4فروری کی سہ پہر میں ایک بے یقینی کی کیفیت میں لاہور اسلام آباد موٹر وے کے کنارے اٹھارہ فٹ نیچے کچے میں اپنی گاڑی کو دیکھ رہا تھا۔تلہ گنگ کے فرشتہ صفت جاوید صاحب میری مدد کے لیے رکے ہوئے تھے۔ہم دونوںگزرنے والی گاڑیوں کو مدد کے لیے روکنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا‘رکنے کی فرصت کسی کو نہیں تھی ۔ساتھ ساتھ ہم ہیلپ لائن پر بھی کال کرنے کی کوشش کررہے تھے۔کبھی کال ملتی تھی کبھی نہیں ،لیکن کمپیوٹرائزڈ میسج میں جب رابطہ ہوتا تھا تو بتایا جاتا تھا کہ اس وقت آپ سے پہلے پانچ فون کرنے والے موجود ہیں آپ کی کال ـ پانچ منٹ کے بعد ملے گی ، انتظار کریں ۔ انتظار کی تاب نہیں تھی لیکن بس مجبوری ۔ اسی دوران کچھ نوجوان ایک گاڑی میں رکے اور مدد کے لیے آئے لیکن جلد ہی پتہ چل گیا کہ ان کی مدد سے گاڑی کو مٹی کے ڈھیر سے واپس کھینچنا ممکن نہیں ہوگا۔اب واحد راستہ یہی تھا کہ ہیلپ لائن سے کرین منگوائی جائے۔ رکنے والے اپنے راستے پر چلے گئے ۔ویسے بھی یہاں کون ہمارے ساتھ رہتا ہے۔صرف جاوید صاحب کی بڑائی کہ وہ ساتھ رکے رہے۔ اس دوران ہم مسلسل ہیلپ لائن پر اپنے اپنے فون سے کوششیں کرتے رہے ۔ صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر ہم دونوں کی لائن مل گئی ۔ ہم نے آپریٹر کو اپنی لوکیشن اور مسئلہ بتایا، کرین کی ضرورت بتائی اور جلد مدد کی درخواست کی ۔بتایا گیا کہ انتظار کیجیے ۔
انتظارکتنا مشکل کام ہے ،یہ اسی کو پتہ ہے جس کے سینے پر پاؤں دھر کر وقت گزرتا ہے ۔محشر بدایونی نے کہا تھا
اس انتظار سے بھی ہم گزر چکے اب تو
جس انتظار میں انسان مر بھی جاتا ہے
اس شاہراہ ِ امید وناامیدی پر اس وقت میں مجھے کئی پریشانیاں لاحق تھیں۔پہلی تو یہ کہ کیا گھر والوں کو اس کی اطلاع دی جائے؟جن دوستوں نے میرے لیے محفل سجائی ہے اورمیرا انتظار کر رہے ہیں ،انہیں یہ صورت حال بتا کر معذرت کی جائے ؟اور میزبانوں سے ہمیشہ کی شرمندگی کا سامنا کیا جائے ؟جاوید صاحب کو جو واحدقریبی مدد ہیں ،بھیج دیا جائے ؟کیا ہیلپ لائن مدد بھیج دے گی؟ بھیجے گی تو کب تک؟ اگر پولیس آئی اور کھینچنے والی کرین نہ آئی تو کیا ہوگا؟اگر کرین بھی آئی اور گاڑی نہ نکال سکی تو پھر؟میں اس ویرانے میں گاڑی کس طرح چھوڑوں گا؟ گاڑی کے بغیرمیں خود اسلام آباد کیسے پہنچوں گا؟گاڑی نکل کر دوبارہ سڑک پر آگئی اور اس میں انجن کی بھی کوئی خرابی ہوئی تو کیا ہوگا؟یہ وہ خاص مسائل تھے جن کا حل مجھے ڈھونڈنا تھااور فیصلے فوری کرنا تھے۔یاد رہے کہ روز مرہ کی کاروباری ،ذاتی الجھنیں ،فون کالز تو ہر حال میں ساتھ رہتی ہی ہیں ، انہیں غرض نہیں ہوتی کہ آپ کس کیفیت میں ہیں ، سو وہ بھی ساتھ ہی تھیں۔
لگ بھگ پندرہ منٹ کے بعد،جنہیں پندرہ طویل دن کہنا چاہیے ، موٹر وے پولیس کی گاڑی نمودار ہوئی ۔یہ نوجوان جنید اور ادھیڑ عمر سخاوت تھے جن کی ڈیوٹی بلکسر اور نیلا دلہہ کے بیچ تھی۔یہ اہل کار نہیں،خوش اخلاق اور ہمدرد فرشتے تھے ۔جنید نے ساری صورت حال دیکھی اور پوچھی، گاڑی کا جائزہ لیا ،متعلقہ محکمے سے فون پرکرین کی درخواست کی ،جس کا نام ان کی اصطلاح میں ریکوری تھا۔اس وقت میں نے بصد شکریہ جاوید صاحب کو جانے کے لیے کہا ۔ان کانمبر اور پتہ میر ے پاس نہیں اس لیے یہیں ان کا بارِ دگرشکریہ ادا کرسکتا ہوں۔ریکوری پہنچنے میں دس سے بارہ منٹ لگنے چاہئیں تھے۔ ایک اور حادثہ قریب میں ہوا تھا اور وہ لوگ وہاں بھی مصروف تھے۔ان خوش اخلاق اہلکاروں نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا ،تسلی دی اور بار بار فون پر جلد ریکوری کی درخواستیں کرتے رہے ۔ میں نے اس دوران ان سے اپنے تجسس کے مطابق موٹر وے کے بارے میں معلومات لینی شروع کیں،تو بعض نئی باتیں پتہ چلیں۔ایم 2 کا آغاز1998میں ہوا تھا۔اس وقت اس پر گزرنے والی گاڑیوں کی تعداد محض ہزاروں میں تھی ۔اب 2022میں ان گاڑیوں کی تعداد بیس پچیس گنا بڑھ چکی ہے۔( بتائے ہوئے اعداد و شمار مجھے یاد نہیں رہے )لیکن پولیس کی نفری اتنی ہی ہے چنانچہ مصروفیت بھی اسی تناسب سے بہت بڑھ چکی ہے‘ اس لیے اہلکاروں میں لازماً اضافہ ہونا چاہیے ۔ میں نے پوچھا کہ ہیلپ لائن پر اتناہجوم کیوں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ملک کے تمام موٹر ویز کا کالنگ نیٹ ورک ایک ہی ہے ۔ تمام کالز وہاں جاتی ہیں اور وہاں سے اپنے اپنے متعلقہ سٹیشن بھیجی جاتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ کہ تمام موٹر ویز کا ہیلپ لائن نمبر ایک ہی رہے خواہ وہ ملک بھر میں کسی بھی جگہ ہو۔یہ بات تو قابل فہم ہے لیکن اس کی وجہ سے جو تاخیر ہوتی ہے وہ مناسب نہیں ہے ۔ کسی حادثے میں کوئی مر جائے ، خدا نخواستہ سخت تکلیف میں ہو تو وہ کتنی بار کال کرے اور کتنی دیر تک انتظار کرے؟ اس لیے فوری شنوائی کے لیے آپریٹرز کی تعداد بڑھانی چاہیے ۔ اگر میری یہ تحریر کسی صاحب اختیار کی نظر سے گزر رہی ہے تو براہ کرم یہ مسئلہ فوری حل کرے۔
دو رسے ریکوری وین آتی دکھائی دی تو میری جان میں جان آئی ۔ وہ دو تجربہ کارلوگ تھے۔ انہوں نے کچھ دیر صورتحال کا جائزہ لیا،گاڑی کے پیچھے لوہے کا رسہ باندھا،مجھے گاڑی میں بٹھا کر سٹیئرنگ ایک خاص زاویے پر رکھنے کی ہدایت کی ۔ان کی یہ کوشش بھی تھی کہ پیچھے کھینچتے وقت میری گاڑی کو مزید نقصان نہ ہو ۔ طاقت ور کرین کے کھینچنے کی دیر تھی کہ تھوڑی دیر میں گاڑی سڑک کنارے پہنچ گئی ۔ ایسا لگا جیسے میں ڈوبتے ڈوبتے کنارے پہنچ گیا ۔میں نے ریکوری والوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں خوش دلی سے کچھ مٹھائی کی رقم پیش کی جو انہوں نے میرے کافی اصرار پر پس و پیش کے بعد لے لی۔میری ممنونیت جنید اور سخاوت صاحب کے لیے زیادہ تھی کہ انہوں نے بہت مدد کی تھی لیکن آفرین ہے ان دونوں پر کہ میرے بے حد اصرارکے باوجود انہوں نے ادھر دیکھا بھی نہیں اور رقم لینے سے صاف انکار کردیا ۔یہ میری خوش دلی کے ساتھ خواہش تھی جس میں ان کا کسی قسم کا تقاضا یا مطالبہ اشارتاـ بھی شامل نہیں تھا، لیکن ان دونوں نے یہی کہا کہ اس کی ضرورت نہیں یہ ہماری ڈیوٹی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ ان کی طرف سے بے لوث اور پوری فکروالی مدد کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کی اس بلندی نے مجھے بہت متاثر کیا۔اللہ انہیں اس کی بہترین جزا دے،آمین۔اگر میری یہ تحریر موٹر وے کے کسی فیصلہ ساز کی نظر سے گزر رہی ہے تو میری درخواست ہے کہ دونوں کو فرض شناسی کے انعام اور اعتراف سے نوازیے،انہوں نے میرا انعام قبول نہیں کیا لیکن وہ حق دار ہیں۔
اس شام میں تاخیر سے اسلام آباد میں عزیزسخن ور دوست نعیم فاطمہ علوی کے گھرمحفل میں داخل ہوتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہم کتنے بھی سخی بن جائیں ‘ دو معاملات میں نہایت بخیل ثابت ہوتے ہیں‘ شکر اور شکریہ ۔ شکر اس خالق کا جو حادثات سے محفوظ رکھتا ہے‘اور شکریہ اس مخلوق کا جو وہ مصیبت میں مدد کے لیے بھیجتا ہے۔ ۔سرکاری اہل کار اگر کام چوری کریں،رشوت مانگیں تو ہمارے شکوے ختم نہیں ہوتے‘ لیکن اگر وہی اہل کار ہمیں کسی مصیبت سے نکال دیں تو ہم سے شکریے اور اعتراف کے دو لفظ ادا نہیں کیے جاتے۔یہ بیماری ہمیںبحیثیت قوم ہے۔سو اے میر ے لوگو! یہ ذاتی روداد میں نے محض اپنا تجربہ اور واقعہ بیان کرنے کے لیے نہیںبلکہ شکر اور شکریے کے لیے لکھی ہے۔میں نے ان دو کالموں کا عنوان کچھ بھی رکھا ہو،اسے شکر اور شکریہ ہی پڑھیے کہ یہی اس کا اصل عنوان ہے ۔