تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     05-08-2013

جب لوگ کسی جنگ کا حصہ نہ ہوں

جیلیں کب ٹوٹتی ہیں۔ کیا کسی نے تاریخ میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ جیل وہ آخری دیوار ہوتی ہے جو حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان مضبوطی سے ایستادہ ہوتی ہے۔ اس کے ایک جانب وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس پورے نظام سے نفرت ہو یا نہ ہو‘ اس کے کسی ادارے یا فرد سے بغاوت کی تاریخ انہوں نے ضرور رقم کی ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے اس نے یہ بغاوت ایک چھوٹا سا قانون توڑ کر ہی کی ہو، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس شخص میں قانون سے بغاوت کا جذبہ ایک چنگاری کی طرح ضرور موجود ہوتا ہے‘ جسے حالات آگ کا الائو بنادیتے ہیں۔ دیوار کے اندر کی یہ آبادی ہرطرح کے باغیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ قانون سے انصاف نہ ملنے پر قاتل بن جانے والوں سے لے کر حالات کے جبر میں گرفتار ہوکر جرم کی دنیا میں قدم رکھنے والے جرائم پیشہ افراد تک سب کے سب جیل کی دیوار کے اندر سرکار کے اختیار‘ رعب اور دبدبہ کے ہاتھوں مجبور اور محبوس زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس دیوار کے باہر پوری قوم ہوتی ہے، جو یہ سمجھ کر سکھ کا سانس لیتی ہے کہ ایسے افراد جیل میں ہیں جن کی وجہ سے ان کی زندگی مشکل بنی ہوئی تھی‘ ان کا جینا دوبھر تھا اور ان کا معاشرہ اذیت کا شکارتھا۔ جیل کی دیوار کی دوسری جانب بسنے والے کروڑوں عوام اور جیل کے باسیوں کے درمیان محبت کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات نفرت کی فضا موجود رہتی ہے۔ جیل کی دیوار اور گیٹ لوہے اور اینٹ کی وجہ سے مضبوط نہیں ہوتے اور نہ جیل کی بلند دیواروں پر بنے میناروں پر چوکس سپاہیوں کی وجہ سے محفوظ ہوتے ہیں؛ بلکہ یہ دیوار کے اس پار بسنے والے کروڑوں افراد کی اس نفرت سے مستحکم اور مضبوط ہوتے ہیں جو وہ جیل کے باسیوں سے کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگوں کی نفرت کا سیلاب اپنا رخ حکومت اور حکمرانوں کی جانب موڑ لیتا ہے، انہیں حکومت اور حکمرانوں سے اس قدر شدید نفرت ہوجاتی ہے کہ ان کا کہا ہوا سچ بھی انہیں جھوٹ لگنے لگتا ہے اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی چھوٹی سے چھوٹی آواز بھی انہیں محبوب ہوجاتی ہے۔ ایسے وقت میں ان کی بددعائیں بڑی عجیب ہوتی ہیں۔ آپ یہ بددعائیں روزمرہ کے عذابوں کی شکار خواتین کی زبان پر عام طورپر اور مردوں کی زبان پر مزید تلخی کی صورت میں دیکھتے ہیں: ’’ان حکمرانوں کو موت پڑے، انہیں کوئی بلا نگل جائے، کسی طاعون کا شکار ہوں، کوئی زلزلہ ان سے ہماری جان چھڑائے‘ انہیں کوئی سیلاب بہاکر لے جائے‘‘ وغیرہ۔ یہی وہ غصہ اور آگ ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی جلوس، ریلی یا مظاہرہ ہوتا ہے اور اس میں شامل بپھرے ہوئے لوگ فٹ پاتھ توڑتے، سٹریٹ لائٹ تباہ کرتے، سرکاری دفاتر کو آگ لگاتے یا کسی بھی سرکاری تنصیب کو نشانہ بناتے ہیں تو کسی کو ذرا سابھی رنج وملال اور دکھ نہیں ہوتا۔ کوئی افسوس کے دوبول بھی نہیں بولتا بلکہ بعض دفعہ اس تباہی وبربادی پر لوگوں کو چین ملتا ہے ، دل کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ کسی حکومت، حکمران بلکہ بعض دفعہ ریاست کی ریاست اس نفرت کا نشانہ بن جاتی ہے۔ اس کا حیران کن اظہار پاکستان کے لوگوں نے اس وقت کیا تھا جب گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے طیارے ٹکرارہے تھے۔پورا ملک ٹیلی ویژن کھولے بیٹھا تھا لیکن نہ کوئی آنکھ اشکبار تھی اور نہ کسی کے دل میں رنج وملال تھا بلکہ اکثریت نفرت سے بھری ہوئی تھی۔ نفرت کے اس عالم میں ہم امریکہ کی جنگ کو اپنے گھر لے آئے اور توقع رکھتے ہیں کہ لوگ اس میں ہمارا ساتھ دیں۔ لوگوں کی نفرت کا سیلاب یا آتش فشاں کا کھولتا ہوا لاوا جب حکمرانوں کی جانب منہ کرلیتا ہے تو پھر جیل کی دیواریں بے معنی ہوجاتی ہے۔ جیل کے اندر بسنے والے خواہ مجرم ہوں یا بے گناہ ، نظریات کی جنگ لڑرہے ہوں یا ذاتی دشمنی میں قید‘ سب کے سب باہر کے کروڑوں عوام کے ساتھ ایک معاملے میں مشترک ہو جاتے ہیں۔ ایک جذبہ ان کو اکٹھا نہ بھی کرے‘ انہیں ایک دوسرے کے لیے قابل نفرت نہیں بناتا اور وہ جذبہ ہوتا ہے حکمران اور حکومت سے بغاوت کا جذبہ۔ جیل کی اس دیوار پر کھڑے محافظ کو لوگ ایک روبوٹ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اور اس کے بیوی بچے بھی اسی ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں جو حکومت سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ وہ اسی آٹا دال کے بھائو سے رشتہ رکھتا ہے اور اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے اسے رشوت لینی پڑتی ہے۔ اس کا رشتہ حکومت سے محبت کا نہیں بلکہ نفرت کا ہوتا ہے جو اس کی ضروریات کا خیال نہیں کرتی اور اسے قیدیوں بلکہ حکومت کے باغیوں کے سامنے رشوت کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں۔ اسے بھی اپنے ارگرد بددیانتوں کے غول کے غول نظر آتے ہیں جو اس پر حکمرانی بھی کر رہے ہوتے ہیں‘ اسے لوٹ بھی رہے ہوتے ہیں اور اسے دیانت داری کا درس بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس دکھ اور المیے میں اس محافظ اور عام آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دونوں ایک ہی شدت سے اس پورے نظام اور حکومت سے نفرت کر رہے ہوتے ہیں جس نے ان کی زندگی اجیرن کی ہوتی ہے اور جس کے لیے ان کے پاس بددعائوں کے سوا کچھ باقی نہیں ہوتا۔ یوں نہ یہ دیوار اصل میں وجود رکھتی ہے اور نہ اس پر کھڑے چوکس محافظ‘ سب کے سب ایک ہی غصے کے الائو اور ایک ہی نفرت کے آتش فشاں میں اُگل رہے ہوتے ہیں۔ اس ریت کی دیوار کے باوجود اس ملک میں بہت سے ’’عظیم‘‘ دانشور یہ سوال اٹھاتے پھرتے ہیں کہ جیل کیسے ٹوٹ گئی‘ حکومتی رٹ کہاں ہے‘ یہ سب ملی بھگت ہے۔ کچھ کا غصہ عوام پر نکلتا ہے کہ یہ دہشت گردی کی جنگ میں تقسیم کیوں ہیں۔ حکمران طبقہ یہ جنگ بے دلی سے لڑ رہا ہے۔ ہم کو متحد ہو کر یہ جنگ لڑنی چاہیے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں کسی قوم پر کوئی جنگ مسلط کی ہی نہیں جا سکتی جسے وہ دل سے اپنی جنگ نہ سمجھے۔ آج یہ اس ملک کے کوچہ و بازار میں گھوم کر دیکھ لیں‘ اکثریت اس جنگ سے خود کو لاتعلق سمجھے گی یا پھر کھل کر کہے گی یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ لیکن چند کالم نگاروں‘ سیاسی دانش وروں اور امریکہ کے محتاج حکمرانوں کے نزدیک یہ ہماری جنگ ہے۔ ہم نے اسے لڑنا ہے۔ کبھی زمینی حقائق پر غور کر لیں‘ پھر ہوش سے سوچیں کہ ہم نے اس ملک کو اس جنگ میں کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بنے۔ فوج کے جوان اور پولیس کے سپاہی بھی۔ لوگ ان کی تصویریں گھروں میں کیوں نہیں لگاتے۔ دھماکوں میں مرنے والوں کا ماتم صرف چند روز ہوتا ہے‘ وہ بھی ان کے اعزہ و اقربا یا ٹی وی چینل کرتے ہیں۔ کیا یہ قوم اس سے لاتعلق نہیں‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سامراجی دور کے عدالتی نظام سے تنگ لوگ دو ہزار روپے فیس دے کر اپنے فیصلے قریب ہی موجود طالبان سے کروا رہے ہیں اور ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ کسی شاعر‘ نغمہ نگار‘ گیت کار‘ کہانی کار یا بڑے ادیب نے ان لوگوں کا نوحہ تحریر کیوں نہیں کیا جو اس جنگ میں کام آئے۔ میرے عظیم دانشور کہتے ہیں‘ لوگ خوف سے ایسا نہیں کرتے۔ چلیں مان لیتے ہیں‘ تو پھر ایک خوفزدہ قوم کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیں۔ آپ اس قوم کو اگلے سو سال تک بھی قائل نہیں کر سکتے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کی جنگ ہے۔ قوم آج بھی دس سال پہلے والے مقام پر ہے جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرنے پر خوش ہو رہی تھی۔ یہ جنگ اگر آپ فوج اور پچاس ٹی وی چینلوں سے جیتنا چاہتے ہیں تو اس قدر ناعاقبت اندیش اور کوئی نہ ہوگا۔ امریکی تھنک ٹینکوں‘ چند عظیم دانشوروں اور امریکہ کے زیر اثر حکمرانوں کے کہنے سے جنگ اس قوم کی جنگ نہیں بن سکے گی۔ ہاں‘ آپ کہتے ہیں کہ یہ قوم خوف زدہ ہے تو پھر خوف زدہ قوم کے ساتھ زندہ رہنا سیکھئے۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہر خوف زدہ قوم جس سے نفرت کرتی ہے اس کی موت کا تماشا ضرور خوش ہو کر دیکھا کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved