پاکستان کے دستور کا آرٹیکل چورانوے کہتا ہے کہ
1۔ قومی اسمبلی کے بیس فیصد ارکان (انہتر اراکین) وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لا سکتے ہیں۔
2۔ قرارداد پیش ہونے کے تین دن بعد یا سات دن کے اندراس پر ووٹنگ ہوگی۔
3۔ عدم اعتماد کی قرارداد ان دنوں میں پیش نہیں کی جاسکتی جب قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہورہا ہو گا۔
4۔ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت (ایک سو بہتر اراکین) اگر اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈال دیتے ہیں تو وزیراعظم اپنے عہدے سے فارغ ہوجائے گا۔
گویا دستور کے مطابق اپوزیشن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ وہ انہتر اراکین اسمبلی کے ساتھ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد تو پیش کرسکتی ہے لیکن اس کی منظوری کے لیے کم ازکم اسے ایک سو بہتر ارکان کی حمایت حاصل کرنی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آئی تھی تو اس وقت انہیں ایک سو اٹھہتر اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ ان اراکین میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے جن کی مدد سے تحریک انصاف نے اپنی حکومت تشکیل دی تھی۔ سیدھے سے حساب کے مطابق اگر عمران خان کے اتحادی اپنی بائیس نشستوں کے ساتھ الگ ہوکر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل جاتے ہیں تو خان صاحب کی حکومت تحریک عدم اعتماد پیش کیے بغیر ہی ختم ہوجائے گی۔ اگر یہ اتحادی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں تو پھرتحریک عدم اعتماد پیش ہوبھی جائے توچند دن کے شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بڑے اعتماد سے کہتی ہیں کہ ان کے پاس کم ازکم بائیس ارکان ایسے ہیں جو منتخب تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ہوئے ہیں لیکن درونِ خانہ یہ لوٹے ہوکر اپوزیشن سے آن ملے ہیں۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ وقت آنے پر یہ لوگ خان صاحب کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ ایسا ہوبھی جائے تو پاکستانی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی؛ البتہ یہ مشکل ہے کہ لوٹا بن جانے والے ارکان عمران خان کے خلاف عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے سکیں کیونکہ یہ خفیہ ووٹنگ نہیں ہوگی بلکہ کھڑے ہوکر بتانا ہوگا کہ فلاں بن فلاں عمران خان کے خلاف ہے۔ ایسے لوگوں کو اخلاقیات کا تو خیر کیا پاس ہوگا لیکن اس صورت میں دستور کا آرٹیکل تریسٹھ اے حرکت میں آجائے گا۔ اس آرٹیکل کی شق بی میں صاف لکھا ہے کہ اگر کسی جماعت کا رکن قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری، آئینی ترمیم کی منظوری اور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پراعتماد یا عدم اعتماد کے وقت اپنا ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے یا غیرحاضر ہوتا ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا۔ دستور کی یہ شق اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں وہ ابہام باقی ہے جس کا فائدہ عمران خان کو پہنچے گا۔ وہ اس طرح کہ فرض کر لیں آج ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتی ہے تو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر آئندہ تین سے سات روز کے اندر اندر اس پر ایوان کی رائے لیں گے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والا کوئی ایم این اے اگراس موقع پروزیر اعظم کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو سپیکر اس شق کے مطابق اس کا ووٹ مسترد کرسکتا ہے کیونکہ یہ ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال ہورہا ہوگا۔ جب دستور میں واضح طور پر لکھ رکھا ہے کہ ایسے موقع پر پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں دینا تو عدم اعتماد پر رائے شماری کے موقع پر پریزائیڈنگ افسر کہلانے والا سپیکر اپنے سامنے ایک ایسے شخص کو وہ ووٹ کیوں ڈالنے دے گا جس کو ڈالنے کا وہ مجاز ہی نہیں۔ گویا بائیس لوگ ہوں یا بیس، وہ چاہیں بھی تو تحریک انصاف سے ٹوٹ کر اپوزیشن کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں چونکہ مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری کرنا اپوزیشن کے ذمے ہوگا تو تحریک انصاف سے ٹوٹے ہوئے لوگ بھی بظاہر اپوزیشن کی کوئی مدد نہیں کر پائیں گے۔ اس کے لیے اپوزیشن کو پہلے تحریک انصاف کے سپیکر کو ہٹا کر اپنا بندہ لانا ہوگا جو لوٹا ووٹ بھی قبول کرلے۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی مجموعی قوت ایک سو چھپن نشستوں تک محدود ہے۔ حکومت میں رہنے کے لیے اسے اپنے اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ اتحادی اگر اسے چھوڑنا چاہیں تو دستوری طورپر ان کے پاس یہ اختیار ہے۔ اگر یہ سب لوگ کسی دوسرے اتحاد میں شامل ہوجائیں تو عمران خان کی وزارت عظمیٰ ماضی کا قصہ بن جائے گی۔ ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخریہ حکومت چھوڑ کراپوزیشن کے مطالبے پروقت سے پہلے اسمبلی توڑنے کی کسی بھی کاوش کا حصہ کیوں بنیں گے؟ اس حکومتی اتحاد کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص وقت اور حالات میں اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس کو آپس میں جوڑنے میں جہاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مخالفت نے کردار ادا کیا وہیں اسے قائم رکھنے میں ہیئت مقتدرہ کا بھی حصہ ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ اتحادیوں کی باہمی رقابت بڑھ جائے یا مشترکہ مخالفین سے اختلاف کم ہوجائے لیکن مقتدرہ کے خیالات میں بظاہر کوئی تبدیلی ابھی تک نظر نہیں آرہی۔ اس لیے اپوزیشن کی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کوشش ایک اچھا سیاسی حملہ تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن اس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اتحادیوں کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کیلئے اہم چیز مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں مکمل اتفاق و اتحاد ہے۔ یہ اتحاد قائم رکھنے میں کچھ عملی مسائل درپیش ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے خیال میں اسی سال کے موسم خزاں میں وزیراعظم نے کچھ ایسی تقرریاں کرنی ہیں جن پرکسی مخصوص شخص کا تقرر اس کیلئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کیلئے یہ معاملہ زیادہ اہم نہیں بلکہ ابتدائی طور پر تو اس کی کوشش تھی کہ عمران خان کی جگہ پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا وزارت عظمیٰ سنبھالے اور یہ تقرریاں وہ کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے برعکس پیپلزپارٹی افراد میں زیادہ نہیں الجھتی اور ماضی کے بجائے مستقبل کو دیکھ کر چلتی ہے۔ حساس تقرریوں کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن کی سوچ بھی واضح ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کے حوالے سے تو سخت مؤقف اختیار کرلیتے ہیں مگر ریاستی اداروں میں ترقیاں تبادلے ان کی سیاست کا ہدف کبھی نہیں رہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے نواز شریف کو بھی یہ مشورہ دیا تھاکہ خود کو اداروں کی عمومی اصلاح تک ہی محدود رکھیں، زیادہ تفصیلات میں جانے سے گریز کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اس خاص معاملے میں کسی کی سننے کیلئے تیار نہیں، اس لیے یہ بے لچک رویہ کسی نہ کسی درجے میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی پریشان کیے ہوئے ہے۔ یہ پریشانی کس موقع پر اختلاف یا علیحدگی میں بدل جائے اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ایک زمانے میں اپنا حسن ظن یہ تھا کہ سیاستدان پاکستان کے معاملات کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے ہیں۔ تجربے نے بتایا کہ ہمارے سیاستدان صرف اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں، ملک، قوم یا ترقی ان کے ایجنڈے پراپنے مفاد کے بعد آتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ میرے اس خیال کو جمہوریت مخالف نہ سمجھا جائے، اس کی وجہ ہے کہ اپنی انا کی دلدل میں کمرتک پھنسے لوگوں کو جمہوریت ہی کسی حد تک راہ راست پررکھتی ہے ۔ اس لیے تحریک عدم اعتماد کے بارے میں ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ کامیاب ہو یا ناکام، اپنے مفادات کی حفاظت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ پروا کسی کو نہیں کہ اس سے پیدا ہونے والا عدم استحکام ملک کیلئے کتنا نقصان دہ ہوگا۔