بھارت سے جو خبریں آ رہی ہیں، جومناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، ان پر دِل رو رہا ہے، اور خوش بھی ہے۔ مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے، ہندتواکے علمبرداروں نے جس طرح انکا جینا حرام کررکھا ہے، ان کی جان، مال، عزت اور آبرو کو نشانہ بنا رہے ہیں، انہیں ہندو بنانے پر تلے ہوئے ہیں، جس طرح عدالتوں اور دوسرے ریاستی اداروں پردبائو بڑھا رہے ہیں، انصاف کے حصول کیلئے دروازے کھٹکھٹانے والوں کو جس طرح مایوسی ہورہی ہے، اُس سب پر دِل کورونا ہی چاہیے، اور وہ روبھی رہا ہے۔ جہاں جہاں اور جس جس جگہ یہ خبر پہنچتی ہے، وہاں اگرانسان نام کی کوئی شے بستی ہے، تورنج والم ہی کا اظہار ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں جمہوریت، سیکولرازم اور انسانی حقوق کے علمبردار کسی ملک میں ایسا بھی ہوسکتا ہے، ایسا بھی ہورہا ہے، اور وہ ملک اب تک عالمِ انسانیت کا حصہ ہے‘ اقوام متحدہ کارکن ہے، اور دنیا بھرکو جمہوریت اور سیکولرازم پر درس دینے سے نہیں چوکتا۔ ابھی تک اس کوشش میں ہے کہ سرکردہ ممالک میں اُس کا شمار ہو، اسے سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بنا کر ویٹو کا حق بھی دیا جائے، اُسکا نام امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین کے ساتھ لکھا جائے کہ اُسکی مرضی کے بغیرکسی بین الاقوامی قضیے کو نمٹایا نہ جا سکے۔ اُسکے اس دعوے کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن کوئی اُسے آئینہ دکھانے پربھی تیارنظر نہیں آتا، کسی کو یہ توفیق نہیں ہورہی کہ یہ حقیقت اس پرواضح کرے کہ تمہارا مقام زندہ انسانوں کی جیتی جاگتی بستیاں نہیں، وہ جنگل ہیں جہاں درندے اور حیوان چیرپھاڑ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ دِل خوش اس بات پرہے کہ بھارتی مسلمانوں نے ہار نہیں مانی، پسپائی اختیار نہیں کی، ہتھیار نہیں ڈالے، وہ سرہتھیلی پررکھ کر کھڑے ہیں، اپنے حقوق سے دستبردار ہونے پرتیار نہیں ہیں، اپنے دیس کو بھیڑیوں کے حوالے کرنا انہیں منظور نہیں۔ وہ اپنے دستور کی کتاب اٹھا کر ڈٹے ہوئے ہیں، اوراس میں درج اصولوں کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ دستور جوانہیں برابر کا شہری تسلیم کرتا، اور ہروہ حق دیتا ہے جو دوسرے مذاہب، نسلوں اور رنگوں کے لوگوں کو ملے ہوئے ہیں۔ بھارت کا آئین جمہوریت اور سیکولرازم کے تحفظ کا یقین دلاتا ہے۔ اسکے مطابق مذہب کے نام پرتفریق نہیں ہوسکتی، کوئی ہندو ہو، سکھ ہو، مسیحی یا مسلمان، سب کو آزادی سے رہنے، اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت کے مسلمان پوری طاقت سے اپنی زمین، اپنے دستور اور اپنی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ حجاب اوڑھنے والی طالبہ نے جب حملہ آور جنونیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اور اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر ماحول کو معطر کردیا، تووہ مسلمانانِ ہند کی نمائندہ بند کر ابھری، ان کے عزم کی تصویر بن گئی۔ اس نہتی لڑکی مسکان نے عالم اسلام کو جھنجھوڑ ڈالا ہے، پوری دنیا کے ضمیر کوآواز دی ہے، اور بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کا بھارت پراتنا ہی حق ہے، جتنا جنونیوں اور انتہاپسندوں کا۔ انہیں کمزورنہ سمجھا جائے، وہ اپنے آپ کومنوانا جانتے ہیں، اور منوا کررہیں گے۔ بھارت کے چپے چپے پر مسلمانوں کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔ یہ ملک انتہاپسند ہندوئوں کی ملکیت قرار نہیں دیا جا سکتا، یہاں کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت نسل در نسل یہیں رہتی آئی ہے، کسی دوسرے خطے سے آ کر یہاں نہیں بسی ؎
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
مسکان نے اعلان کردیا ہے کہ مسلمان لوہے کا چنا ہیں، انہیں چبایا جا سکتا ہے نہ نگلا جا سکتا ہے۔ برصغیر جب آزاد ہوا تھا، ہندو اکثریت اورمسلم اکثریت کے دوآزاد ممالک کی صورت میں ڈھلا تھا، تویہ اس بات کا اعلان نہیں تھاکہ دونوں ممالک میں اقلیتیں اکثریتوں کے رحم و کرم پرہوں گی۔ دونوں ممالک کی اقلیتوں کو برابرکا شہری تسلیم کیا گیا تھا، ان کے حقوق وہی تھے، جو اکثریتوں کے تھے۔ آزادی کے بعد ہونے والا لیاقت نہرو معاہدہ بھی اس حقیقت کا مزید اعتراف کرتا ہے کہ دونوں ممالک کی اقلیتوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ کاوش کی جا سکتی ہے۔ اس کے تحت اقلیتوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ کمیشن بنانے پراتفاق کیا گیا تھا۔ یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ بھارت کے مسلمانوں کا تحفظ ریاست پاکستان کی اخلاقی ہی نہیں قانونی ذمہ داری بھی ہے۔ مسکان کی خودداری اور خوداعتمادی کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سلام، اوریہ پیغام بھی کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ برادرِ عزیز محمود شام نے اپنے اشعار سے پورے پاکستان کی ترجمانی کردی ہے؎
گلاب کی وہ پنکھڑی، معاً چٹان بن گئی
جنونیوں کے سامنے اکیلی ہی ڈٹی رہی
کوئی جھجک نہ خوف تھا، یقین ہی یقین تھی
حجاب اس کی سلطنت، حیا مدارِ زندگی
بڑا تو سب سے ہے ''وہی‘‘، صدا یہ گونجتی رہی
غرور اس صدی کا ہے، وہ آبرو ہے قوم کی
یقینا مسکان بیٹی کے نعرۂ تکبیر نے ایک ایک جنونی کو بتا دیا ہے ؎
کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
مانا کہ وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں
بھارت کا یہ منظر پاکستان کے اہلِ سیاست سے بھی کچھ کہہ رہا ہے۔ انہوں نے جو دھینگا مشتی مچارکھی ہے، اور جس طرح ایک دوسرے کیلئے ''ہندتوا کے جنونی‘‘ بنے ہوئے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ اس میں جو چاہے کر گزرے۔ اس ملک کے حصول کیلئے بہت قربانیاں دی گئیں، آج بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں مسلمان بھارت میں بستے ہیں، جتنی تعداد میں پاکستان میں مقیم ہیں۔ گویا ایک پاکستانی کے بدلے ایک بھارتی مسلمان وہاں کی اکثریت نے یرغمالی بنارکھا ہے۔ پاکستان کو صرف اپنی ہی حفاظت نہیں کرنی، بھارتی مسلمانوں کوبھی اخلاقی، سفارتی اور نفسیاتی طاقت فراہم کرنی ہے۔ اگر یہاں ہم ایک دوسرے کا جینا حرام کریں گے، اور ایک دوسرے کی ناک رگڑنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے میں مصروف ہوں گے تو پھر سب ہی کی ناک کٹ کررہے گی۔ خود غرض اور کوتاہ اندیش سیاست ہربات کو ناک کا مسئلہ بنانے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لے۔
ایک دن میں تین صدمے
فروری کے پہلے ہفتے کا آخری دن کئی غم دے گیا۔ عزیز ترین دوستوں میں سے ایک امتیاز انور کی اہلیہ صبیحہ دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں۔ ستر کی دہائی میں لاہور آنا ہوا تونوجوان امتیازانور مسلم لیگی حلقوں کی جان تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال انہیں عزیز رکھتے، انکے والد انور بھٹی ایک بڑے صنعتکار تھے۔ اندازہ تھاکہ مسلم لیگی سیاست میں یہ خوبرو نوجوان اہم کردار ادا کرے گا، لیکن غالباً بھٹوصاحب کی ڈی ویلیوایشن نے انکے برآمدی کاروبار کو متاثرکیا۔ وہ گردش ایام کی لپیٹ میں ایسے آئے کہ سیاست بھول گئے۔ انکی اہلیہ نے رخصت ہوکر گزشتہ نصف صدی کو نگاہوں میں زندہ کردیا۔ اسی دن نامور اور منفرد ناول نگار اور کہانی نویس بشریٰ رحمن بھی رخصت ہوئیں۔ انہوں نے سیاست میں حصہ لیا، کالم نگاری کی، قومی اور پنجاب اسمبلی کی رکن رہیں، اپنے پُرلطف اور پُرمحبت لہجے کی بدولت پنجاب اسمبلی سے ''بلبلِ پنجاب‘‘ کا خطاب پایا۔ ان کی وفات نے ادب و صحافت کے کئی گوشوں کو ویران کردیا۔ اُسی روز حکیم محمد سعید شہید کے داماد، ان کی اکلوتی بیٹی کے شوہر بیرسٹر راشد نسیم بھی دنیا سے رخصت ہوئے تو گلستانِ سعید مرجھا ساگیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کی مغفرت فرمائے، تفصیلی تذکرہ پھر کبھی، اِس وقت تو یوں سمجھیے کہ مختصر الفاظ سے دِل کا بوجھ کچھ ہلکا کرلیا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)