ملکی سیاست میں تحریک عدم اعتماد کی گونج ہے، یہ تحریک کامیاب ہو گی یا ناکام؟ اس سوال سے قطع نظر میرے پیش نظر کچھ اور سوال ہیں۔ یہ تحریک کیوں پیش کی جا رہی ہے؟ اس کی ٹائمنگ کیوں اہم ہے؟ امپائر کے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر کے اپوزیشن اتحاد کیا بتا اور جتا رہا ہے؟ اس تحریک کی کامیابی کے لیے اشاروں پر چلنے والی جماعتوں پر تکیہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا کسی کے اشارے پر لائی گئی تحریک 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کی توہین نہیں؟ کیا مسلم لیگ (ن) اپنے قائد کے موقف سے ہٹ گئی ہے یا پھر قائد نے موقف میں نرمی پیدا کر لی؟ کیا حکومتوں کو یونہی کسی کے اشارے پر نکالنے اور کسی کی مدد سے اقتدار میں آنے کا کھیل ختم نہیں ہو گا؟ جو آج ایک حکومت کو نکالنے کے لیے کندھے پیش کر رہے ہیں کل ان کے خلاف جب کوئی کندھا پیش کرے گا تو کیا ہم اسے اچھا سمجھیں گے یا برا؟ میرے نزدیک ان تمام سوالوں سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحریک عوام کے مفاد کے لیے پیش کی جا رہی ہے؟
حکومت نے بدھ کے روز سے پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 12 روپے سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار انتہائی بے رحمی سے ڈرامہ کیا گیا کہ وزیر اعظم نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کر دی‘ لیکن جونہی عوام سکھ کا سانس بھر کر بستر تک پہنچے رات بارہ بجے کے خبرنامے میں اضافے کی خبر شامل کرا دی گئی۔ یہ جو ڈرامے ہو رہے ہیں کیا جناب وزیر اعظم ان سے آگاہ ہیں یا ان کے پیچھے ان کی ٹیم یا کوئی خفیہ معاملات ہیں؟ مجھے تو خفیہ معاملات ہی لگتے ہیں کیونکہ اقتصادی ٹیم کا سربراہ باہر سے مہیا کیا جاتا ہے اور سارے فیصلے وہ اُدھر کے اشارے پر ہی کرتا ہے۔
دراصل اس ملک کا بنیادی مسئلہ ہی خفیہ معاملات ہیں، جو کبھی کسی کو اچانک سے مسند اقتدار پر لا بٹھاتے ہیں اور پھر خود ہی کرسی کھینچنے میں لگ جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے‘ یہ تحریک عدم اعتماد بھی خفیہ معاملات کا ہی کمال ہے۔ یہ تحریک پیش بھی ہوتی ہے یا نہیں، ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔ جناب وزیر اعظم نے ایک بڑا فیصلہ کرنا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ اس فیصلے پر اثرانداز ہونے کے لیے خفیہ معاملات کام کر رہے ہیں۔ یہ تو ہے میرے پہلے اور دوسرے سوال کا جواب۔ تیسرا سوال تھا‘ اپوزیشن امپائر کی غیر جانبداری کے اعلان سے کیا جتانا چاہتی ہے؟ تو جواب صاف اور سیدھا ہے، حکومتی صفوں میں موجود سورج مکھی کے پھولوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اب سورج ڈھلنے کو ہے، اس لیے انہیں اپنی پوزیشن بدلنا یا رخ بدلنا ہو گا۔ مقتدر قوتوں کی مرہون منت جماعتوں پر تکیہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ جنہوں نے یہ تحریک لانے کا ارادہ کیا وہ اپنے پیادے بھی مہیا کریں گے۔ کسی اشارے پر لائی گئی تحریک پر 'ووٹ کو عزت‘ کے نعرے کا سوال سب سے اہم ہے۔ دراصل اس ملک میں خفیہ معاملات کو مضبوط سیاست دان خود ہوا دیتے ہیں اور بعد میں مظلومیت کا رونا روتے ہیں، مقتدرہ اور سیاستدان کے درمیان کوئی لڑائی نہیں، یہ سب سیاست عوام کو دکھانے کی ہے۔ جنہیں ہٹایا جاتا ہے وہ رو دھو کر صبر کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد کیفیت یہ ہوتی ہے کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کس طرح اقتدار میں آئی یہ سب کو پتہ ہے۔ اس سب کے باوجود، میں اس تحریک عدم اعتماد کے کھیل کو برا سمجھ رہا ہوں۔ آج اگر جمہوریت کے علمبردار بنے سیاست دان کسی اشارے پر متحرک ہیں تو کل ان سیاست دانوں کو مکافات عمل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ دراصل سیاست دانوں کا کچھ نہیں بگڑنا، سب خرابی اس ملک اور اس کے نظام کے لیے ہے۔ اگر 74 سالوں سے حکومتیں بنانے اور توڑنے کا یہ چکر اسی طرح جاری رہنا ہے تو 'ووٹ کی عزت‘ کا نعرہ کیوں لگائیں، اگر یونہی باریاں لگانی ہیں تو الیکشن کا جھنجھٹ کیوں؟
تحریک عدم اعتماد تو اس مہنگائی اور بیروزگاری کے عذاب کی وجہ سے آ چکی ہے، اور یہ صرف حکومت کے خلاف نہیں، اس اپوزیشن کے خلاف بھی ہے۔ آج 12 روپے سے زیادہ پٹرول کی قیمت میں اضافے پر اگر اپوزیشن سڑک پر نہیں آتی تو سمجھ لیں یہ سب باری کے منتظر ہیں، انہیں جب تک باری آنے کا عندیہ نہیں ملتا یہ ہل کر دینے کے نہیں۔
سیاست کی بازی میں پانسہ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ اپوزیشن ہر بار یہی دعویٰ کرکے بازی لگانے آتی ہے کہ اب کھیل اسی کا ہو گا لیکن اب تک جتنے داؤ کھیلے ہیں ان میں سے زیادہ تر ناکام رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر میدان میں کبھی آئی ہی نہیں۔ حلیف ہوں یا حریف، کھیل میں شامل دوسرے کھلاڑیوں پر پورا اعتبار کبھی کسی کو نہیں رہا۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کس کے ہاتھ میں کون سے پتے ہیں اور جانے کب کون بازی مار جائے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کچھ عرصہ قبل لاہور کو اپنی سیاست کا مرکز بنانے کا اعلان کیا تھا۔ لاہور اب واقعی ملکی سیاسی منظرنامے پر اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان رابطے اور ملاقاتیں اسی شہر لاہور میں ہوئی ہیں۔ شاید اپوزیشن کی یہی ملاقاتیں وزیراعظم عمران خان کو بھی لاہور کھینچ لائی ہیں۔ کپتان اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اتحادیوں سے ملاقاتوں کی ضرورت کو بھی سمجھ رہے ہیں۔
حکومتیں جب عوام مخالف فیصلے کرتی ہیں تو ان کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہیں انہیں صرف ایک دھکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ سب جماعتوں کو ہے۔ اسی لیے جب بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سیٹ اپ کو کوئی دھکا لگ سکتا ہے تو خفیہ معاملات شروع ہو جاتے ہیں، اپوزیشن بڑھکیں ہانکتی ہے اور عوام سمجھتے ہیں بس ان کا یوم حساب آ گیا، ٹی وی سکرینوں پر تماشا لگتا ہے، ایک دوسرے کی بھد اڑائی جاتی ہے، عوام اس تماشے کو اسی دلچسپی سے دیکھتے ہیں جیسے ہمارے پنجاب کے کچھ علاقوں میں مرغوں کی لڑائی دیکھی جاتی ہے۔ کوئی مرغا جتنا زور سے اپنے حریف کو ٹھونگا مارتا ہے اس مرغے کے مالک کے ساتھی اس سے زیادہ جوش و خروش سے اچھلتے ہیں۔ حریف مرغا حاوی دکھائی دیتا ہے تو دوسرا کیمپ نعروں اور تالیوں سے گونجتا ہے۔ مرغوں کی لڑائی دیکھنے والے چند لمحوں کے لیے اپنے مسائل بھول کر اس لڑائی سے اپنا کتھارسس کرتے ہیں اور گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
ٹی وی سکرینوں پر تو مرغے لڑتے ہیں لیکن اقتدار کی یہ کشمکش مجھے میانوالی اور گرد و نواح میں ہونے والی بٹیر کی لڑائی جیسی بھی دِکھتی ہے۔ کبھی ان علاقوں میں جائیں تو آپ کو چار سے چھ لوگ ایک بڑی سی چادر کے اندر سر ڈالے بیٹھے دکھائی دیں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ یہ خیال کریں گے کہ شاید گروپ میں نشہ آور شے استعمال کی جا رہی ہے۔ دراصل دو فریق اپنے اپنے بٹیر لڑانے کے لیے سر جوڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔ لڑائی بٹیر لڑتے ہیں اور لڑنے کے بعد ذبح کر دیئے جاتے ہیں، اور بٹیر کو لڑانے والے نئے بٹیر تیار کرنے اور انہیں لڑانے کی تیاری میں جت جاتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ بٹیر لڑانے والے دراصل سیاسی رہنما ہیں اور لڑنے والے بٹیر عوام ہیں جو اپنے لیڈروں کی خاطر بھوکوں لڑتے مرتے ہیں۔ لیڈر انہیں لڑا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں اور پھر قربان کر دیتے ہیں۔