مذاکرات شروع کرتے ہوئے داد و تحسین کے لیے ایک ہاتھ سے بجائی جانے والی تالی کی صدا کبھی بھی اتنی بلند نہیں سنائی دی گئی تھی۔یہ ہاتھ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کا ہے جو گزشتہ چند ایک ماہ کے دوران مشرق ِ وسطیٰ کا چھ مرتبہ دورہ کر چکے ہیں تاکہ اسرائیل اور فلسطین کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ جب مذاکرات میں شامل افراد اسرائیلی وزیرِ قانون و انصاف ٹیزیپی لیونی(Tzipi Livni) اور فلسطین کی طرف سے صائب ایرکات(Saeb Erekat) ہاتھ ملا رہے ہوں تو پھر ان مذاکرات کے نتائج پر شک کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ تل ابیب سے لے کر ٹوکیو تک کے سیاسی ماہرین فریقین کے درمیان حائل وسیع خلیج دیکھتے ہیں۔ ان مذاکرات میں اگر رجائیت کا واحد پہلو نظر آتا ہے تو یہ ہے کہ دونوں فریق جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ کئی عشروں کی جنگ ، جبر اور تشدد کے بعد دونوں طرف کے عام شہری اب امن اور چین کی فضا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے کچھ ’’اصولوں ‘‘ پر سمجھوتہ ہی کیوںنہ کرنا پڑے۔ کارلو سٹنگر ایک اسرائیلی اخبار’’حارظ‘‘(Haaretz)میں شائع ہونے والے اپنے تازہ کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔’’امریکی انتظامیہ میں کوئی بھی ان مذاکرات پر گرمجوشی کا اظہار نہیں کررہا ہے۔ اسرائیلی کے سیاسی حلقوںمیں بھی یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ مسٹر اُوباما کی طرف سے خصوصی نمائندے مارٹن انڈیک(Martin Indyk) نے بھی مایوسی کا اظہار کرے ہوئے کہا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں کسی پر امن تصفیے تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس خونی کشمکش سے اسرائیلی بھی اتنے ہی تنگ ہیں جتنے فلسطینی۔ ان کو اب احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ زبردستی قبضے کی ایک قیمت چکانا پڑتی ہے اور یہ کہ اب یورپی یونین ان پر پابندیاں لگانے والی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسرائیلی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ہو سکتا ہے کچھ اسرائیلی اس بات کو سمجھ رہے ہوں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو فلسطینی انٹر نیشنل کریمنل کورٹ میں چلے جائیںگے ۔ اس صورت میں اسرائیل کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ان کی طرف سے مزید بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ بہت سے مبصرین اس بات پر حیران ہیںکہ جب مشرق ِ وسطیٰ اس قدر خانہ جنگی کا شکار ہے تو ان حالات میں اوباما انتظامیہ نے ان مذاکرات کے لیے اس قدر سیاسی سرمایہ کاری کیوں کی ہے؟اس کا جواب شاید یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کا مصر یا شام پر بہت کم اثر و رسوخ ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ امریکہ فوجی امداد کی مد میں مصر کو سالانہ 1.5 بلین ڈالر ادا کرتا ہے۔ اگرچہ اس وقت مصری فوج نے اقتدار سنبھالا ہوا ہے لیکن امریکہ بہت محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے تا کہ مصر میں امریکی مداخلت کا تاثر نہ چلا جائے۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن پر زور دینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صدر اُوباما نے پہلی مدت کے دوران مشرق ِ وسطیٰ میںقیام ِ امن کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بات، اگرچہ نظرانداز کردی جاتی ہے، ہم سب کو یاد ہو گا کہ اُنہوںنے حلف اٹھانے کے فوراً بعد مصر کادورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے سامنے اس بات کاوعدہ کیا تھا کہ مشرق ِ وسطیٰ کی خونی کشمکش کا خاتمہ کرنا اُن کی ترجیح ہے۔ تاہم پہلی مدت کے دوران مسلمانوں کو یہ دیکھ کر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اسرائیل پر مطلوبہ دبائو نہیں ڈال سکے ۔ اس وقت بھی بہت سے مبصرین قیام ِ امن کے راستے میں حائل مشکلات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے مغربی کنارے کو خود سے ایک دیوار کے ذریعے جدا کر لیا ہے ۔ اس دیوار نے فلسطین کی طر ف سے حملہ کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اس صورت ِ حال کو مستقل حل قرار دیا جا سکتا ہے۔ چناچہ اسرائیل اس علاقے کو کھونے کے لیے کیوں تیار ہو گا جسے اُس نے 1967 فتح کیا تھا؟ ایک اوربات، اسرائیلی بھی دنیاکے بہت سے دیگر ممالک طرح یکساں رائے نہیں رکھتا ۔ وہ اسرائیلی ، جو منظور شدہ سرحدوںکے اندر رہتے ہیں، اکثر توسیع پسندی کی پالیسی کوناپسند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مغربی کنارے کے پاس رہنے والے وہ لوگ (یہودی) ہیں جو دنیا کے مختلف حصوںسے صرف سستے گھروں پر قبضہ کرنے کے لیے آگئے ہیں اور اب ان کی حفاظت کے لیے حکومت کو سکیورٹی فورسز کو چوکس رکھنا پڑتا ہے۔ اُنہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ مزید بستیاں تعمیرکرنے کے لیے توسیع پسندی کی پالیسی نے اُنہیں عالمی طور پر تنہا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان کی معیشت پر ایک بوجھ بھی ہے۔ ایک اور بات جس کی دنیاکے مسلمان ممالک میں بہت کم تفہیم کی جاتی ہے ، یہ ہے کہ زیادہ تر آباد کار دائیں بازو کے انتہا پسند گروہ Zionists سے تعلق رکھتے ہیںجبکہ عام یہودی ، جو شروع سے یہاںآباد ہیں، لبرل اور سیکولر سوچ رکھتے ہوئے مذہبی عصبیت سے آزاد ہیں۔ ان نظریاتی اختلافات کی موجودگی میں یہ بات زیادہ حیران کن نہیںہے کہ زیادہ تر اسرائیلی ’’دوقومی نظریے ‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔۔۔ (پاکستانی قارئین کے لیے عرض ہے کہ یہاںدوقومی نظریے سے مراد یہودیوں اور فلسطینیوںکے لیے الگ ریاستوں کا قیام ہے) تاہم بہت سوں کو شک ہے کہ اگر فلسطینی باشندوں کے لیے الگ ریاست قائم بھی کردی جاتی ہے تواس سے بھی امن قائم نہیںہوگا۔ اس شک کی وجہ وہ راکٹ حملے ہیں جوغزہ کی طرف سے اُس وقت بھی جاری رہے تھے جب اسرائیلی آباد کار اور فوجی علاقہ خالی کر گئے تھے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ طرفین کی صفوں میں موجود انتہا پسند مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اسرائیل میں بہت سے گروہ ہیںجن کا دعویٰ ہے کہ فلسطین کی تمام تر سرزمین پر صرف یہودیوں کا ہی حق ہے ، چناچہ کسی اور قوم کو یہاںرہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دوسری طرف فلسطین میں بھی یہ سوچ رکھنے والوںکی کمی نہیں ہے کہ اسرائیل کا ان کی سرزمین پر قبضہ غیر قانونی ہے اور یہ کہ فلسطین کو ایک نہ ایک دن اُن علاقوں پر قبضہ کرنا ہے جہاں سے انہیں 1948 ء میں بے دخل کیا گیا تھا۔ ان نظریات کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگراس شورش زدہ سرزمین پر امن کا قیام ممکن بنانا ہے تو طرفین کو انتہا پسندانہ رویے ترک کرنا ہوں گے۔ حماس گفتگو کے لیے راضی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس پر ریفرنڈم کرا لیا جائے۔ نتن یاہو بھی یہی چاہتے ہیں۔ لیے گئے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اگر دوقومیتوںکی بنیاد پر کوئی معقول فارمولہ وضع کیا جاتا ہے تو دونوں طرف سے لوگ اس کی حمایت کریںگے۔ اس خطے کے سیاسی اور جغرافیائی حالات بھی اسرائیل کو گفتگو کے لیے مجبور کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ فلسطینی باشندوںکی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کیونکہ ان کی شرح ِ پیدائش فزوں تر ہے۔ چناچہ خدشہ ہے کہ اگر اُنہیں الگ ریاست کے حق سے محروم بھی کر دیا گیا تو بھی وہ آبادی میں یہودیوں سے آگے نکل جائیںگے۔ انتہا پسند یہودیوں کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ ان کی ریاست میں کسی اور قوم کی تعداد ان سے بھی بڑھ جائے، چنانچہ وہ بھی بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نتن یاہو بھی دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں،چنانچہ ان کا بات چیت پر آمادہ نظر آنا بہت سے انتہاپسندوںکو قائل کررہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس کشمکش کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب نوماہ کے مذاکرات کے بعد کوئی حل نکلے تو بہت سے فلسطینی اس بات پر چراغ پاہوجائیںکہ اسرائیل کو بہت سی رعایت دے دی گئی ہے۔ تاہم اُنہیں اپنے اور اسرائیل کے درمیان پائے جانے والے سیاسی اور فوجی فرق کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا چاہیے۔ بہت دیر سے باقی دنیا کے مسلمان یہ خواہش رکھتے ہیں کہ فلسطینی اپنی جدوجہد جاری رکھیں لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انہوںنے نسل در نسل اذیت اٹھائی ہے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا ہے۔ اب اُنہیں امن اور استحکام اور سب سے بڑھ کر ، اپنی ریاست کی ضرورت ہے۔ ہو سکتاہے کہ اُن کی ریاست کی سرحدیںاب وہ نہ ہوں جو 1967 ء میں تھیں لیکن اب کچھ دو کچھ لو پر اکتفا کیے بغیر چارہ نہیںہے۔ ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر مذاکرات کے اس عمل کو سبوتاژ کر دیا گیا تو پھر طویل عرصے تک امریکہ اس ضمن میںکوئی کوشش نہیںکرے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved