تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     17-02-2022

اخلاقی شخصیت کی تشکیل …(حصہ اول)

تاریخِ انسانیت میں عہدِ رسالت مآبﷺ و عہدِ صحابہ کرام سمیت کوئی بھی انسانی معاشرہ ایسا نہیں گزرا کہ جس میں سرے سے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن و سنت اور شریعت میں حدود و تعزیرات کے احکام اور نظامِ عدل کی نوبت ہی نہ آتی۔ انسانیت کو جرم وگناہ سے واسطہ پڑتا رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ مختلف ادوار میں اخلاقی و تربیتی ماحول کے تناسب سے اس کا گراف کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں بھی جرائم کی روک تھام کے لیے تعزیراتی قوانین اور عدالتیں ہر ملک میں قائم ہیں۔ الغرض انسانیت کا اس پراجماع ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کے لیے وعظ و تذکیر، معاشرتی دبائو اور اصلاحی تحریکات ایک حد تک تو مفید ثابت ہو سکتی ہیں لیکن ان کے ذریعے جرائم سے معاشرے کی سو فیصد تطہیر عملاً ممکن نہیں ہے۔
قرآنِ کریم نے رسول اللہﷺ کے فرائضِ نبوت میں تعلیمِ کتاب و حکمت کے ساتھ ساتھ ایک فریضہ ''تزکیۂ نفس‘‘ کو قرار دیا ہے؛ یعنی وعظ و تذکیر، صحبتِ صالح اور روحانی تربیت کے ذریعے ظاہر کے ساتھ ساتھ لوگوں کے قلوب و اذہان کا بھی تزکیہ کرنا۔ آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ کی صورت میں ایسا ہی پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ صحابہ کرام خطا اور گناہ سے معصوم تھے، کیونکہ یہ نبوت کا خاصّہ ہے، لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی تعلیم و تربیت اور صحبت کی برکت سے اُن کے قلوب و اذہان اور باطن اتنا پاکیزہ ہو چکا تھا کہ اگر کسی وقت بشری کمزوری کے تحت اُن سے گناہ سرزد ہو جاتا، تو جب تک اس کا ازالہ نہ کرتے‘ انہیں چین نہ آتا۔
آج ہم جس صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس میں صرف عدالت و قانون اور سزاکا خوف ہی انسان کو کسی حد تک ارتکابِ جرم سے روکے رکھتا ہے یا اگر معاشرے میں خیر غالب ہے تو معاشرتی دبائو بھی انسان کو اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے کسی حد تک برائی سے روکے رکھتا ہے لیکن مکمل اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ اسلام میں خوفِ خدا اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو انسان کو جرم اور گناہ کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے۔
بعض اوقات انسانی معاشرے پر شر اس قدر غالب ہو جاتا ہے کہ لوگ برائی کے ارتکاب سے ایک درجہ آگے نکل کر اس کے عَلانیہ اظہار میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ انہیں اللہ تعالیٰ اور بندوں سے کوئی حیا یا حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ قومِ لوط کی اسی کیفیت کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے: ''کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور ڈاکا زنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں (عَلانیہ) برا کام کرتے ہو، تو اُن کی قوم کا جواب صرف یہ تھا: ہم پر اللہ کا عذاب لے آئو اگر تم سچے ہو‘‘ (العنکبوت: 29)۔ یعنی آخرت کی جزا و سزا پر عدمِ یقین انسان کو بے حیائی اور فسق و فجور کی اُس انتہا تک لے جاتا ہے کہ جرم عیب کے بجائے افتخار بن جاتا ہے۔ آج ہم تقریباً اسی طرح کے دور سے گزر رہے ہیں کہ جرم عیب نہیں رہا اور مجرم اپنے آپ کو قابلِ ملامت نہیں سمجھتا۔ پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا:
سچ میرے دور میں جرم ہے، عیب ہے
جھوٹ فنِّ عظیم، آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے، جَہل و بے رہ روی
ایک آزار ہے، آگہی یا نبی!
دشمنِ جاں ہوا، میرا اپنا لہو
میرے اندر عَدُوّ، میرے باہر عَدُوّ
ماجرائے تحیُّر ہے، پرسیدنی
صورتِ حال ہے دیدنی، یا نبی!
جس طرح صاف و شفاف اور سفید کپڑے پر کوئی داغ لگ جائے، تو نفیس طبع انسان بے قرار رہتا ہے کہ لوگوں کی نظر اس داغ پر پڑے گی لیکن اگر کوئی موٹر مکینک ہے یا پینٹنگ کا کام کر رہا ہے اور اس کے لباس پر سو داغ پہلے سے لگے ہوئے ہیں‘ اگر دس داغ اور بھی لگ جائیں تو اُسے بالکل کوئی بے چینی محسوس نہیں ہوتی۔ یہی صورتِ حال گناہوں کی آلودگی کی ہے کہ اگر دامنِ ایمان و عمل پہلے سے ہی داغ دار ہے‘ تو کسی تازہ گناہ کا داغ اُسے بے چین نہیں کرتا، لیکن اگر اُس کی لوحِ قلب و ذہن پاکیزہ ہے اور گناہ کا کوئی داغ لگ جائے‘ تو وہ بے قرار ہوجاتاہے تاوقتیکہ توبہ کر کے اور شریعت کے مطابق اس کا ازالہ کر کے اپنے قلب کو پاک نہ کر لے؛ تاہم یہ اُس صورت میں ہوتا ہے کہ ضمیر زندہ ہو اور اُس کے اندر قدرت نے خیر وشر میں تمیز کی جوصلاحیت رکھی ہے‘ وہ بدستور کام کر رہی ہو، ورنہ اُس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) ''ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جب تمہاری نیکی سے تمہیں سُرور نصیب ہو اور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے‘ تو تم مومن ہو۔ صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! گناہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جب کسی چیز سے تمہارے دل میں گھٹن محسوس ہو، تو اُسے چھوڑ دو‘‘ (مسند احمد: 22166)، (2) ''ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا، آپﷺ نے فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتا چل جائے‘‘ (ترمذی: 2389)۔
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نفسِ لوّامہ یعنی ضمیر خیر و شر کے لیے کسوٹی ہے، ٹیسٹنگ مشین ہے اور کوئی بھی ٹیسٹنگ مشین اُسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب وہ قابلِ کار ہو اور اگر مشین ناکارہ ہو جائے تو وہ صحیح نتیجہ نہیں دیتی۔ اسی طرح ضمیر مر جائے یا گناہوں سے آلودہ ہو جائے تو اُس کی صلاحیت معطّل ہو جاتی ہے۔ جس طرح کسی ناکارہ ٹیسٹنگ مشین کو دوبارہ قابلِ کار بنانے کے لیے اُسے Overhaul کیا جاتا ہے‘ ناقص پرزوں کو بدل دیا جاتا ہے اور پوری مشین کی سروس ٹیوننگ کر کے اُسے دوبارہ قابلِ کار بنایا جاتا ہے‘ اسی طرح ضمیر کی مُردنی کو حیاتِ نَو عطا کرنے اور اُسے دوبارہ قابلِ کار بنانے کے لیے توبہ کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ توبہ کے چھ مراحل ہیں: (الف) ماضی کے گناہوں کا اعتراف، (ب) اُن پر اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت، (ج) اللہ تعالیٰ سے اُن پر معافی طلب کرنا، (د) شریعت میں بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان کی تلافی کرنا، (ہ) آئندہ اُن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے پیمانِ وفا باندھنا، (و) اور اس پیمانِ وفا پر ثابت قدم رہنے کی اللہ تعالیٰ سے خیر کی توفیق مانگنا۔ اسی کو ''تَوبَۃُ النَّصُوْح‘‘ کہتے ہیں اور اسی کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''گناہوں سے (سچی) توبہ کرنے والا (گناہوں کی میل سے ایسا پاک ہو جاتا ہے) جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہ ہو‘‘ (ابن ماجہ: 4250)۔ (2) ''اگر کسی کا اونٹ صحرا میں (ساز و سامان سمیت) گم ہو جائے، (وہ تلاشِ بسیار کے باوجود اُس کو پانے سے بالکل ناامید ہو جائے) اور پھر اچانک وہ اونٹ (ساز و سامان سمیت) اُسے مل جائے‘ تو ایسے عالَم میں اُس شخص کو جتنی خوشی نصیب ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ کا (بھٹکا ہوا) بندہ جب توبہ کر کے اُس کی طرف واپس پلٹ آتا ہے، تو اُسے اُس شخص کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ خوشی ہوتی ہے‘‘ (بخاری: 6309)۔ اسی بامعنی توبہ کا نام ''تزکیۂ قلب‘‘ اور ''تطہیرِ نفس‘‘ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بے شک مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبا پڑ جاتا ہے، سو اگر وہ توبہ و استغفار کر لے تو اُس کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ (بروقت توبہ نہ کرے بلکہ) بدستور گناہ کیے جاتا رہے یہاں تک کہ گناہوں کی تاریکی اُس کے پورے دل پر چھا جائے، تو یہی وہ ''رَین‘‘ ہے، جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا: ''ہرگز نہیں! بلکہ اُن کے کرتوتوں کے سبب اُن کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے‘‘ (المطففین: 14)۔
مقبول توبہ کی تعریف قرآن مجید نے یہ کی ہے: ''اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن (گناہ گار بندوں کی) توبہ کو قبول کرنا اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے، جو نادانی میں گناہ کر بیٹھیں، پھر (جرم کا احساس ہوتے ہی) جلد توبہ کر لیں، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے‘‘۔ (النساء: 17)۔ اس کے برعکس ناقابلِ قبول توبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور اُن لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہے، جو (مسلسل) گناہ کرتے رہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت سر پر آ کھڑی ہو تو کہے: ''میں نے اب توبہ کی‘‘ اور نہ اُن لوگوں کی توبہ قبول ہے جن کی موت کفر کی حالت میں واقع ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ (النساء: 18)۔ اسی مفہوم کو رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ سکراتِ موت طاری ہونے کے مرحلے تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 4253)۔
مقبول توبہ کی معراج اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں بیان فرمائی ہے: ''اور (رحمن کے پسندیدہ بندے) وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور نہ وہ کسی ایسے (بے قصور) انسان کو قتل کرتے ہیں، جس کے ناحق قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اُسے دُگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اُس میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ مبتلا رہے گا، سوائے اُس کے جس نے (سچی) توبہ کر لی اور ایمان لایا اور (اس کے بعد) نیک عمل کرتا رہا، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘ (الفرقان: 68 تا 70)۔ اس پر بھی علماء کرام نے بحث کی ہے کہ اگر گناہ کی پاداش میں کسی پر قانونِ شریعت کے مطابق حد نافذ ہو جائے، تو کیا وہ آخرت کی جواب دہی سے بچ جائے گا؟، اس کے بارے میں علمائے احناف کا مؤقف یہ ہے کہ اگر دنیا میں سزا پانے سے قبل اُس نے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کر لی ہے، تو وہ آخرت کے مواخذے سے بچ جائے گا، ورنہ اگر اُس نے اپنے جرم کو جرم مانا ہی نہیں، تو دنیا وی سزا پانے کے باوجود آخرت کے مواخذے سے نہیں بچ سکے گا، یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور اعترافِ گناہ، احساسِ ندامت اور توبہ اُخروی مواخذے سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ مفسدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''سوائے اُن کے جو تمہارے اُن پر قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں‘‘ (المائدہ: 34)۔ حدیث شریف میں ہے: ''جس شخص نے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہو اور اُسے دنیا میں سزا دے دی گئی، تو وہ اُس کے لیے کفارہ ہے‘‘ (مسلم: 1709)۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے حوالہ جات کے ساتھ مسلّمہ فقہائے احناف کاموقف لکھا ہے: ''کبیرہ گناہوں کا مرتکب محض دنیاوی سزا سے توبہ کے بغیر آخرت کے مواخذے سے نہیں بچ سکتا‘‘ (شرح صحیح مسلم، ج: 4، ص: 878)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved