تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-02-2022

یہی تو قدرت کا نظام ہے

طاقت کا کھیل ہے ہی ایسا کہ بیشتر کی سمجھ میں آیا ہے نہ آئے گا۔ اور جو کوئی بھی اس کھیل کو کسی حد تک سمجھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اُس کی باقی زندگی اِسے برقرار رکھنے یا پھر اِس حوالے سے سوچنے ہی میں گزرتی ہے۔ ہر دور میں چند ریاستیں انتہائی طاقتور ہوکر باقی سب کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ بعض ریاستیں تو طاقت کے نشے میں چُور ہوکر دوسروں کا جینا حرام کرنے پر تُل جاتی ہیں۔ ایسا ایک‘ دونہیں، متعدد بار ہوا ہے۔ طاقت کے مراکز تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ پانچ صدیوں کی تاریخ کھنگال دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ یورپ ہی میں طاقت کے مراکز کئی بار تبدیل ہوئے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب مغرب میں روم کی سلطنت سپر پاور تھی اور مشرق میں سب کچھ فارس (ایران) کی مرضی کے تابع تھا۔ تب بھی بہت سوں کو ایسا لگتا تھا کہ ان دونوں کی طاقت میں ابھی کئی صدیوں تک کمی واقع نہ ہوگی اور کوئی بھی انہیں چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوگا مگر پھر یہ ہوا کہ دونوں کی طاقت میں کمی آنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے لیے تباہی کا سامان ہوا۔ تباہی کا سامان عرب کے مسلم لشکروں کی شکل میں کیا گیا۔ اسلامی عساکر نے دونوں سپر پاورز کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ انتہائی شمال میں روس اور اس سے ملحق خطوں نے صدیوں تک شاندار انداز سے حکومت کی۔ روس کا بھی ایک زمانہ تھا۔ اس نے بے مثال قوت کا حصول یقینی بنایا اور گرم پانیوں تک پہنچنے کی تگ و دَو کی۔ اُسے مغربی یورپ کی اقوام کی طرح بھرپور کامیابی تو نہ مل سکی مگر کوئی اور بھی اس پر حکومت نہ کرسکا۔ روس اور اس سے ملحق ممالک آرتھوڈوکسی یعنی رجعت پسند و بنیاد پرست مسیحیت کے گڑھ رہے ہیں۔ اِن علاقوں کے مسیحی دین کی بنیادی تعلیمات کے حوالے سے بہت حسّاس اور شدت پسند ہیں۔
جب مسلم دنیا ترقی و خوش حالی کی بلندیوں کو چھو رہی تھی تب یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ تب ایسا لگتا تھا کہ اب طویل مدت تک یورپ کے لیے ابھرنا دشوار ہوگا مگر پھر یہ ہوا کہ یورپی اقوام نے اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ جہالت اور ذلت کی زندگی کو تج کر علم و فن کو گلے لگانے کی کوشش کی گئی اور یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی۔ یورپی اقوام نے عصری علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت اور پیش رفت یقینی بناکر باقی دنیا کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ جب یورپ اپنے پیروں پر بمشکل کھڑا ہو پایا تھا تب ہندوستان اپنے بہترین دور سے گزر رہا تھا۔ ہندوستان بھر میں اعلیٰ درجے کی تعمیرات اور علوم و فنون میں پیش رفت کا بازار گرم تھا۔ مسلم حکمرانوں کے ادوار میں ہندوستان کچھ کا کچھ ہوگیا۔ تاریخ دانوں کے اندازوں کے مطابق جس وقت انگریزوں اور دیگر یورپی اقوام نے ہندوستان کا رخ کیا اور تجارت کے بہانے اُس پر قابض ہونے کی کوششیں شروع کیں تب عالمی خام قومی پیداوار میں ہندوستان کا حصہ 25 فیصد تک تھا! یورپی اقوام نے ہندوستان کے قدرتی وسائل کی بندر بانٹ شروع کی تو ملک پر زوال آتا چلا گیا۔ اس حوالے سے بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے رکن ششی تھرور نے خاصا کام کیا ہے اور یورپ کی غاصب اقوام کو آئینہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی۔ یورپی اقوام نے عصری علوم و فنون میں فقید المثال پیش رفت یقینی بنائی تو معاشی فوائد بھی حاصل ہوئے اور یوں ان کی طاقت بڑھتی چلی گئی۔ بڑھتے بڑھتے طاقت اتنی بڑھی کہ دو نئی دنیائیں نمودار ہوگئیں۔ ایک طرف مغربی دنیا تھی‘ اور ہے اور دوسری طرف غیر مغربی دنیا۔ مغربی اقوام نے کم و بیش چار صدیوں تک پوری دنیا پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کی ہے۔ اس دوران کمزور اور پس ماندہ ممالک کے قدرتی وسائل کو انتہائی بے دردی اور بے جگری سے جی بھرکے لُوٹا گیا۔
اُنیسویں اور بیسویں صدی کے دوران بھری دنیا میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں تھا جو امریکا اور مغربی یورپ کی غاصب اقوام کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان میں آتا، اُن کے آگے بند باندھتا۔ ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ یورپی اقوام نے اس چڑیا کے پَر نوچ ڈالے اور اِسے نیم مردہ حالت میں ایک طرف پھینک دیا۔ تب سے اب تک وہ ممالک ابھر نہیں سکے جن پر کبھی ہندوستان مشتمل تھا۔ یورپ کی غاصب قوتوں نے بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، افغانستان اور اِن سے ملحق ممالک کے درمیان مستقل نوعیت کے مناقشوں کے بیج بوئے۔ دیکھ لیجیے کہ برِصغیر کے ممالک آج بھی باہم دست و گریباں ہیں۔ بیسویں صدی کے دوران امریکا اور یورپ نے مل کر ایشیا کے بیشتر حصوں، افریقہ، جنوبی امریکا اور دیگر خطوں پر اندھا راج کیا۔ ایک صدی تک کوئی بھی انہیں چیلنج کرنے والا نہ تھا۔ سوویت یونین کی شکل میں روس کے ساتھ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کی چند ریاستیں مغرب کے سامنے کھڑی ضرور تھیں مگر اُن میں وہ بات پیدا نہ ہوسکی‘ جو ہونا چاہیے تھی۔ اس کے نتیجے میں امریکا اور یورپ من مانی کرتے رہے اور دنیا بھر کے خطوں کو پس ماندہ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔
بیسویں صدی کے آخری عشروں کے دوران چین نے اپنے آپ کو مضبوط بنانا شروع کیا۔ روس بھی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے پر مائل ہوا۔ چین نے کم و بیش چار عشروں کی بے مثال محنتِ شاقہ اور منصوبہ سازی کے ذریعے اپنے آپ کو اُس مقام تک پہنچایا ہے جہاں وہ مغرب کو محض للکار ہی نہیں سکتا بلکہ ڈٹ کر اُس کا مقابلہ بھی کرسکتا ہے۔ روس میں یہ خیال بہت شدت سے ابھرا ہے کہ امریکا اور مغربی یورپ کی اجارہ داری اب کسی بھی صورت گوارا نہیں کی جانی چاہیے۔ روسی قیادت چاہتی ہے کہ طاقت کا مظاہرہ کرے۔ کریمیا کے بعد اب یوکرائن پر طبع آزمائی کی تیاری ہے۔ یوکرائن کے بحران نے روس اور مغربی طاقتوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں چین غیر جانبدار رہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چین کے لیے بھی یہ ساکھ کا مسئلہ ہے۔ اُسے کسی بھی مشکل صورتِ حال میں روس کا ساتھ دینا ہی پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی یہ بہت بڑی آزمائش کی گھڑی ہے۔ پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی ہے۔ اُنہیں طے کرنا ہے کہ مستقبل قریب کے کسی ممکنہ بین الاقوامی مناقشے میں وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ روس نے یوکرائن کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ فوجی تعینات کردیے ہیں۔ یورپ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ یورپی قائدین مصالحت کے لیے اُتاؤلے ہوئے جارہے ہیں۔ مسلم دنیا کو جب امریکا گھیر کر مارتا ہے تب یورپ صرف تماشا دیکھتا رہتا ہے۔ جب بھارت پورے خطے میں خرابی پیدا کرتا ہے تب بھی امریکا اور یورپ محض تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اب یوکرائن کے لیے مشکل صورتِ حال پیدا ہوئی ہے تو امریکا اور یورپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے‘ یعنی خرابی اپنے خطے میں یا اِس کے آس پاس نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھے تو کوئی بات نہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان خرابیاں پیدا ہوں تو بھی کچھ غم نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں خرابیاں پنپتی رہیں تو تشویش کی کوئی بات نہیں۔ ہاں! اگر یورپ سے جڑی ہوئی کوئی قوت اپنے پڑوس میں کسی ملک کو للکارے تو سب کو پریشان ہونا ہے۔ مطلب یہ کہ اپنے آنگن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔
یوکرائن پرروسی جارحیت کے آثار پورے مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ امریکا اور یورپ کو یہ سمجھنا ہے کہ اب سب کچھ اُن کی مرضی سے نہیں چل سکتا۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ جب کوئی ریاست یا چند ریاستیں انتہائی طاقتور ہوجائیں تب لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ تب قدرت متحرک ہوتی ہے‘ اپنا کام کرتی ہے۔ ایک بار پھر یہی ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے مقابل کھڑا ہونے کے لیے چین اور روس تیار ہوچکے ہیں۔ چند ہم خیال ریاستوں کے ساتھ مل کر چین اور روس ایک نئے بلاک کی تیاری کر رہے ہیں۔ طاقت کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے۔ ایشیا ایک بار پھر عالمی سٹیج پر اپنا کردار خاصے جاندار اور فیصلہ کن طریقے سے ادا کرنے کی تیاری کرچکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved