ہم میں سے کتنے ہیں ، جو رمضان المبارک کے آخری ایّام میں اپنے گریبانو ںمیں جھانک سکیں ؟ قرآنِ کریم سوا ل کرتا ہے : تم وہ بات کیوں کہتے ہو ، جو کرتے نہیں ؟ محشر میں پہنچے شیخ تو اعمال ندارد جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد یہ ہولناک ہوسِ اقتداراوریہ انا پسندی ، غلامی کی صدیوں نے مسلم برصغیر کو کس درجہ لاچار اور محتاج کر دیا ہے ۔ سیاست اتنی پست کہ خدا کی پناہ۔ درماں سیاستدانوں سے نجات نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر جدید سیاسی جماعتوں کی تعمیر ہے ۔ وہی بات جو کنفیوشس نے کہی تھی : اچھے لوگ اگر سیاست میں نہیں آئیں گے تو ادنیٰ ان پر حکومت کریں گے ۔ شرکتِ اقتدار کے لیے حضرت مولانا فضل الرحمٰن تو اس قدر بے تاب ہیں کہ سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا ۔ دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے 2003ء میں میاں محمد نواز شریف سے جدّہ میں ملاقات ہوئی تو وہ مولوی صاحب کانام سننے پر آمادہ نہ تھے ۔ کل تک بھی نہ تھے مگر آج مکمل مفاہمت ہے۔ عالی جناب نے ارشاد کیا کہ ان کی پارٹی اور مسلم لیگ کا ایجنڈہ ایک ہے ۔ جی ہاں ، قائد اعظم کی پارٹی اور جمعیت علمائِ ہند کے وارثوں کا مقصود اب مشترک ہے ۔کیا یہ اتحاد تحریکِ انصاف کے خلاف نہیں ، ووٹ کی قو ت سے جس نے انہیں پست و پامال کر دیا؟ تاویل میں کمال رکھنے والے مولوی صاحب نے اپنے عزائم چھپانے کی کوشش کی مگر چھپا نہ سکے کہ مدّعا عمران خان کو صوبے میں اقتدار سے محروم کرنا یا کم از کم پیہم دبائو کا شکار رکھنا ہے ۔ ایک ذہین اخبار نویس ایکسرے کا کام کرتاہے ۔ یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف ترجیحات کے تعین سے محروم تحریکِ انصاف نے کوئی تیر نہیں مارا مگر میاں صاحب نے مرکز میں کون سا کارنامہ انجام دیا ہے؟ امریکی ایجنڈے کے مطابق بھارت اور افغانستان سے گہرے مراسم کے لیے وہ بے چین ہیں وگرنہ ایک کے بعد دوسرا سکینڈل۔ شائستگی کا وعظ کرنے والے مولانا صاحب سے پوچھا گیا کہ عمران خان کے باب میں ان کا لہجہ اتنا زہریلا کیوں ہے تو ارشاد کیا: وہ یہودیوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ دلیل کیا ہے ؟فرمایا: فضل الرحمٰن ایسا ذمہ دار آدمی یہ بات کہتاہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ذمہ دار آدمی؟ پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی عمران خان کا رویہ بھی زیادہ مختلف نہیں۔ مولوی صاحب کی طرح من گھڑت الزامات وہ عائد نہیں کرسکتے مگر ہمیشہ ہتک اور تحقیر سے ان کا ذکر کرتے ہیں ۔ دوسروں پر غلبے کی آرزو غالباً وہ بدترین انسانی جبلت ہے ، جس نے معاشروں کو فساد کے حوالے کیے رکھا۔ امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: نفس اسی چیز کا ارتکاب کرتاہے ، جس کا اسے عادی بنا دیا جائے۔ وحشی نہیں تو ہمارے اکثر لیڈرگنوار لازماً ہیں۔ درویش نے کہا تھا : دو چیزیں آدمی کبھی نہ سمجھ پائے گا، مصطفیؐ کے مقامات کس قدر ہیں اور نفسِ انسانی کے فریب کتنے بے شمار۔ غالباً اسی لیے ارشاد ہوا کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ ۔ جس نے خود کو جان لیا، اس نے خدا کو پا لیا۔ اللہ کو پانے کی مگر کسے آرزو ہے۔ آدمی نظر اٹھا کر دیکھتا ہے اور دنگ رہ جاتاہے ، جس مبارک ہستی کو پروردگار نے خیرہ کن فضیلتوں کا مجموعہ بنایا، شب و روز کی حیات میں ان کے معمولات کیا تھے ؟ عام آدمی کا لباس، وہی ایک عام عرب کا سا کھانا پینا۔ گلیوں میں وہ پیدل چلا کرتے ، جہاں بچے ان کی طرف لپکتے اور کوئی بوڑھی عورت راستہ روک لیتی ۔ ایک بار خود ارشاد کیاتھا: اے اللہ ، تو جانتاہے کہ میں ایک غلام کی طرح اٹھتا بیٹھتا اور ایک غلام کی طرح کھاتا پیتا ہوں ۔ خطبے کے پورے الفاظ یاد نہیں ۔ اٹھارہ سال قبل پہلی بار جب پڑھا تو ایک طوفان دل ودماغ میں اٹھا تھا۔ مغرب کے زیرِ اثر عزتِ نفس کا ایک احمقانہ تصور ہم نے تراش لیا ہے ۔ رحمتہ اللعالمینؐ کی تعلیم تو یہ ہے کہ بالا،برتر اور مضبوط وہ ہے ، جو معاف کر سکتاہو۔ ہم انتقام کی خو رکھتے ہیں اور امن کی آرزو پالتے ہیں ۔ ہم سب ، اس پیمبرؐ کے امّتی ، مستقل جو دعا کیا کرتے : اے اللہ مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑاکردے ۔ جذبات کی اس فراوانی کے ساتھ تہذیبِ نفس کے دعوے؟ بیالیس برس ہوتے ہیں ، طالب ِ علم مولانا امین احسن اصلاحی کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوںنے غالبؔ کو یاد کیا۔ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا مولانا فضل الرحمٰن نے اس انٹرویو میں ’’انگریز کے شاگردوں‘‘ کا ذکر کیا۔ اس سے علمائِ دیو بندکی مراد قائد اعظمؒ کے قبیلے سے ہوتی ہے ۔ ان لوگوں نے اقبالؔؒ کو معاف کیا اور نہ قوم کے باپ کو۔ تعجب نہ ہونا چاہیے کہ بائیں بازو کے دانشور ان لوگوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ سبھی عام لوگ اچھے ہوتے ہیں ۔ کسی بھی دوسرے مکتبِ فکر کی طرح ، ایک عام دیو بندی کسی سے کم محب وطن نہیں ہوتا مگر کانگرس کے ہم نوا دیو بندی علما کا ایجنڈہ مذہبی نہیں ، سیاسی ہے ۔ آخری تجزیے میں سپاہِ صحابہ ، تبلیغی جماعت اور جمعیت علمائِ اسلام کی منزل ایک ہے ۔ آغا شورش کاشمیری نے اپنی خود نوشت میں واقعے کی تفصیل لکھی ہے ، جب 1946ء میں الیکشن کے ہنگام قائد اعظم ؒ کو کافرِ اعظم کہنے والے مولانا مظہر علی اظہر نے کانگرس سے روپیہ وصول کیا۔ جواں سال اور مقبول خطیب ، سادہ اطوار عطا اللہ شاہ بخاری کے دل و جان سے نیاز مند تھے ۔ سری نگر میں شاہ جی کو مطلع کیا گیا۔ لوٹ کر لاہور آئے ۔ آغا صاحب نے لکھا ہے کہ روداد سن لینے کے بعد شاہ جی کے آنسو نہ تھمتے تھے ۔ روتے اور یہ جملہ دہراتے رہے : تم نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی ۔ اور بھی توجہ طلب حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے انٹر ویو کا وہ حصہ ہے ، جس میں انہوںنے بڑے پیمانے کی دھاندلی کا ذکر کیا ۔ دو نکات پر انہوں نے زوردیا۔ اول یہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے سوچ سمجھ کر منصوبہ بنایا اور ملک کے مختلف حصے مختلف پارٹیوں کے حوالے کر دئیے ۔ ثانیا ًسپریم کورٹ سے ہرگزہرگز وہ کوئی امید نہیں رکھتے۔ عمران خان سمیت بہت سے لوگ الیکشن میں دھاندلی پہ واویلا کر رہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمٰن کا نقطۂ نظر سب سے زیادہ سخت ہے ۔ اگر اسی پر توہینِ عدالت کی کارروائی ہے تو کیا مولوی صاحب کے خلاف بھی ہوگی ؟ کہنے کو کہا جاتاہے کہ انصاف میں امتیاز، انصاف کو قتل کر ڈالنے کے مترادف ہے لیکن ہمارا شعار کیا ہے ؟ تعصبا ت کے طوفان اور خود پسندی میں جو معاشرے عدل کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ، کس درجہ وہ لاچار ہو جاتے ہیں ۔ قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو کہ ہم توپابہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے وہ معبودِ حقیقی کس کو یاد ہے ، جس کا فرمان یہ ہے : کسی گروہ کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کرے ؟ وعظ ہم سب کرتے ہیں اور عمل میں سب کورے ۔ ہم میں سے کتنے ہیں ، جو رمضان المبارک کے آخری ایّام میں اپنے گریبانو ںمیں جھانک سکیں ؟ قرآنِ کریم سوا ل کرتا ہے : تم وہ بات کیوں کہتے ہو ، جو کرتے نہیں ؟ محشر میں پہنچے شیخ تو اعمال ندارد جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved