سیاست ہو یا معاشرے کا کوئی اور شعبہ اکٹھا ہونا‘ مل جل کر بیٹھنا‘ مشاورت سے فیصلے کرنا اور قدم آگے بڑھانا زندہ سماجوں کی پُرانی روایت ہے۔ فیصلے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق ہماری ذات سے ہے۔ یہاں ذمہ داری خود پر لینا‘ سوچ بچار کرنا‘ اپنا راستہ خود بنانا خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ غلطی کون نہیں کرتا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ماضی سے کیا سیکھتے ہیں‘ اپنی غلطیوں سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ کچھ سیکھتے بھی ہیں یا بار بار اسی گڑھے میں آنکھیں بند کر کے گر جاتے ہیں۔ دوسری نوعیت کے فیصلوں کا تعلق اجتماعی مسائل سے ہے‘ جن میں مشاورت‘ مکالمہ‘ گفت و شنید اور بحث و تمحیص نظام اگر جمہوری ہو تو اس کے ڈھانچے میں سمو دیئے جاتے ہیں۔ اس کے دو فائدے ہیں‘ ایک یہ کہ عوام بے خبر رہتے ہیں کہ مسائل کی نوعیت کیا ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کا موقف ان مسائل کے بارے میں کیا ہے۔ جمہوریت کا میدان کھلا ہو اور رائے سازی پر پابندیاں یا رکاوٹیں نہ ہوں تو یہ مشاورت بحث کی صورت عوام کے سامنے ہوتی ہے‘ سب سیاسی کھلاڑی اپنا اپنا مقدمہ لڑنے کی آزادی رکھتے ہیں۔ نتائج بھی واضح ہو کر سب کے سامنے آ جاتے ہیں۔ لیکن اگر جمہوریت کے نام پر اشرافیہ نظام پر قبضہ جما لے تو فیصلے ذاتی محلات کے پُر آسائش بند کمروں میں رازداری سے ہوتے ہیں۔ وہ جو سنتے آئے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا تو نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ بات باہر نکل ہی آتی ہے۔ خبر رکھنے اور کھوج لگانے والوں نے بھی نقب زنی کے اپنے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں۔ گرم چائے‘ سموسے پکوڑے یا دور دراز کے علاقوں سندھ‘ کراچی اور دیگر مقامات سے آنے والوں کی آئو بھگت کے لیے ان کے مزاج‘ صحت اور افتادِ طبع کے مطابق خصوصی انتظام ہوتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ کی عادات اور ثقافت ہم عوامی‘ زمینی لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو ان کی بدن بولی سے پتا چل جاتا ہے کہ اندرونِ خانہ کیا طے پایا ہے۔ کھلی مسکراہٹ یا دبی دبی‘ ہاتھوں کے بلند یا رسمی اشارے‘ گفتگو کی نرمی یا گرج‘ منتظر صحافیوں کے سوالوں کے جواب یا ''آپ کو پتا چل جائے گا‘‘ کی تکرار‘ سب کچھ اگلتا نہیں تو ہلکے پھلکے جلوے ضرور دکھاتا ہے۔
ہم تو ان واقعات کو دور سے دیکھتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کی اگلی چال کیا ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ عرصے سے بچھڑے ہوئے اور دہائیوں سے باہمی رقابت‘ الزام تراشیوں اور ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے دو بڑے سیاسی گھرانے ایک دفعہ پھر بغل گیر ہوتے نظر آئے ہیں۔ ان کے حاشیہ بردار‘ جن پر سیاسی جنگیں لڑنے کی ذمہ داری تھی اور جو قابلِ اعتراض زبان ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے وفاداری کی سندیں اور اس سیاسی جفاکشی کا پھل وزیر و مشیر بننے کی صورت حاصل کرتے تھے‘ اب جمہوریت اور آئین کی حفاظت کے لئے اکٹھے ہونے کو لازمی مضمون کی حیثیت میں سیاسی نصاب میں ڈالنے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔ یہ بھی محنت اور وفاداری کے کھاتے میں شمار ہو گا اور امید ہے زر و دولت سے ایک مرتبہ پھر نوازے جائیں گے۔ کیا کریں‘ پہیے نہ ہوں تو گاڑی چلتی نہیں۔ ویسے باہمی الزام تراشی کی بات آپ کا دل رکھنے کے لئے کی ہے‘ سچ تو یہ ہے کہ کرپشن کے ثبوت دونوں نے جمع کئے‘ اور اتنے کہ ان کے فیصلوں میں بھی عمر درکار ہے۔ شاید اس لئے ابھی تک بے گناہ ہیں۔
جہاں تک اکٹھا ہو کر عمران خان صاحب کا مقابلہ اور ان کی حکومت کو دبائو میں رکھنے اور گرانے کا تعلق ہے تو وہ ہمارے تین روایتی کھلاڑی گھرانے‘ لاڑکانہ‘ لاہور اور ڈیرہ اسماعیل خان والے پہلے ہی دن سے کر رہے ہیں۔ ہمارے محترم ڈیروی صاحب کو تو ایک دن بھی چین نہیں آیا‘ جب سے یہ ''نااہل‘‘ اور ''اوپر سے لائی گئی‘‘ حکومت کو ایوانِ صدر میں حلف اٹھاتے دیکھا ہے۔ اورپھر اکٹھے تو ہوئے تھے‘ پاکستان ڈیموکریٹس الائنس بناتے ہوئے۔ زوروشور سے شہر شہر جلسے منعقد ہوئے۔ صفِ اول کے رہنما بڑے جلسوں سے خطاب کرتے اور حکومت کو ''گھر بھیجنے‘‘ کی خبریں اشاعت فرماتے رہتے۔ صبح شام ٹیلی وژن پر دو جانب سے بلائے گئے ہرکارے دور کی کوڑیاں لاتے۔ آہستہ آہستہ شام کے سایوں کی طرح حکومت جمہوری اتحاد رات کی تاریکیوں میں ضم ہو گیا۔ اب پھر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ پہل اس بار نواب شاہ والوں کی طرف سے ہوئی ہے۔ سنا تھا کہ وہ اپنا مارچ اس ماہ کے آخر میں شروع کریں گے‘ مگر ابھی تو باہمی رشتے دوبارہ سے زندہ کرنے اور اس کھوئے ہوئے ''سنہری جمہوری‘‘ دور کو دوبادہ ملک میں لانے کے لئے شریفوں کے بنگلے پر حاضری لگوا آئے ہیں۔
ہم سب اس سوچ میں ہیں کہ آخر کیا ہوا ہے کہ انتخابات سے دو سال قبل سنہری دور والے حکومت کو گرانے کے لئے میدان میں اترے ہیں۔ درویش کو سب لوگوں کی آرا کا احترام ہے‘ مگر میرے نزدیک انہیں خوف ہے کہ آنے والے دنوں‘ مہینوں اور سالوں میں ان کی سیاست کہیں بال بکھیرے نوحہ کناں نہ رہے۔ ایسی صورت ہو تو ارد گرد چگنے والے پرندے ایک ایک کر کے اڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اقتدار کا ستارہ دور سے بھی چمکتا دکھائی دے تو اس کی روشنی بہت سے سیاسی خاندانوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے۔ اگلے پانچ سال عمران خان رہے تو نہ صرف ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا بلکہ روایتی سیاسی خاندانوں کا سیاسی ڈیرا خالی خالی نظر آئے گا۔ تحریکِ انصاف کی اپنی اکثریت نہ پنجاب میں ہے اور نہ مرکز میں۔ حکومت بنانے کے لئے جن جماعتوں اور گروہوں کا سہارا انہوں نے لیا وہ موقع پرستی میں اپنا نام اور مقام رکھتے ہیں۔ لین دین کی سیاست میں یہ گروہ اگلے پانچ سالوں پر نظر رکھتے ہیں۔ کراچی اور پنجاب کے اتحادیوں کو فکر ہے کہ بڑی مچھلی انہیں اگلے انتخابات میں ہڑپ نہ کر لے۔ وہ سیاسی امکانات کی رواں دنیا میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میدان خوب سجے گا کہ اگر تین سیاسی گھرانے اور تحریک انصاف کے موجودہ اتحادی اکٹھے ہو جائیں‘ کپتان بمقابلہ باقی سب کھلاڑی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ کون بنے گا وزیراعظم مگر سیاست کا رخ ضرور بدلے گا۔ بہت سے روایتی ساز باز کے باوجود نعروں پر گزارہ کریں گے۔ دل میں خوف بھی ہے کہ بے وقت کی سیاسی لڑائیاں اور 'حکومت گرائو‘ کی پُرانی روش ملک کو بند گلی میں نہ دھکیل دے۔