بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک کالج کی طالبہ مسکان خان حجاب کے خلاف مشتعل گروہ کی یلغارکے سامنے غیر متزلزل ایمان کے ساتھ جب ''اللہ اکبر‘‘کی صدا بلند کرتے ہوئے کالج کی عمارت کی طرف بڑھی تو ایسا محسوس ہوا جیسے انڈین مسلمانوں کی نئی نسل اپنی نظریاتی زندگی کا اہم سنگِ میل عبور کرنے والی ہے۔ یقین کی قوت سے لبریز ان مظاہر کی وڈیو مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی‘ کچھ ہی دیر میں خوف کے آسیب میں جکڑے مسلمانوں کے وجود میں آزادی کی نئی روح پھونک گئی۔ مسکان خان جیسی سچی مسلم لڑکی کی لمحہ بھرکی دلیرانہ مزاحمت کروڑوں مسلمانوں کو بھارت میں زندگی گزارنے کی راہ دکھا گئی ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیاجب بھارتی مسلمان آر ایس ایس کی مذہبی جارحیت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انڈیا میں ہندو مذہبی قوم پرستی انتہائوں کو چھو رہی ہے جہاں''گھر واپسی‘‘ جیسے نفرت انگیز نعروں کی گونج میں ہندو توا کی تحریکیں مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو مٹانے کی درپے ہیں۔ ان حالات میں مسکان خان نے اپنے عمل سے ایک ایسے سچے مومن کا نمونہ پیش کیا جو انجام کی پروا کیے بغیر ظالم اور ظلم کے سامنے سر نگوں نہیں ہوتا۔ بیشک مسلم عورت ایسی ہی اعلیٰ اخلاقی صفات کی حامل ہوسکتی ہے۔ وہ تمام مسلم خواتین‘ جنہوں نے مسکان خان کی مزاحمت کو دیکھا‘ اسی شجاعت کو مشعلِ راہ بنا کر سماجی آزادی اور اپنی مسلم نسوانی شناخت کے دوبارہ حصول کو ممکن بنا سکتی ہیں۔ بھارتی ایوانوں میں بیٹھے آر ایس ایس کے غنڈوں سے مسلمانوں کی حقیقی نجات کے لیے جاری جدوجہد میں مسکان کے رویے کو اہم قوت کے طورپہ شامل کرلیاگیا کیونکہ جس طرح مسکان خان نے اپنی مرضی سے برقع پہن کر آر ایس ایس کے ہجوم کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا‘ وہ بھارتی مسلمانوں کے مذہب اور تہذیب وثقافت کے تحفظ کی تحریک کی علامت بن گیا۔ مذہبی آزادی دراصل ثقافتی شناخت اور انسانی وقارکے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ شرفِ آدمیت کے لیے مزاحمت کی وہی قدریں ہیں جو مختلف شکلوں میں ہر دور میں ہمارے سامنے آتی رہیں۔
روزا پارکس نامی سیاہ فام عورت نے بس میں سفید فاموں کیلئے مختص الگ سیٹ چھوڑنے سے انکار کرکے امریکا کے تمام مظلوموں کے ذہن میں مساویانہ حقوق کی لو بھڑکاکر1960ء کی دہائی میں سیاہ فاموں کے شہری حقوق کی تحریک کوطاقت فراہم کی۔ آدھی یہودی‘ آدھی عیسائی خاتون ریچل کوری نے غزہ میں ایک مسلمان فلسطینی کاگھر مسمار ہونے سے بچانے کے لیے اسرائیلی بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوکر فلسطینیوں کو تہذیب سے عاری دشمنوں کے خلاف ایسی پُرعزم مزاحمت کی راہ دکھائی جو آج تک تھم نہیں سکی۔ سیدنا علیؓ کی بیٹی اور پیغمبر اسلامﷺ کی نواسی حضرت سیدہ زینبؓ نے واقعہ کربلا کے بعد اپنے عہد کی ابھرتی ہوئی سلطنت کے بادشاہ کے دربار میں حق کی آواز بلند کرکے ایسی مثال قائم کی جس نے چودہ صدیوں سے مرد و زن کے ذہنوں میں ظلم کے خلاف نفرت کی آگ روشن رکھی ہے۔ مسکان خان کا مذہبی آزادی سے متعلق مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پیدائشی طور حریت فکر کی حامل ایسی نڈر لڑکی ہے‘ جوشخصی وقار کے تحفظ کیلئے کھڑا ہونے کی ہمت رکھتی ہے۔ اس نے مدد طلب نظروں سے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے ایسے دلیرانہ کردارکی جھلک دکھائی جو بھارتی مسلمانوں کو باعزت جینے کا حق دلا سکتا ہے۔ یہ مسکان کی ہی للکار تھی جس نے عالمی انسانی شعورکوہندو اکثریت کی چیرہ دستیوں کی طرف متوجہ کیا۔ امریکی دفتر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے کہا: حجاب پر پابندی دراصل مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے علاوہ خواتین کو بے آبرو اور پسماندہ رکھنے کے مترادف ہے۔ مسکان کے مزاحمتی کردار کی بدولت ہی مغربی میڈیا نے بھی پہلی بار بھارت میں مذہبی قوم پرستی کی تحریکوں کی بربریت کا پردہ چاک کیا ہے۔
دسمبر میں کالج نے ایک سرکلر جاری کرکے کلاس رومز میں (مسلم) طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی لگاتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اس سے تعلیمی اداروں میں یکسانیت لائی جائے گی۔ صورتحال اس وقت بگڑی جب پچھلے مہینے مقامی گورنمنٹ نے پری یونیورسٹی کالج کی چند طالبات کو کلاس رومز میں داخل ہونے سے قبل حجاب اتارنے کو کہا مگر ان طالبات نے بغیر حجاب کے کلاسز میں جانے سے انکار کردیا۔ بنگلور کی وہ28 مسلم لڑکیاں چار دنوں تک کرناٹک میں پری یونیورسٹی کالج کے سامنے احتجاج کرتی رہیں جنہیں حجاب پہننے کے باعث یونیورسٹی آنے سے روکا گیا تھا۔ آہستہ آہستہ احتجاج کا سلسلہ جنوبی ریاست کے دیگر کالجوں تک بھی پھیل گیا۔ حجاب کو جواز بنا کرکنداپور کالج کی مسلم لڑکیوں کو الگ کرنے کے فیصلے نے مسلمانوںکوتفریق کا وہ احساس اجاگر کیا جسے مذہبی نسل پرستی اور مسلمانوں کو ویسے ہی اچھوت بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا جا رہا ہے جیسے ہندو سماج میں نچلی ذات کے افرادکے خلاف امتیازی سلوک کی ممنوعہ روایات ہیں۔ بھارت میں سرگرم مسلم طلبہ کی تنظیم کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نے ایک بیان میں حجاب پر پابندی کو دائیں بازو کی ہندو توا کی ملک گیر سازش قرار دیا ہے۔ مسلم خواتین کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے کی کوشش کے دوران سرکاری کالجوں کے گیٹ کے باہر کھڑی طالبات کی بے کسی کے مناظر نے بھارت کے پچیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ہے۔ کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب زعفرانی سکارف پہنے ہندو طلبہ‘ جنہیں ہندو قوم پرست گروہوں کی حمایت حاصل تھی‘ نے ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی حمایت میں پُرتشدد مظاہرے شروع کیے۔ نریندر مودی کے دور میں مسلمانوں اور ان کی مذہبی علامتوں کے خلاف حملوں میں اضافہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کرناٹک میں حجاب پر پابندی تب لگائی گئی جب مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمان اور عیسائیوں کو ریاست میں دائیں بازو کے ہندو گروپوں کے جارحانہ حملوں کا سامنا تھا۔ حکمراں بی جے پی نے حجاب پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا: تعلیمی ادارے میں مذہب پر عمل پیرا ہونے کی جگہ نہیں۔ لڑکیوں کو حجاب کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ دریں اثنا سبھاش چندر بوس کے پوتے چندر کمار بوس نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ رہنما اصول یکساں ہونے چاہئیں، اگر حجاب ممنوع ہے تو سندور، شنکھ پولا، پگڑی، کڑا اور ہر قسم کے دھاگوںوغیرہ پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ حجاب پہننے والی لڑکیوں کو غلط کیسے کہا جا سکتا ہے جب سکھ برادری کو سرکاری اداروں میں پگڑی پہننے کی اجازت دی گئی کیونکہ ان مذہبی علامتوں میں سے کوئی بھی مساوات، سالمیت اورامن و امان کو خراب کرنے کی وجہ نہیں بنتی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش‘ جو ''مذہبی علامت کے بغیر یکساں یونیفارم کوڈ‘‘ کے نفاذ پہ مصر ہیں‘ خود ماتھے پر کشکا کھینچ کر آفس میں جاتے ہیں۔
اگر مذہب ثقافتی روایت ہے تو کیا مذہب اور ثقافت کو الگ کرنا ممکن ہے؟ مذہب اور ثقافت کو الگ کرنا ممکن نہیں؛ تاہم اسلام کو مطلق ثقافت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ اسلام کا آفاقی جوہر عقلی قومیت کی اساس فراہم کرتا ہے جسے کسی بھی رنگ و نسل اور تہذیب و ثقافت کا حامل اپنانے کا حق رکھتا ہے۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مذہب ثقافتی اظہار کا وسیلہ بھی ہے؛ چنانچہ مذہب و ثقافت کو ہمیشہ باہم مربوط سمجھا گیا اوریہی وجہ ہے کہ مذہب کے عملی مظاہرکا مطالعہ کرنے کے طریقوں پر ثقافت کے اثرات نمایاں نظر آئے۔ روشن خیالی کا مطلب تو یہ تھا کہ تمام حقیقتوں کو یوںمرتب کیا جائے کہ قوموں اور افراد کی مساوی درجہ بندی ہوسکے مگر افسوس یہ درجہ بندی احترام ِانسانیت کے بجائے گروہوںکی نسلی شناخت پہ محمول رہی۔ اسی اصول کی تحت یورپ کے سفید فام لوگ 16ویں اور 17ویں صدی کے دوران کیپ کالونی کے قدیم باشندوں کو''انسان سے کم‘‘قرار دینے لگے‘ یہی سوچ جنوبی افریقہ کی ثقافتوںکے حوالے سے بھی غالب رہی، جس کا اختتام نسل پرستانہ قوانین پہ ہوا۔ اس عہد کے انسان کو ثقافتوں، نسلوں اور مذاہب کی درجہ بندی کے جدول پرنظرثانی کی ضرورت ہے، جس میں یہ بھی شامل ہو کہ ثقافتیں، نسلیں اور مختلف مذہبی وابستگی رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے تعلق کیسے رکھیں، اس عمل کو عقلی مفاہمت کا نام دیا جا سکتا ہے ‘ جسے لوگ شناخت کی تلاش سے ملتبس کر دیتے ہیں۔