تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-02-2022

سرخیاں، متن اور تازہ غزل

وزیراعظم کی کشتی میں بیٹھے افراد چھلانگ
لگانے کیلئے تیار ہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کی کشتی میں بیٹھے افراد چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں‘‘ اور یہ کافی عرصے سے تیار بیٹھے ہیں لیکن چھلانگیں نہیں لگا رہے اور ہمیں بھی انہوں نے جھوٹا فریب دے رکھا ہے، شاید اس لیے کہ کشتی میں وہ پھر بھی محفوظ ہیں، چھلانگیں لگا کر پانی میں ڈوبنا تو یقینی سی بات ہے اور حکومت کے خاتمے کے لیے یہ ہماری آخری امید تھی جس پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے حالانکہ انسان ایک بار کسی کام کا ارادہ کر لے تو اُسے انجام کی پروا کیے بغیر مردانگی کے ساتھ پورا کرنا چاہیے؛ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فی الاصل کسی نے چھلانگ لگانے کا سوچا تک نہ ہو اور ہمیں یہ غلط اطلاع ملی ہو کہ یہ لوگ چھلانگیں لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
ایک کروڑ نوکریوں کے لیے ماحول
سازگار بنا رہے ہیں: اسد قیصر
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ''ایک کروڑ نوکریوں کے لیے ماحول سازگار بنا رہے ہیں‘‘ اور چونکہ ملک کا ماحول کافی خراب ہو چکا ہے اس لیے اس کے سازگار ہونے میں کافی وقت لگے گا‘ لہٰذا بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے؛ اگرچہ بطور سپیکر یہ میرا دردِ سر نہیں ہے کیونکہ میرا کام اسمبلی کا کاروبار چلانا ہے، ماحول کو سازگار بنانا نہیں لیکن حکومت چونکہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے اس لیے میں نے اس کے لیے کمر کس کر باندھ لی ہے اور ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے میدان میں کود پڑا ہوں لہٰذا ماحول کو کچھ میرا خیال کرناچاہیے اور اپنے آپ ہی سازگار ہو جانا چاہئے ورنہ ایک کروڑ نوکریاں کھوہ کھاتے میں چلی جائیں گی۔ آپ اگلے روز قائم مقام گورنر پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی چیک دیتی ہے نہ
لیتی ہے: راجہ پرویز اشرف
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی چیک دیتی ہے نہ لیتی ہے‘‘ اور چیک اس لیے نہیں لیتی کہ اس کے باؤنس ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے وہ صرف نقد پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلے میں کوئی خطرہ مول لینا پسند نہیں کرتی؛ چنانچہ سارا کاروبار ہی نقد پر چلتا ہے اور چیک کسی کو دینے میں بھی یقین نہیں رکھتی ماسوائے اس کے کہ پیسے واپس کرنا پڑیں اور وہاں بھی چیک اس لیے دیتی ہے کہ اتنی رقم نقد واپس کرنا ویسے بھی دل دہلا دینے والی بات ہے اور اس طرح وہ اپنا معاملہ سدھارنے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو سیاست بچانے کے لالے
پڑے ہوئے ہیں: حسان خاور
ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو سیاست بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘‘ جبکہ ہمیں سیاست بچانے کی کوئی پروا نہیں بلکہ صرف جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں کیونکہ یہ ویسے بھی فرض ہے اور حکومت فرائض کی ادائی میںمکمل یقین رکھتی ہے کیونکہ سیاست تو حکومت کے بغیر بھی چلتی رہتی ہے‘ اصل چیز تو جان ہے جس کے بارے میں کسی شاعر نے ٹھیک کہہ رکھا ہے کہ ع
جان ہے تو جہان ہے پیارے
اور جان کے بغیر زندہ بھی نہیں رہا جا سکتا؛ اگرچہ اس کی بھی ریہرسل کرتے رہتے ہیں کہ جان کے بغیر کیسے اور کب تک زندہ رہا جا سکتا ہے کہ معاملہ وہی فرض کی ادائی کا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کمر کس لی ہے، اب حکمرانوں پر
عدم اعتماد ہوگا: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''کمر کس لی ہے، اب حکمرانوں کے خلاف عدم اعتماد ہوگا‘‘ اور یہ اب تک اس لیے نہیں ہو پا رہا تھا کہ کمر ہی ڈھیلی تھی، عدم اعتماد کیسے ہوتا؛ چنانچہ اب میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی کہہ دیا کہ وہ سب بھی اپنی اپنی کمریں کس لیں اور کوئی کمر ڈھیلی نہ ہونے پائے ورنہ عدم اعتماد پھر بیچ میں رہ جائے گا۔ اگرچہ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے کچھ کمریں ایسی ہو چکی ہیں کہ کسے جانے کے قابل ہی نہیں سو ان کے لیے معجونِ کمر کس بھی تیار کرائی جا رہی ہے جس کے استعمال سے یقینا انہیں افاقہ ہوگا اور ان میں کچھ مہربان ایسے بھی ہیں جن کی کسی ہوئی کمریں کسی غیبی اشارے ہی سے ڈھیلی ہو جاتی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
اختیار اتنا تو ہمارا ہو سکتا ہے
تم سے نہیں‘ خود سے تو کنارہ ہو سکتا ہے
جتنی محبت دے کرچھوڑ دیا ہے تم نے
اپنا تو اس پر بھی گزارہ ہو سکتا ہے
ایک بار جو ہو نہ سکا تھا ہوتے ہوتے
اسی طرح سے اب دوبارہ ہو سکتا ہے
کبھی تمہارا پیچھا چھوڑ نہیں سکتے ہم
یہ بھی ایک خیال تمہارا ہو سکتا ہے
ٹوٹ کے گر جانا ہے جس نے ہمارے سامنے
آسمان پر ایک ستارہ ہو سکتا ہے
کچھ بھی نہ ہو تو پھر کیا کوئی علاج کرے گا
بیماری کچھ ہو تو چارہ ہو سکتا ہے
رُکنے کا تو خیر نہیں امکان ہی کوئی
اور گزر جانے کا اشارہ ہو سکتا ہے
کہیں دلِ دیوار کو دریا میں پھینک آئیں
اب تو اتنا ہی کفارہ ہو سکتا ہے
اتنی مایوسی بھی ظفرؔ اچھی نہیں ہوتی
پتھر میں بھی کوئی شرارہ ہو سکتا ہے
آج کا مقطع
نہ کرے اے ظفرؔ وہ ہے تو سہی
مہربانی اگر نہیں کرتا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved