روس اور یوکرائن کے مابین پائی جانے والی کشیدگی نے دنیا کو عجیب خلفشار سے دوچار کردیا ہے۔ امریکی ادارے نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے حوالے سے یہ خبر جاری کی ہے کہ اُنہوں نے یوکرائن پر حملے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ روس کے لیے یہ وقت بہت نازک اور اہم ہے کیونکہ اُسے باقی دنیا کو بالعموم اور مغرب کو بالخصوص یہ دکھانے کی بے تابی لاحق ہے کہ وہ اب گیا گزرا نہیں اور طاقت جمع کرکے ایک بار پھر فیصلہ سازی کے میدان میں آرہا ہے۔ روس اس بات کے لیے تیار نہیں کہ عالمی سیاست و معیشت میں اُسے مزید نظر انداز کیا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ عالمی نوعیت کے اہم ترین فیصلوں میں اُسے شریک رکھا جائے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دائمی رکنیت کو وہ کافی نہیں سمجھتا بلکہ اِس سے کچھ بڑھ کر چاہتا ہے۔ چین کے ساتھ وہ بھی عالمی اداروں میں فیصلہ سازی کے عمل کا کلیدی حصہ بننا چاہتا ہے۔
افغانستان کا بحران ختم ہونے کی دیر تھی کہ یوکرائن کے بحران نے سر اٹھا لیا۔ روس ایک مدت سے پورے خطے کی فیصلہ کن قوت بننے کی بھرپور کوشش کرتا آیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام معاملات صرف امریکا اور یورپ کے ہاتھوں میں نہ رہیں۔ امریکا اور یورپ بھی اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ عالمی اداروں میں فیصلہ سازی کا اختیار اُنہی کے ہاتھوں میں رہے۔ چین اور روس چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں بڑی اور واضح تبدیلیاں یقینی بنانے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ یوکرائن پر ممکنہ روسی حملے کے پیش منظر میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ خام تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یورپ کے لیے روس سے گیس کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ کئی خطوں کے معاشی معاملات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ یوکرائن پر روس کے حملے کی صورت میں وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا بھی متاثر ہوں گے۔ وسطی ایشیا کے ممالک میدانِ جنگ کے بہت نزدیک ہوں گے۔ جنوبی ایشیا معاشی اور معاشرتی اعتبار سے نشانے پر ہوگا۔ اس خطے میں دنیا کی آبادی کا کم و بیش 40 فیصد آباد ہے۔ یوکرائن پر روسی حملے کی صورت میں کئی خطوں کی معیشت بالعموم اور عالمی معیشت بالخصوص متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ممالک کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
کورونا کی وبا نے دو سال کے دوران پاکستان اور بھارت جیسے کئی بڑے ممالک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ایک طرف بیروزگاری بڑھی ہے اور دوسری طرف افلاس کی شرح کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ قومی معیشت کی گراوٹ اِس قدر ہے کہ اب عشروں تک بھرپور اعتماد کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوگا۔ عالمی وبا کے وارد ہونے سے بہت پہلے ہی سے خرابیاں چلی آرہی تھیں۔ دو برس کی مدت میں مشکلات مزید بڑھی ہیں۔ اب یوکرائن کے بحران نے اضافی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ روس طاقت دکھانے کے فراق میں ہے۔ چین بھی میدان میں آنے کے لیے تیار ہے۔ کسی بڑی جنگ کے آثار بہرحال نہیں؛ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یوکرائن پر روس کی لشکر کشی کی صورت میں امریکا اور یورپ کا ردِعمل کیا ہوگا‘ یہ دیکھنے کے لیے دنیا بے تاب ہے۔ امریکا کی اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ مخمصے میں یورپ ہے۔ یورپ ایک مدت سے نرم قوت کے بل پر چل رہا ہے۔ وہ عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کا زیادہ خواہش مند نہیں۔ تین چار عشروں کے دوران امریکا کا ساتھ دیتے دیتے وہ بہت بدنام ہوچکا ہے اور اُس نے امریکا کے ساتھ کھڑے رہنے کا خمیازہ جانی و مالی نقصان کی صورت میں بھگتا بھی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے یورپ پہلے ہی خاصا پریشان ہے۔ اُسے یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں اس کے معاشی مفادات داؤ پر نہ لگ جائیں۔ یوکرائن پر حملے کی صورت میں اُسے بہت تیزی سے یہ طے کرنا ہوگا کہ امریکا کے ساتھ رہا جائے یا نہیں۔
یوکرائن بحران کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس وقت سب سے زیادہ متحرک یورپی قائدین ہیں۔ فرانس کے صدر‘ جرمنی کے چانسلر اور برطانوی وزیر اعظم کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مصالحت یقینی بنائی جائے، روس کو حملے سے ہر حال میں باز رکھا جائے، چین کو متحرک ہونے سے روکا جائے۔ روس فی الحال کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ برطانوی قائدین کے ساتھ یورپی یونین بھی کشیدگی ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوکرائن کا بحران پاکستان جیسے متزلزل معیشت والے ممالک کے لیے غیر معمولی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ یوکرائن کا معاملہ بہت آگے بڑھنے کی صورت میں مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ قومی معیشت کو کسی نہ کسی طور متحرک رکھنے کی بھرپور کوشش حکومت پر ادھار ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران معیشت کو جو نقصان پہنچا‘ اُس کا تدارک لازم ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا معلوم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی حکومت کااب ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ ایسے میں اُسے زیادہ تیاری کے ساتھ میدان میں آکر غیر معمولی تحرک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دنیا کسی بڑی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ دنیا تو خیر کسی بھی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی مگر جب کوئی بڑی جنگ چھڑتی ہے تو کئی معیشتوں کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے۔ افغانستان کو ایک زمانے تک متعدد ممالک کی معیشتوں کے لیے خطرہ بناکر رکھا گیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں کئی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن کو تاراج کیا۔ ان ممالک کی تباہی و بربادی نے دوسرے بہت سے ممالک کی معیشتوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ کئی ممالک اب تک اپنے آپ کو معاشی طور پر بحال نہیں کرسکے۔ رہی سہی کورونا کی وبا نے پوری کر دی۔ اگر روس نے یوکرائن پر لشکر کشی کی تو چھوٹے ممالک کی معیشتوں کے لیے انتہائی نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ عالمی معیشت متاثر ہونے سے متعدد ممالک کی درآمدات و برآمدات پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے ممالک کے لیے اپنے صنعتی و تجارتی ڈھانچوں کو بھرپور انداز سے کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت‘ تینوں کے لیے حالات خاصے پریشان کن ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اس خطے میں آبادی کا اجتماع ہے۔ خطے کا عام آدمی پہلے ہی بہت پریشان ہے۔ یوکرائن پر روسی حملے سے پیدا ہونے والی خرابی سے رہی سہی کسر پوری ہو جائے گی۔
حکومت کے لیے یہ حقیقی آزمائش کی گھڑی ہے۔ یوکرائن کی صورتِ حال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہر معاشی اور سٹریٹیجک خرابی ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی بات کہلائے گی۔ معاملات پہلے ہی سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔ ایسے میں کسی نئی جنگ کے چھڑ جانے سے کئی خطوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس حوالے سے فوری اور ہمہ گیر نوعیت کی تیاریاں لازم ہیں۔ توانائی اور خوراک‘ دونوں کے ذخائر مطلوب مقدار میں ہونا لازم ہیں۔ پاکستان توانائی کے بحران کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ خام تیل کے بڑھتے ہوئے دام خطرے کی گھنٹی ہیں کیونکہ تیل مہنگا ہونے سے صنعتی یونٹس کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ بجلی کی نجی پیداواری لاگت بڑھنے سے صنعتوں کے لیے مسابقتی میدان میں رہنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ حکومت کو کسی بھی پریشان کن صورتِ حال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ملک میں ضروری دواؤں کی قلت نہیں ہونی چاہیے۔ فوڈ اور انرجی سکیورٹی کا معاملہ ہر حال میں بہترین ہونا چاہیے تاکہ عالمی معیشت کو پہنچنے والے دھچکوں کے شدید منفی اثرات ہمارے ہاں عام آدمی پر مرتب نہ ہوں۔ خوراک اور توانائی کے معاملات ہمارے ہاں پہلے ہی شدید خرابی کی نذر ہیں۔ ایسے میں یوکرائن کے بحران کے شدید منفی اثرات معیشت کو کہیں کا نہ رہنے دیں گے۔ حکومت کو لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی عالمی و علاقائی صورتِ حال پر نظر رکھنا چاہیے۔