ہندوستان میں انگریز حکمرانِ اعلیٰ پہلے گورنر جنرل کہلاتا تھا‘ 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد وائسرائے کہلانے لگا۔ وائسرائے کا لفظی مطلب ''نائب السلطنت‘‘ ہے یعنی بادشاہ کا نمائندہ۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار ملکہ برطانیہ نے لے لیا‘ اور اپنی بادشاہت کی نشانی کے طور پر وائسرائے لگایا جو پورے ہندوستان کا حاکم تھا۔ اس کی مراعات خاصی تھیں مگر وہ آڈیٹر جنرل کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا تھا۔ جیسے ہی وائسرائے لگا، ساتھ ہی کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل بھی لگا دیا گیا۔ سر اَیڈورڈ، ڈرمنڈ (Sir Edward Drummond) پہلا شخص تھا جو اس منصب پر فائز ہوا۔ اس کے پاس برطانوی ہند کے اکاؤنٹس تھے اور آڈٹ کا فریضہ بھی سرانجام دیتا تھا۔ وائسرائے کی مجال نہ تھی کہ اس کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ کرے۔ آڈٹ کے ایک ایک اعتراض کا وائسرائے کو اور وائسرائے کی حکومت کو جواب دینا ہوتا تھا۔
آج کے پاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔ یوں لگتا ہے ملک پر عملاً آئی ایم ایف کا اختیار ہے۔ بجٹ کیسے بننا ہے؟ ٹیکس کتنے لگانے ہیں؟ بجلی کا نرخ کیا مقرر کرنا ہے؟ سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھانی ہیں یا نہیں؟ بڑھانی ہیں تو کتنی؟ عوام کو سبسڈی دینی ہے یا نہیں؟ پٹرول کی قیمت کتنی معیّن کرنی ہے؟ یہ سب فیصلے بظاہر تو ہماری حکومت کرتی ہے مگر سننے میں آیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایات اور احکام کے مطابق! عالمی اقتصادی ادارے کے نمائندے وفاقی دارالحکومت میں بارہ مہینے موجود رہتے ہیں۔ ان کے باقاعدہ دفاتر ہیں! موجودہ گورنر آئی ایم ایف کے اٹھارہ سال باقاعدہ ملازم رہے ہیں۔ وہ اس سے پہلے مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندہ کے طور پر تعینات تھے۔ آپ کے علم میں ہے کہ چند روز پہلے ہی پارلیمنٹ میں قانون پاس ہوا‘ جس کی رُو سے سٹیٹ بینک خود مختار ادارہ قرار دے دیا گیا ہے۔ سینیٹ میں ایک رکن نے حکومت سے پوچھا کہ گورنر سٹیٹ بینک کی تنخواہ اور دیگر مراعات کیا ہیں؟ حکومت نے جواب دیتے ہوئے جو تفصیل بتائی وہ مندرجہ ذیل ہے: گورنر کی ماہانہ تنخواہ پچیس لاکھ روپے ہے۔ اس تنخواہ میں ہر سال دس فی صد اضافہ ہو گا یعنی دوسرے سال یہ تنخواہ ساڑھے ستائیس لاکھ ہو جائے گی۔ تیسرے سال تیس لاکھ پچیس ہزار ہو جائے گی۔ فرنشڈ یعنی ساز و سامان سے آراستہ گھر دیا جائے گا۔ اس کی مرمت بھی سر کاری ہو گی۔ گھر نہ لینے کی صورت میں اس کے کرایہ کے برابر رقم ہر ماہ دی جائے گی۔ دو گاڑیاں دی گئی ہیں۔ ایک اٹھارہ سو سی سی۔ دوسری سولہ سو سی سی۔ دونوں گاڑیوں کے لیے دو ڈرائیور بھی دیے گئے ہیں۔ ہر گاڑی کے لیے چھ سو لٹر پٹرول دیا جانا ہے۔ بچوں کی پڑھائی کی فیسوں کا بھی پچھتر فی صد دیا جانا ہے۔ بجلی، گیس پانی مفت ہو گا۔ اگر جنریٹر چلانا پڑا تو اس کے ایندھن کا خرچ بھی سرکار کے ذمے ہو گا۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، لینڈ لائن سب مفت ہوں گے۔ گورنر صاحب گھر کے لیے چار ملازم رکھ سکتے ہیں۔ اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ فی ملازم سرکار دے گی۔ چوبیس گھنٹے سکیورٹی گارڈز کی سروس مفت مہیا کی جائے گی۔ کلب کی ممبرشپ فیس سرکار دے گی۔ اس کے علاوہ کلب کا ماہانہ بل بھی سرکار ادا کرے گی‘ یعنی کلب میں ان کے اور اہل خانہ کے کھانے پینے، کھیل، تیراکی وغیرہ کے اخراجات سرکار ادا کرے گی۔ حکومت نے یہاں یہ وضاحت نہیں کہ ان ماہانہ اخراجات کی کوئی حد ہو گی جس کا مطلب ہے کہ یہ اخراجات غیر محدود ہوں گے۔ گورنر اور اہل خانہ کو مفت علاج کی سہولت میسر ہو گی۔ گورنر صاحب ہر ماہ تین اضافی چھٹیوں کے اہل ہوں گے۔ ہر سال، ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر، یعنی پچیس لاکھ روپے گریجوایٹی کے طور پر ادا کئے جائیں گے۔ ٹرانسفر کی صورت میں تمام اہل خانہ سمیت، ہوائی ٹکٹ دیا جائے گا اور سامان کی منتقلی کا خرچ بھی۔ تین سالہ ملازمت کے خاتمے پر چھ ماہ کی تنخواہ اضافی ملے گی‘ یعنی ہر سال دس فی صد بڑھنے کے بعد تیسرے سال تنخواہ تیس لاکھ پچیس ہزار ہو گی۔ اس حساب سے چھ ماہ کی تنخواہ ایک کروڑ اکیاسی لاکھ پچاس ہزار بنے گی۔ یہ رقم تین سالہ ملازمت کے اختتام پر الگ دی جائے گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسی مراعات ملتی رہیں گی جو سٹیٹ بینک کا بورڈ منظور کرے گا۔ یاد رہے کہ بورڈ کے چیئرمین خود گورنر صاحب ہی ہیں!
میں سمجھتا ہوں کہ جو مرتبہ اس وقت گورنر سٹیٹ بینک کا ہے، اس کے لحاظ سے یہ مراعات کم ہیں۔ وہ اُس عالمی ادارے کے نمائندہ ہیں جس کے ہاتھ میں اس وقت ہماری اقتصادی رگِ جاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قومی بجٹ سے لے کر بجلی کے نرخ تک، ہر مالی اختیار اس وقت اسی عالمی ادارے کے ہاتھ میں ہے۔ اس تناسب سے گورنر صاحب کی اہمیت، عملاً وہی ہے جو تقسیم ہند سے پیشتر وائسرائے کی ہوتی تھی۔ ایک پہلو سے دیکھا جائے تو ان کا اختیار انگریز وائسرائے سے بھی زیادہ ہے۔ وائسرائے آڈیٹر جنرل کے احکامات، قواعد اور ضوابط کا پابند تھا مگر سٹیٹ بینک کے گورنر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دائرۂ کار اور دائرۂ اختیار سے باہر ہیں۔ مندرجہ بالا تنخواہ اور مراعات بہت کم ہیں۔ اس ضمن میں میری پُر خلوص تجاویز مندرجہ ذیل ہیں:
1: پچیس لاکھ کے بجائے ماہانہ تنخواہ پچاس لاکھ کی جائے۔
2: ہر سال دس فی صد اضافہ اس منصب کی توہین ہے۔ سالانہ اضافہ کم از کم پچاس فی صد ہونا چاہیے۔
3: فرنشڈ یعنی سازوسامان سے آراستہ گھر گورنر صاحب کے نام کر دیا جائے یعنی ان کی مستقل ملکیت میں دے دیا جائے اور اسے ان کا ذاتی گھر قرار دیا جائے۔ ہاں مرمت کے اخراجات حکومت بے شک ادا کرتی رہے۔
4: اٹھارہ سو اور سولہ سو سی سی گاڑیاں مذاق ہیں۔ ایک گاڑی مرسڈیز ہو اور دوسری بی ایم ڈبلیو۔ ملازمت سے فراغت پر دونوں گاڑیاں بے شک ساتھ لے جائیں۔
5: چھ سو لٹر پٹرول کی حد ہٹا کر غیر محدود پٹرول کی اجازت دی جائے۔
6: نہ صرف سو فی صد فیسیں، بلکہ بچوں کی تعلیم کے مکمل اخراجات سرکار برداشت کرے۔ اس میں بیرون ملک تعلیم بھی شامل ہو۔
7: کچن کے روزمرہ کے تمام خراجات بھی ادا کیے جائیں۔
8: چار ملازموں کی حد حقیقت پسندانہ ہرگز نہیں۔ باورچی، ویٹر، بٹلر، ڈرائیور، مالی،گیٹ کیپر، خاکروب، دھوبی،حجام، بچوں کی آیا، چوبدار اور جنریٹر چلانے والا، یہ کُل بارہ ملازم بنتے ہیں۔ احتیاطاً پندرہ ملازم رکھے جانے کی اجازت ہو۔
9: ایک قیام گاہ مری یا نتھیا گلی میں مہیا کی جائے۔
پس نوشت۔ بزنس ٹو ڈے بھارت کا ٹاپ کا بزنس میگزین ہے۔ اس کا نو اکتوبر 2020 کا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کے مرکزی بینک (ریزرو بینک آف انڈیا) کے گورنر کی ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ستاسی ہزار روپے ہے۔ اس میں مہنگائی الاؤنس بھی شامل ہے۔ اندازہ لگائیے! ہمارے ملک کے مقابلے میں بھارت کی پوزیشن کتنی کمزور ہے۔ یہ بات باعث فخر ہے کہ ہماری ناک اونچی ہے۔