یہ بھی ایک عجیب ہی تعلق ہے۔ انسان اپنے خونی رشتوں میں وہ سکون اور وہ راحت نہیں پاتا جو اُسے دوستی کے بندھن میں ملتی ہے۔ ہر انسان اپنے دل کی بات دوستوں سے کہتا ہے۔ بیشتر معاملات میں دوست ہی دل کی بات سنتے اور رائے سے نوازتے ہیں۔ ہر دور کے انسان نے زندگی کو زیادہ پُرسکون اور راحت افزا بنانے کے لیے دوستوں کا سہارا لیا ہے۔ دوستوں کی معاونت سے بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور کامیابی بھی یقینی بنتی رہی۔ فی زمانہ انسان زیادہ الجھا ہوا ہے۔ حقیقی دوستی اب محض خواب و خیال کا معاملہ ہوتی جارہی ہے۔ اس کا سبب کچھ ایسا پیچیدہ بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ہم ورچوئل ماحول کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر حقیقی تعلق کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ سمارٹ فون اور کمپیوٹر سکرین نے عام آدمی کو حقیقی تعلقات سے بہت دور کردیا ہے۔ لوگ ملنے جلنے سے کترانے لگے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ گھر سے یا تو بالکل نہیں نکلتے یا پھر جتنا بھی وقت باہر گزارتے ہیں اُس کے لیے کوئی باضابطہ منصوبہ سازی نہیں کرتے۔ دوست ہوں بھی تو اُن کے ساتھ مل بیٹھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی جاتی۔ اگر کہیں چار‘ پانچ دوست جمع ہوں تو تقریباً سبھی سمارٹ فون کی سکرین سے چمٹے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی پوسٹس آتی رہتی ہیں اور اِنسان اُن کے کنویں میں اترتا جاتا ہے۔ یہ عمل اب ہمارے تحت الشعور کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم محفل میں ہوتے ہیں مگر محفل میں نہیں ہوتے۔ بقول شاعر ؎
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
دوستی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ جو چیز بہت کچھ دیتی ہے وہ بہت کچھ مانگتی بھی ہے۔ اس کائنات کا یہی اصول ہے۔ ہم‘ آپ سبھی اس کائنات کا حصہ ہیں۔ جو کچھ طے کردیا گیا ہے وہ سب کے لیے ہے اور تمام معاملات کے لیے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کے لیے کچھ الگ اصول ہیں اور باقی کائنات کے لیے کوئی الگ نظام۔ انسان‘ دیگر مخلوقات، شجر و حجر سب ایک نظام کا حصہ ہیں۔ سنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ جتنا گڑ ڈالیے اُتنا میٹھا۔ محبت پانے کے لیے محبت کرنا لازم ہے۔ اچھا سلوک درکار ہے تو اچھا سلوک کیجیے۔ اگر کوئی مثالی نوعیت کی دوستی چاہتا ہے تو اُسے خود بھی مثالی نوعیت کے خلوص کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ اگر دوسروں سے کچھ چاہیے تو اُنہیں بھی بہت کچھ دینے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ یہ دوستی تو نہ ہوئی‘ خالص سودے بازی ہوئی۔ بے شک دنیا کا کوئی بھی معاملہ الف سے یے تک سودے بازی ہی ہے۔ ایرک برنز کی تحقیق اور دعوے کے مطابق دنیا کا کوئی ایک بھی معاملہ ایسا نہیں جسے ہم سودے بازی یا لین دین سے ہٹ کر کچھ قرار دے سکیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام معاملات خود غرضی کے مظاہر ہیں۔ کچھ دو اور کچھ لو کا معاملہ لازمی طور پر لالچ کا عکاس نہیں۔ ہم سب ایک ہی فطرت پر خلق کیے گئے ہیں۔ جو کچھ دوسرے چاہتے ہیں ویسا ہی ہم بھی چاہتے ہیں۔ ہم سب کی عمومی سوچ یکساں نوعیت کی ہے۔ ہاں! ذاتی دلچسپی اور موزوں تربیت کی مدد سے ہم اپنے افکار و اعمال کو معتدل رکھ پاتے ہیں۔ یہی کیفیت بیشتر معاملات میں ہو تو زندگی معیاری انداز سے بسر ہوتی ہے اور ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے خیر کا اہتمام کر پاتے ہیں۔ دوستی کا معاملہ بھی لین دین ہی کا ہے مگر یہ لین دین قدرے مہذب ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ دوسروں کے کام آتے رہیں اور کبھی یہ توقع نہ رکھیں کہ کوئی آپ کی بھی مدد کرے۔ ضرورت پڑنے پر اگر دوسروں کو مدد کی ضرورت پڑسکتی ہے تو آپ کو بھی پڑسکتی ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آپ تو اوروں کے کام آتے رہیں اور کوئی آپ کے کام نہ آئے۔ یہ لازم نہیں کہ آپ ہر نیکی یہ سوچ کر کریں کہ اس کے عوض کچھ نہ کچھ حاصل ہو مگر ہاں! اتنا ضرور ہے کہ آپ اپنی نیکیوں کے بدلے اللہ سے جزا چاہتے ہیں۔ یہ جزا کس شکل میں ہو‘ یہ طے کرنا آپ کا کام نہیں۔ یہ خالق کی مرضی کا معاملہ ہے۔ وہ ہمیں ہماری نیکیوں کا بدلہ جس شکل میں دینا چاہے‘ دے۔ ہمیں اپنی ہر نیکی کے حوالے سے معقول ترین جزا کی توقع رکھنی چاہیے۔ اس میں کسی بھی اعتبار سے کچھ غلط نہیں۔ البتہ خالص کاروباری انداز کی سوچ رکھنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
دوستی کا اصل حسن اس بات میں ہے کہ اخلاص کا مظاہرہ کیا جائے اور اُس کے صلے کے حوالے سے‘ خواہش کے باوجود‘ بے نیاز ہوا جائے۔ اگر یہ وصف نہ پایا جائے تو پھر جسے دوستی کہا جارہا ہے وہ تعلق اور کچھ ہوسکتا ہے‘ دوستی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہم عمومی سطح پر تعلقات کو اُس مقام تک لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جہاں کچھ لو اور کچھ دو کی کیفیت پیدا ہو۔ ہم اپنے ہر عمل کا کچھ نہ کچھ صلہ چاہتے ہیں۔ منطقی طور پر یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں مگر جب ہم ہر معاملے کو اس چوکھٹ پر قربان کرنے لگتے ہیں تب بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ خونی رشتے اُس وقت خونیں ہو جاتے ہیں جب تمام معاملات کو لین دین کی سطح پر لاتے ہوئے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کام ہونے لگتا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جسے ہم لین دین کی عمومی سطح یا خالص تاجرانہ ذہنیت سے دور رکھتے ہوئے بھی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ قریبی رشتوں اور تعلقات میں ایسا ہی ہونا چاہیے‘ مگر ہوتا نہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چھوٹی عمر سے معقول تربیت نہیں دی جاتی۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں یا جو کچھ اُنہیں سکھایا جاتا ہے۔ ماحول بچوں کے ذہن پر بہت تیزی سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر انہیں بات بات پر یہ سکھانے کی کوشش کی جائے کہ ہر معاملے میں صرف اور صرف صلے یا معاوضے کی توقع رکھنا چاہیے تو وہ بڑے ہوکر یہی ذہنیت بروئے کار لاتے ہیں۔
انسان اپنی سرشت سے باز نہیں رہ سکتا مگر جینے کا مزہ تب ہے کہ انسان اپنی سرشت کو خرابیاں پیدا کرنے کے عمل سے روکے، خالص تاجرانہ ذہنیت کو ہر معاملے پر منطبق نہ کرے اور بہت کچھ ایسا بھی کرے جو بظاہر کسی معاوضے کے لیے نہ ہو۔ ایسی حالت میں قلب و ذہن کو عجیب سا سکون ملتا ہے۔ دوستی کا سارا مزہ اِسی بات میں ہے کہ ہم بظاہر کسی صلے یا معاوضے کی توقع نہ رکھیں۔ کسی بھی انسان کے لیے دوست ایک بہت بڑا اور حقیقی سہارا ہوتا ہے۔ ایک ایسا سہارا جو مصیبت کی ہر گھڑی میں اِس طور کام آتا ہے کہ یقین بھی نہیں آتا۔ کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ جب آپ کسی پریشان کن لمحے کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تب معاونت کا حصول یقینی بنانے کے لیے ذہن کے پردے پر سب سے پہلے دوست ابھرتے ہیں۔ یہ دوست ہی تو ہوتے ہیں جو انتہائی مشکل گھڑی میں آپ کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔ لازم نہیں کہ کوئی آپ کی مالی مدد کرے تبھی آپ کے دل کو سکون میسر ہو۔ کوئی حوصلہ دے‘ ڈھارس بندھائے تب بھی من کی مراد برآتی ہے۔ زندگی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے اور بہت کچھ چاہتی بھی ہے۔ دوست بھی زندگی ہیں۔ وہ بھی ہمیں بہت کچھ دیتے ہیں اور ہم سے بھی بہت کچھ چاہتے ہیں۔ ہاں! دوستی میں کچھ کہا نہیں جاتا۔ بہت کچھ اپنے طور پر سمجھنا ہوتا ہے۔ کسی کو مدد درکار ہو تو وہ دوستوں سے کچھ نہیں کہتا اور وہ سمجھ جاتے ہیں۔ یہی دوستی کا سب سے بڑا کمال ہے۔
زندگی ہر سطح پر ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ اس نعمت کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ انسان اخلاص کے حامل تعلقات کا حامل ہو۔ زندگی کا ہر معاملہ لین دین کی ذہنیت سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہمیں بن مانگے ملتا ہے اور اِس کے جواب میں ہمیں بھی کچھ ایسا کرنا چاہیے جو کسی نے نہ مانگا ہو مگر ہمارا ضمیر کہتا ہو کہ دیجیے۔ دوستی ایسا تعلق ہے جو زندگی کے خاکے میں اخلاص کے رنگ بھرتا ہے۔