تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     12-02-2022

تحریک عدم اعتماد کی کہانی

ورطۂ حیرت میں مبتلا ہوں کہ اپوزیشن کی دم توڑتی سانسیں بحال کیسے ہو گئیں؟ بجھے چراغوں میں ایک دم سے اجالا کہاں سے نمودار ہو گیا؟ مرجھاتے پھولوں میں رنگ کس نے بھر دیے؟ اپوزیشن تو اُس مقہور و معصوم قیدی کی طرح تھی جو سلاسلِ زنداں کو توڑنے پر قادر ہوتا ہے نہ زبان پر لگے تالا کھولنے کی سعی کرتا ہے۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ اپوزیشن کے بھاری بھرکم ہاتھ بھی الزامات کے طوق کو اپنے گلے سے نہیں اتار سکتے تھے مگر اب‘ گمانِ غالب ہے کہ‘ حالات نے کروٹ لے لی ہے۔ اپوزیشن کی صفوں میں بہار کا سماں ہے۔ خوشیوں کی برات چوکھٹ تک آن پہنچی ہے۔ ازلی سیاسی دشمن بھی ایک گھاٹ سے پانی پینے کو تیار دکھائی دیتے ہیں اور پرانے دوست بھی ایک تھالی میں کھانے کو بے تاب ہیں۔ اس سارے قضیے میں حکومت خلافِ معمول بے حد افسردہ، مغموم اور جذباتی نظر آرہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جہاں بھر کا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر رکھ دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ گلہ گزار ہے اوردل کی بھڑاس نکالنے کی آرزومند بھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کس کے خلاف؟ اپوزیشن‘ اتحادیوں پر یا نشانے پر کوئی اور ہے؟ عباس تابش یاد آتے ہیں:
تم کو شکوہ ہے فقط دل کے چلے جانے کا
صاحبو! عشق میں عزت بھی چلی جاتی ہے
اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہی نہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف جوڑ توڑ بھی عروج پر ہے۔ سوال یہ کہ بیٹھے بٹھائے اپوزیشن کی بانہوں میں وہ قوت کہاں سے آ گئی جو تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے ضروری ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جب حکومت نے قومی اسمبلی سے منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل پاس کرایا تھا۔ اپوزیشن سارا زور لگا کر بھی نامراد ٹھہری تھی۔ یہی صورت حال سینیٹ میں بھی رہی۔ اپوزیشن کی اکثریت بادِ مخالف کا ایک جھونکا بھی برداشت نہ کر سکی تھی۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اب اپوزیشن کے پُتلے میں جان کہاں سے آ گئی؟ کیا کوئی مدد کو آن پہنچا؟ کیا حکومت کے سہولت کار اپوزیشن کے ہم قدم ہو گئے؟ کیا شجرِ ممنوعہ کا پھل اپوزیشن نے بھی کھا لیا؟ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ لمحۂ فکریہ ہے ان کے لیے بھی جو جمہوریت کے داعی ہیں اور ان کے لیے بھی جو جمہوریت کی ریل کو پٹڑی پر رکھنے کے متمنی ہیں۔ کہاں گئے جمہوری اصول اور کیا ہوئے بڑے بڑے دعوے؟ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے تلخ ماضی سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔
اپوزیشن سے جب بھی پوچھ جاتا ہے کہ آخر آپ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کیوں لانا چاہتے ہیں تو ان کا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے ملک کو تباہ حال کر دیا ہے۔ معیشت زوال پذیر ہے اور مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ صاحب اقتدار نااہل ہیں اور اناڑی بھی۔ عوام کی برداشت ختم ہو چکی ہے اس لیے حکومت کو گھر بھیجنا ناگزیر ہے۔ ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن کا دعویٰ درست ہے مگر کیا مہنگائی ابھی ہوئی ہے؟ مہنگائی کا عفریت تو عوام کو تین سالوں سے کھا رہا ہے۔ پھر تحریک عدم اعتماد میں اتنی دیر کیوں کی؟ معیشت تو ایک دن کے لیے بھی حکمرانوں کے کنٹرول میں نہیں آئی‘ پھر پہلے اپوزیشن کہاں تھی؟ عوام تو کب سے گریہ کنا ں ہیں مگر اپوزیشن کو یہ آنسو کیوں دکھائی نہیں دے رہے تھے؟ تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کو بدلنے کا آئینی طریقہ ہے‘ اس میں کوئی عیب کی بات نہیں مگر اس بار مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن عوام کی لڑائی نہیں لڑ رہی بلکہ مقتدر حلقوں کی ناراضی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ چوہتر سالوں سے سیاست دانوں کا المیہ رہا ہے کہ یہ ہمیشہ کچھ قوتوں کی خوشنودی کے لیے جمہوری اداروں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ اپنی لڑائی ہو جائے تو سر تسلیم خم کر لیتے ہیں مگر جب بات سیاست کے اصل کھلاڑیوں پر آتی ہے تو یہ لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ بغلیں بجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے منہ پر الزامات کی سیاہی ملتے ہیں۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح نے ایوب خان کو للکارا تو یہ سیاست دان ہی تھے جو جنرل ایوب خان کے آلہ کار بنے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو تقریباً ساری سیاسی جماعتیں جنرل ضیاء الحق کی ہم قدم ہوگئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تو قاف لیگ، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور نجانے کون کون ان کے پہلو میں آن بیٹھا تھا۔ یہی نہیں‘ میمو گیٹ سکینڈل آیا تو میاں نواز شریف کالا کوٹ زیب تن کرکے سپریم کورٹ چلے گئے تھے۔ سیاستدانوں میں دوسروں کی لڑائی لڑنے کی رِیت بہت پرانی ہے۔ کاش! اس مرتبہ یہ کچھ مختلف کر سکتے۔ ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جمہوری ملکوں میں یہ الفاظ کتنے معیوب لگتے ہیں کہ ''اپوزیشن کو اشارہ مل چکا، سیم پیج پھٹ چکا‘ اب حکومت جانے والی ہے، حکومت سیاست دان نہیں کوئی اور چلا رہا ہے، سیاست دان ایک ٹیلی فون کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے وغیرہ وغیرہ‘‘۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ الفاظ تواتر کے ساتھ بولے جاتے ہیں اور کوئی اس کی تردید بھی نہیں کرتا۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے لیے تو سیم پیج پر ہے مگر اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے گا‘ یہ معاملات ہنوز گمبھیر ہیں۔ ایک رائے آصف علی زرداری کی ہے اور دوسری میاں نواز شریف کی۔ زرادری صاحب کی خواہش اور کوشش ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو بنایا جائے اور وزیراعظم مسلم لیگ نون سے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کچھ اور ہی سوچ رہے ہیں۔ پہلے ان کا موقف تھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تحریک انصاف سے ہی ہو یا پھر نیا الیکشن کرا دیا جائے مگر اب انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ہے۔ بقول کسے‘ میاں نواز شریف نے آصف زرداری سے کہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو وزیراعظم بنانے کے خواہش مند ہیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے بجائے مسلم لیگ نون سے ہو۔ زرداری صاحب میاں نواز شریف کی یہ آفر سن کر پہلے حیران ہوئے اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ میر ی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔ میری ذاتی رائے ہے کہ مسلم لیگ نون کسی بھی صورت چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بنانا چاہتی۔ اسی لیے میاں نواز شریف نے خورشید شاہ کا نام لے کر آصف زرداری کو مخمصے میں ڈال دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ نہیں بنیں گے تو پھر وہ حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن کا ساتھ کیوں دیں گے؟ اگر قاف لیگ اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتی تو پھر تحریک عدم اعتماد کیسے کامیاب ہو گی؟ اور اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ خود بخود بکھر جائے گا۔ رہی بات ان ناراض ارکان کی جو حکومت کی کشتی سے چھلانگ لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں‘ تو وہ حکومت سے ناراض نہیں بلکہ آئندہ الیکشن کی فکر میں مبتلا ہیں۔ وہ مسلم لیگ نون سے ٹکٹ کا وعدہ لینے کے متمنی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون سینٹرل پنجاب میں ٹکٹ دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔ وہ بھلا اپنے پرانے ساتھیوں کی ناراضی کیوں مول لے گی؟
اپوزیشن کو چاہیے کہ اپنی سیاست پر دھیان دے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی لڑائی لڑتے وہ اوندھے منہ گر پڑے۔ ممکن ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اگرتحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو حکومت اور مضبوط ہو جائے گی‘ ایسی صورت میں اپوزیشن کا پلان بی کیا ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved