالنا یا تیار کرنا انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے۔ اس آزمائش میں کم ہی لوگ پورے اترتے ہیں۔
ماحول مختلف حوالوں سے انسان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چند باتیں انسان کو کچھ نیا اور اچھا کرنے کی تحریک دیتی ہیں اور بعض معاملات میں انسان کے لیے حوصل شکنی کا سامان بھی ہوتا ہے۔ مثبت معاملات انسان کو اعلیٰ طرز کی زندگی کی طرف لے جاتے ہیں مگر اس طرف لوگ کم ہی مائل ہوتے ہیں۔ بیشتر منفی معاملات انسان کو خرابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ عمل متواتر جاری رہتا ہے۔ عام طور پر ہم ایسے تمام معاملات کو آسانی اور تیزی سے قبول کرلیتے ہیں جن پر عمل کرنا آسان ہو‘ پھر چاہے انجام بُرا ہی نکلتا ہو۔
سب سے الگ دکھائی دینا اب انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہر معاملے میں تنوع اتنا زیادہ ہے کہ کسی کے لیے عام ڈگر سے ہٹ کر چلنا‘ منفرد انداز سے کچھ کرنا انتہائی کسی بھی درجے میں سہل نہیں رہا۔ لوگ خصوصی طور پر بہت کچھ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں ڈھنگ سے کچھ کرنا‘ اپنی الگ شناخت بنانا اور اپنے منفرد انداز سے کچھ کر دکھانا کسی کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔ اور آج کل تو یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ کسی بھی شعبے میں اپنے لیے کوئی منفرد مقام پیدا کرنے والے ہی جانتے ہیں کہ اِس راہ پر چلنا کیا ہوتا ہے۔ ایک عمر کھپ جاتی ہے تب کہیں کوئی کچھ بن پاتا ہے۔ یہ چونکہ دشوار گزار راستوں کا سفر ہے اس لیے کم ہی لوگ اس طرف آتے ہیں۔
معاملہ اداکاری کا ہو یا گلو کاری کا‘ تصنیف و تالیف کا ہو یا پھر ترجمے کا‘ روایتی مصوری کا ہو یا تجریدی فن کا کہیں بھی کسی کے لیے آسانی نہیں۔ عمومی انداز سے کام کرنے کی صورت میں انسان کی تشفّی نہیں ہو پاتی اور کچھ منفرد کرنے کے لیے بہت تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کے حوالے سے کچھ نیا کرنا یوں تو ہر دور میں دشوار ہی رہا ہے مگر تین چار سو سال پہلے تک یہ معاملہ ایسا پیچیدہ نہ تھا۔ تب تک چونکہ بہت کچھ ایجاد نہیں ہوا تھا اس لیے بیشتر معاملات میں سادگی نمایاں تھی۔ اُس دور کی تخلیقات میں ہمیں رفعت بھی سادگی کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ آج ہر شعبہ الجھ چکا ہے۔ طبع آزمائی کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ بہت تیزی سے منظرِ عام پر بھی آجاتا ہے۔ یہ جاننا اب بہت آسان ہے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں مگر اس کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ آپ کو پورے انہماک کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے کام میں کھپادینا ہے۔ منفرد دکھائی دینے کی یہی ایک صورت ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ الگ سے کچھ کرنے کے لیے اپنے آپ کو ماحول سے الگ کرلینا ناگزیر ہے؟ یقیناً اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ آپ ماحول میں رہتے ہوئے بھی اُس سے الگ تھلگ رہیں مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ماحول سے یکسر لاتعلق ہو جائیں۔ ماحول سے بالکل الگ ہوکر جینا انتہائی خشک اور بے رَس معاملہ ہوتا ہے۔ انسانوں کو مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو ہمارے ماحول کا معیار بلند ہوتا ہے اور ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی میں کچھ نیا پیدا کر پاتے ہیں۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ماحول کو نظر انداز کرنے اور اُس میں رہتے ہوئے بھی اُس سے کچھ دور رہنے میں بہت فرق ہے۔ ماحول میں زندہ رہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہر وقت ہر معاملے میں دلچسپی لیں۔ ہمارے ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمارے لیے کام کا نہیں ہوتا اس لیے ہمیں ہر معاملے میں دلچسپی لینے سے گریز کرنا چاہیے اور انتہائی غیر متعلق معاملات سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچانا چاہیے۔
نئی نسل کو یہ نکتہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ماحول سے بیزار ہوئے بغیر اُس کا حصہ بنے رہنے اور اُس میں گم ہو جانے میں بہت واضح فرق ہے۔ یہ فرق ہر وقت ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے۔ ہم سب چند ایک خصوصیات کے ساتھ اس دنیا میں آتے ہیں۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کرکے جانا ہے۔ اپنے حصے کا کام؟ یعنی تھوڑی بہت خصوصیت اور انفرادیت کے ساتھ کچھ ایسا کرنا جو لوگوں کو یاد رہے اور جس سے اس دنیا کا معیار تھوڑا بہت ضرور بلند ہو۔ ہر انسان کو چند ایک خصوصیات کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔ اُسے اپنے آپ کو پہچاننا اور خصوصی شناخت یقینی بناکر کچھ نہ کچھ بامعنی کرنا ہے تاکہ لوگ کارکردگی کو سراہیں اور تادیر یاد رکھیں۔ یہ سب کچھ ماحول میں رہتے ہوئے کرنا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ماحول سے کچھ فاصلہ بھی ناگزیر ہے۔