تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-08-2013

جان کیری کا دورہ اورپاک امریکہ تعلقات

کسی کو بھی یہ توقع نہ تھی کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے صرف ایک دورہ ٔ پاکستان سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی ڈرامائی بریک تھرو ہوگا یا دودن کی بات چیت اور بحث سے باہمی اختلافات یکسر غائب ہوجائیں گے۔ لیکن جیسا کہ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں سرتاج عزیز اور جان کیری کی متفقہ رائے تھی کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان اور پاکستان کے اعلیٰ حکام بشمول وزیراعظم محمد نواز شریف سے جان کیری کی ملاقات سے دونوں ملکوں کے باہمی دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ اس کا اظہار ان اقدامات سے ہوتا ہے جن پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے۔ ان میں سب سے اہم پاک امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کی بحالی ہے جو گزشتہ تقریباً تین برس سے التواء کا شکار تھے۔ 9/11کے بعد اور خصوصاً افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اور افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کے لیے مددفراہم کرنے کے عوض امریکہ اور پاکستان کے درمیان جو خصوصی تعلقات قائم ہوئے انہیں سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا نام دیا گیا۔ ان تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے دونوں ملکوں نے بات چیت کے جس سلسلے کا آغاز کیا اسے سٹرٹیجک ڈائیلاگ کہتے ہیں۔ اس ڈائیلاگ کے تحت باہمی تعاون اور امریکہ کی جانب سے تکنیکی اور مالی مددفراہم کرنے کے لیے 13شعبوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، صنعت ،زراعت، تعلیم ، صحت ، انسداد دہشت گردی، عورتوں ، بچوں کے حقوق کی حفاظت اور جمہوریت کا فروغ شامل ہیں۔ اب تک اس ڈائیلاگ کے تین دور ہوچکے ہیں۔ آخری دور اکتوبر 2010ء میں ہوا تھا۔ اس کے بعد افغانستان، دہشت گردی خصوصاً ڈرون حملوں پر اختلافات کے باعث پاک امریکہ تعلقات سردمہری کا شکار ہوگئے۔ اس سے سٹرٹیجک ڈائیلاگ بھی متاثر ہوئے۔ اور گزشتہ تین برسوں کے دوران میں اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے جاری رہے لیکن مختلف شعبوں میں تعاون کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ منقطع ہوگیا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے اور مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر امریکی طیاروں کی طرف سے کارروائی کے نتیجے میں تعلقات اور بھی کشیدہ ہوگئے۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے بین الاقوامی تعلقات یا خارجہ پالیسی کی بنیاد نہ تو کسی ملک کے ساتھ دشمنی پر ہوتی ہے اور نہ دوستی پر ۔ بلکہ یہ تعلقات باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ خطے میں گزشتہ دس برس سے جوصورت حال چلی آرہی ہے اور پاکستان کو اندرونی طورپر جن نامسائد خصوصاً اقتصادی شعبے میں حالات کا سامنا ہے، ان کا تقاضاہے کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون قائم کریں۔ اگر یہ کہا جائے کہ باہمی تعاون کے علاوہ دونوں ملکوں کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور ایک عالمی طاقت ہونے کی حیثیت سے اس کے مفادات عالمگیر سطح پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اس وقت اس کے سامنے سب سے اہم اور نازک مسئلہ افغانستان کا ہے جہاں بارہ سال سے طالبان سے برسرپیکار رہنے کے بعد اب اس کے کوچ کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔ اس کے لیے جن سازگار حالات کی ضرورت ہے ، ان کو پیدا کرنے میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے سب سے پہلے امریکہ طالبان کو بات چیت کی میز پر لانا چاہتا ہے اور اس کے بعد اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ اس کے چلے جانے کے بعد افغانستان خلفشار اور خانہ جنگی کا شکار ہونے کی بجائے ایک مستحکم اور پرامن ملک ہوتا کہ خطے کا امن اور سلامتی بھی محفوظ رہے اور مغربی دنیا کے خلاف افغانستان القاعدہ کے دہشت گردوں کا دوبارہ اڈہ نہ بن سکے۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لیے امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی امریکہ کی ضرورت ہے۔ بلکہ بعض شعبے ایسے ہیں جن میں پاکستان کو فوائد کے حصول کے لیے امریکہ کی طرف لازماً رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک شعبہ تجارت کا ہے۔ جان کیری کے دورے سے ایک روز قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور معاشی امور احسن اقبال نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس حقیقت کو بڑی خوبی اور جرات مندانہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے اور اس ضمن میں کوئی اور ملک امریکہ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ خود سرتاج عزیز نے اسلام آباد کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری (FDI)میں امریکہ کا حصہ سب سے بڑا ہے۔ تجارت کے بعد جس شعبے میں پاکستان اور امریکہ کا باہمی تعاون سب سے نمایاں ہے وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ اس تعاون کی کئی جہتیں ہیں۔ صرف ایک جہت یعنی پاکستانی طالب علموں کے لیے امریکی وظیفے ’’فل برائٹ سکالر شپس ‘‘کاپروگرام دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے بڑا ہے۔ جناب احسن اقبال نے بالکل درست فرمایا ہے کہ سائنسی علوم ہوں یا عمرانی، امریکہ کی یونیورسٹیاں سب سے ترقی یافتہ اور بہتر تعلیم کا ذریعہ ہیں۔ اسی لیے اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرز خواہ ان کا تعلق پاکستان سے ہو یا کسی اور ملک سے، امریکی یونیورسٹیاں ان کی پہلی ترجیح ہیں۔ سردجنگ کے زمانے کے پاک امریکی تعلقات دراصل دونوں ملکوں کے محکماہائے دفاع کے درمیان تعلقات تھے۔ کمیونزم کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان کو جوامداد امریکہ سے ملتی تھی، اسی کافائدہ عوام کی بجائے فوجی اور سول نوکر شاہی کو پہنچا ۔ پاکستان کی سیاست پر ان دونوں غیرسیاسی قوتوں نے جو بتدریج غلبہ حاصل کیا، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری اس دور میں پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں سردجنگ کے دوران پاک امریکہ اتحاد کا سب سے اہم کردار ہے۔ لیکن اب پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کی سمت اور فوکس میں تبدیلی آچکی ہے۔ جیساکہ اسلام آباد کی پریس کانفرنس اور اس کے بعد فارن آفس کی طرف سے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ بحال ہونے والے سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا اب تین شعبوں یعنی تجارت، سرمایہ کاری اور توانائی پر فوکس ہوگا۔ ان تینوں شعبوں میں ترقی پاکستانی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان ہی تینوں شعبوں میں ترقی سے منسلک ہے۔ جان کیری کے دورے کے اختتام پر دونوں جانب سے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق آئندہ چند مہینوں میں پانچوں ورکنگ گروپس اپنا کام شروع کردیں گے۔ اور جناب سرتاج عزیز کے بیان کے مطابق آئندہ چھ ماہ کے اندر پاکستان اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح پر سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے تحت باہمی تعاون کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ جان کیری نے اپنے دورۂ پاکستان کو ’’تعمیری اور معیشت‘‘ قرار دیا ہے اور مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی دونوں طرف سے پاک۔ امریکہ تعلقات پر تسلی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ دورہ دونوں ملکوں کے لیے مایوسی کا باعث بھی ثابت ہواہے کیونکہ جو مقاصد پاکستان اور امریکہ اس دورے سے حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ حاصل نہیں ہوئے۔ مثلاً پاکستان ایک عرصے سے امریکہ کے ساتھ ایک فری ٹریڈ ایگری منٹ (FTA)اور سرمایہ کاری کے لیے معاہدہ کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے لیکن امریکہ نے اس سمت پیشرفت پر آمادہ ہونے کی بجائے، دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک سرمایہ کاری فنڈ قائم کرنے کی حامی بھری ہے۔ پاکستان کا یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ بھارت کی طرح، امریکہ پاکستان کے ساتھ سول نیوکلیئرتعاون (Civil Nuclear Cooperation)کی ڈیل کرے لیکن امریکہ نے اس ایشو پر صرف جنوبی ایشیا میں سٹرٹیجک سیٹبلیٹی (Strategic Stability) کے فریم ورک میں اس پر بات چیت کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ ڈرون حملے پاکستان اور امریکی تعلقات میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ جان کیری نے اس پر ایک گول مول بیان دیا ہے جس سے ہم نے یک طرفہ طورپر یہ اخذ کیا ہے کہ ڈرون حملے جلد بند ہوجائیں گے۔ اسی طرح جان کیری چاہتے تھے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان ایجنسی میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں (Safe Haven)کے بارے میں امریکہ اور افغانستان کے جو خدشات ہیں، پاکستان انہیں تسلیم کرے اور انہیں دورکرنے کے لیے شمالی وزیرستان ایجنسی میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، پاکستان نے اس پر معذرت کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے جان کیری کے اس دورے کی کامیابی یاناکامی کو ملے جلے انداز میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔ البتہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں میں اعلیٰ ترین سطح پر یہ پہلا رابطہ ہے جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی لانے میں بے شک ناکام رہا ہے تاہم اس دورے نے تعلقات کو بہتر اور مضبوط بنانے میں ایک بنیاد ضرور فراہم کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved