تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     15-02-2022

جلسۂ تقسیم ِاسناد

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔ پہلے ایک طالب علم اور پھر معلم کی حیثیت سے ہم تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں میں تقسیم اسناد و انعامات کے جلسے دیکھتے چلے آرہے ہیں؛ تاہم بھلا ہو جنابِ وزیراعظم کا کہ اُن کے طفیل پہلی مرتبہ ہمیں سیاسی جلسۂ تقسیم اسناد دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ جنابِ عمران خان نے مکتبِ سیاست میں بھی نرالے اصول متعارف کرائے ہیں۔ حکما کا کہنا ہے کہ اگر آپ کوئی منصوبہ زیر عمل لانا چاہ رہے ہیں تو اس کے سارے پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لیں‘ مستقبل میں جھانک کر منصوبے کے مثبت اور منفی نتائج کا حتی المقدور اندازہ لگائیں اور اس شعبے کے ماہرین کے ساتھ اسے زیر بحث لاکر اسے اذنِ گویائی دیں مگر خان صاحب اس طرح کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔ وہ بہ آوازِ بلند سوچتے اور پھر پبلک جلسوں میں اپنے خیالات کا برملا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلتا ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں دینا‘ پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنا اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا ممکن نہیں۔
فلموں‘ گانوں‘ بینکوں اور درسگاہوں کی پرفارمنس جانچنے کا ایک نپا تلا طریق کار موجود ہوتا ہے جس سے آپ ٹاپ ٹین کا پتا چلا سکتے ہیں؛ تاہم کوچۂ سیاست بڑا پُرپیچ ہے۔ یہاں وزارتوں کی پرفارمنس معلوم کرنے کا کوئی سائنٹیفک پیمانہ موجود نہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ کس بقراط نے وزارتِ مواصلات سے لے کر وزارتِ اطلاعات تک اور وزارتِ خارجہ سے لے کر وزارتِ مذہبی امور تک سب کی کارکردگی ناپنے کا یکساں فارمولا ایجاد کیا اور جناب وزیراعظم نے غالباً گہرے غوروفکر کے بغیر اسے نافذ بھی کردیا۔
کسی حکومت کی پرفارمنس جانچنے کا اگر کوئی ایک فارمولا ہو تو وہ صرف اور صرف یہ کہ اس وزارت یا محکمے کے بارے میں عوام کیا کہتے ہیں۔ جس وزیر کو ٹاپ ٹین میں نمبرون کا ایوارڈ ملا ہے ان کے بارے میں رائے عامہ یہ ہے کہ انہوں سابقہ حکومت کی زیر تکمیل سڑکوں پر اپنی حکومت کے بورڈ آویزاں کیے ہیں۔ وزیر موصوف کی آمد سے قبل موٹروے کا جو ٹال 300 روپے تھا اب 1300 روپے ہوگیا ہے۔ اسی طرح وزیر صاحب نے ڈاک کے ٹکٹ دوگنا مہنگے کر دیے ہیں۔ محو حیرت عوام پوچھتے ہیں کہ کیا جناب مراد سعید کو ہمارے مصائب میں ناقابلِ برداشت اضافہ کرنے پر ایوارڈ دیا گیا ہے؟ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ آسمان کی بلندی تک پہنچی ہوئی مہنگائی پر لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں اور جناب عمران خان وزیروں میں حسن کارکردگی کی اسناد تقسیم کررہے ہیں۔
ٹاپ ٹین میں سے اسد عمر‘ شیریں مزاری اور کسی حد تک ثانیہ نشتر کے علاوہ باقی وزرا کو کس کارکردگی کا اعزاز ملا ہے۔ چوتھے نمبر پر آنے والے وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے بڑا غلغلہ برپا کیا تھا کہ انہوں نے تمام انگریزی و اردو میڈیم سکولوں میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کردیا ہے جبکہ آن گرائونڈ صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری پرائمری سکولوں میں انگریزی نصاب بزورِ شمشیر نافذ کیا گیا ہے۔ یہ وہی انگریزی میڈیم ہے جو میاں شہباز شریف نے اپنے ایک سابقہ دورِ حکومت میں پنجاب کے سکولوں میں رائج کیا تھا۔ اس انگلش نصاب کی بنا پر پنجاب کے دیہی سکولوں میں لاکھوں طلبہ فیل ہوئے اور لاکھوں سکولوں کو چھوڑ کر سٹریٹ چلڈرن بن گئے۔ جنابِ عمران خان تو اُٹھتے بیٹھتے انگریزی پر نکتہ چینی کرتے اور اردو کے گن گاتے رہتے ہیں۔ عالمی اور پاکستانی ماہرین تعلیم بچوں کو اپنی مادری یا قومی زبان میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ ''یکساں نصاب‘‘ کی اس ادھوری کوشش کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں میں وہی غیرملکی نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ حکومتی نصاب کی ایک آدھ نمائشی کتاب کلاسوں میں دکھاوے کے طور پر لگا دی جاتی ہے باقی سب کچھ پرانا ہے۔
کیا معصوم پاکستانی طلبہ و طالبات پر یونہی آئے روز طرح طرح کے تجربات کیے جاتے رہیں گے؟ اسی طرح جناب شفقت محمود کے زمانے میں یونیورسٹیوں کی گرانٹس اور اُن کے ریسرچ فنڈز روک دیے گئے ہیں۔ کیا وزیر موصوف کو شعبہ تعلیم زیروزبر کرنے پر ٹاپ ٹین میں چوتھا نمبر دیا گیا ہے؟ خسرو بختیار صاحب کی پہلی وزارت میں چینی کا سکینڈل سامنے آیا تھا اور اب کسانوں کو یوریا کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ یوریا کی جو بوری اڑھائی‘ تین ہزار میں ملتی تھی وہ گزشتہ دنوں بلیک مارکیٹنگ میں آٹھ‘ نو ہزار روپے میں بکتی رہی ہے۔ اس پر انہیں تعریفی سند نہیں‘ جرمانہ کیا جانا چاہئے تھا۔ اسی طرح جناب فخر امام وزیر خوراک ہیں‘ اُن کے دور میں ''پاکستانی اناج گھر‘‘ کو باہر سے ناقص گندم منگوانا پڑی۔ اس کے علاوہ خوراک کا ایک بہت بڑا حصہ یہاں پیدا کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے بھاری نرخوں پر درآمد کیا جارہا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر عوام کو کمرتوڑ مہنگائی کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ کیا اس پرفارمنس پر وزیر خوراک کو ایوارڈ دیا گیا ہے؟ پریشان حال عوام پوچھتے ہیں کہ وزیر خوراک کو کس حسنِ کارکردگی پر ایوارڈ دیا گیا۔
وزیر داخلہ کی حیثیت سے شیخ رشید کی کارکردگی ساری دنیا کے سامنے ہے۔ سارے ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی حالت ناگفتہ بہ ہے جبکہ دارالحکومت اسلام آباد میں روز ڈاکے پڑ رہے ہیں اور شہری لٹ رہے ہیں۔ جن وزرا یا مشیروں کو ایوارڈ نہیں دیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی کارکردگی ناقص ہے۔ ناقص پرفارمنس والوں میں وزیر دفاع پرویز خٹک‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ وزیر خزانہ شوکت ترین‘ وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اطلاعات فواد چودھری شامل ہیں۔ فواد چودھری حکومت کے دفاع میں وہ قرض بھی اتارتے رہتے ہیں جو اُن کے ذمے واجب الادا نہیں۔ وزیراعظم کے بیان کردہ فلسفے کے مطابق جزاو سزا کا اصول ہونا چاہئے۔ جن دس وزرا کو ایوارڈ دیا گیا ہے انہیں تو اچھی کارکردگی کی جزا مل گئی۔ اب جناب عمران خان یہ بھی اعلان فرما دیں کہ ناقص کارکردگی والوں کو وہ کیا سزا دیں گے؟
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب حکومت کی کشتی بیچ منجھدار ڈول رہی ہے اس وقت 53 میں سے صرف 10 کو ایوارڈ کا مستحق گرداننا اور باقیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ دینا پارٹی کے لیے نقصان کا موجب ہوگا۔ ایوارڈ یافتہ اور نان ایوارڈ یافتہ کی تقسیم اب حکومت میں ہر جگہ نظر آئے گی۔ اتحادی جماعتوں کے وزیروں میں سے کسی کی کارکردگی معیاری شمار نہیں کی گئی۔ ایسی تقسیم تو اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔
مختلف وزارتوں کے بارے میں حکومت کے بیانات اور ٹاپ ٹین کی فہرست میں بڑا دلچسپ تضاد ہے۔ ایک طرف حکومت کا کہنا ہے کہ وزارتِ خزانہ کی کارکردگی بڑی شاندار ہے مگر وہ ایوارڈ کے مستحق نہیں گردانے گئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اپنے طور پر زبردست بھاگ دوڑ کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر وہ بھی ٹاپ ٹین میں نہیں آئے جس پر انہوں نے اپنا تحریری احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔
وزرا کی کارکردگی جانچنے کا معیار کیا تھا؟ اس سوال کا حکومت یا وزیراعظم کے مشیر شہزاد ارباب کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ حقیقی پرفارمنس جانچنے کا مسلمہ اصول تو یہ ہے کہ پہلے وہ فارمولا بیان کیا جائے جس پر کارکردگی کو پرکھا جائے گا۔ پھر ہر وزارت کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے تب پتا چلے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ ''خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گِلِ کوزہ‘‘ کے مرتب کردہ نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔
خان صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ تقریبِ تقسیمِ انعامات کھیل کے اختتام پر منعقد کی جاتی ہے۔ اللہ نہ کرے ‘کیا کھیل ختم ہوچکا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved